Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Wazir e Azam Ki Nashist Mein Chand Off The Record Baatein

Wazir e Azam Ki Nashist Mein Chand Off The Record Baatein

وزیراعظم کی نشست میں چند"آف دی ریکارڈ" باتیں

قومی ترانے کے خالق مگر مشرقی پنجاب کے جالندھر سے تعلق رکھنے والے حفیظ کو "اہل زبان" شاعر نہیں مانتے تھے۔ اسی باعث انہیں خود کو بقول ان ہی کے "بہت زور"لگاکر خود کو شاعر منوانا پڑا۔ صحافی کو شاعر کی طرح شناخت سے زیادہ اپنی "اوقات" منوانے کے لئے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ میرا اس حوالے سے تکالگ گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1975ء میں اسلام آباد آگیا تھا۔

فیض احمد فیض کی خواہش ونگرانی میں نکالے سہ ماہی "ثقافت" کے لئے ترجمہ وتحقیق کا کام کرتا رہا۔ اپنے ذہن کو قومی ثقافت کی بنیادوں کی تلاش کے لئے تیار کرہی رہا تھا تو جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگانے کے بعد "ثقافت" کی بابت اٹھے سوالات کے جواب بھی فراہم کردئے۔ اس ضمن میں تحقیق کی ضرورت باقی نہ رہی۔ استعفیٰ دے کر اخبارات میں نوکری ڈھونڈنا شروع ہوگیا۔

نوکری مل جاتی تو تین سے زیادہ مہینوں تک برقرار نہ رہ پاتی۔ اس کے بعد بیروزگاری کے وقفے طویل سے طویل تر ہوتے چلے گئے۔ سوچا لندن جاکر علم حاصل کروں۔ وہاں مقیم ہوا مگر پاکستان ہی کے بارے میں سوچتا رہا۔ بالآخر 1981ء میں اسلام آباد واپس آگیا اور یہاں انگریزی زبان میں نکالے روزنامہ "دی مسلم" میں جرائم اور ثقافت کے بارے میں خبریں اور کالم لکھنا شروع ہوگیا۔

1984ء میں بھارت کی وزیر اعظم اندراگاندھی قتل ہوگئیں تو نئے انتخابات کی کوریج کے لئے اپنے مدیر مشاہد حسین سید صاحب کی مکمل پشت پناہی کی بدولت دہلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچنے کے دوسرے ہی دن بڑھک لگادی کہ راجیو گاندھی کو ریکارڈ نمبروں سے فتح نصیب ہوگی۔ بھارتی اور عالمی میڈیا جبکہ اندراگاندھی کے قتل کے بعد ایک کمزور کولیشن حکومت کی فضا بنارہا تھا۔ انتخابی نتائج آئے تو میں درست ثابت ہوا۔ اس کی بدولت سفارتی حلقوں اور انگریزی پڑھنے والوں میں تھوڑا "رعب" پڑگیا۔ اس کے بعد "1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے"۔

شہری متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی اکثریت اس امر پر متفق تھی کہ ووٹروں کی انتہائی قلیل تعداد مذکورہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکلے گی۔ انتخابات میں ٹرن آئوٹ بھی اس سے قبل ضیاء کے منعقد کئے ریفرنڈم جیسا ہوگا۔ میں نے مگر انتہائی قلیل بجٹ کے ساتھ دور دراز علاقوں میں واقع دیہات کے سفر کئے تو اندازہ ہوا کہ خلق خدا کی اکثریت اپنے روزمرہّ مسائل کے حل کے لئے "نمائندوں" کی منتظر ہے۔ دیہی علاقوں میں لہٰذا ریکارڈ ٹرن آئوٹ ہوگا۔ میری یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہوگئی تو "صحافی" مان لیا گیا۔ اس شناخت میں مزید اضافے کے لئے میں نے پارلیمانی اجلاسوں کی کارروائی کی بابت پریس گیلری لکھنا شروع کردی۔ اس کی بدولت وزرائے اعظم اور ان کے طاقتور مشیروں تک رسائی بھی حاصل ہونا شروع ہوگئی۔ ان میں سے چند ون آن ون ملاقاتوں کے لئے بھی بلانے لگے۔

سچی بات ہے مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سوا کسی اور سیاستدان سے اکیلے میں ملاقات کا کبھی مزا نہیں آیا۔ وہ اپنی کہی بات کی حمایت میں ڈٹ کر دلائل دیتیں۔ ان کا مؤثر جواب ملے تو اعتراف کئے بغیر اپنی رائے بدل بھی لیتیں۔ محترمہ کے انتقال کے بعد میں نے وزرائے اعظم کی جانب سے منعقد ہوئی بریفنگز سے کترانا شروع کردیا۔ ویسے بھی پرنٹ کی جگہ اب ٹی وی پر چھائے اینکر "خواتین وحضرات" ذہن سازی کے لئے زیادہ مؤثر سمجھے جاتے ہیں۔ ٹی وی سکرین سے عمران حکومت نے فارغ کروادیا تھا۔ گھر تک محدود ہوئے یہ کالم لکھنا شروع ہوگیا۔ اتوار کی سہ پہر لیکن مجھے بہت حیرت ہوئی جب وفاقی وزیر اطلاعات جناب عطاء اللہ تارڑ صاحب نے ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے مجھے چائے کی ایک دعوت میں شرکت کو مدعو کیا جہاں وزیر اعظم پاکستانی صحافیوں کے ایک گروہ کو اہم معاملات پر بریفنگ دینا چاہ رہے تھے۔

وزیر اعظم ہائوس میں اس سے قبل کم از کم پندرہ برس سے ایک بار بھی نہیں گیا تھا۔ وہاں صحافیوں کے لئے منعقد ہوئی بریفنگز سے عادتاََ گریز کرتا رہا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسی بریفنگز میں وزرائے اعظم سے مختصر سوال کے بعد کچھ جاننے کی بجائے میرے صحافی دوست عموماََ انہیں اپنے "گرانقدر خیالات" کے اظہار سے "نیک راہ" پر چلانے کے خواہشمند ہوا کرتے تھے۔ مجھے حکمرانوں کی مشاورت کی ہرگز تمنا نہیں۔ امریکہ میں ایک محاورہ ہے جو بہت باتونی اور عقل کل بنے شخص سے سوال کرتا ہے کہ اگر تم اتنے ذہین ہو تو بہت امیر کیوں نہیں بنے۔ حکمرانی کے ہنر سے اگر میں آگاہ ہوتا تو عمر کے اس حصے میں بھی ہفتے کے پانچ روز صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کو مجبور نہ ہوتا۔

پیر کی سہ پہر لیکن عطاء اللہ تارڑ کی خواہش پر میں وزیر اعظم کی بریفنگ سننے گیا۔ شہباز شریف صاحب نے ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، خصوصی مشیر رانا ثناء اللہ اور عطاء اللہ تارڑ کو اپنے ہمراہ بٹھا کر مجھ سے کہیں مقبول و مؤثر صحافیوں کے ایک گروہ کو اپنی حکومتی پالیسیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیر اعظم کی "رہ نمائی" کے لئے گرانقدر خیالات کے اظہار کے بجائے ان سے مختصر اور ٹو دی پوائنٹ سوالات ہوئے۔

اس بریفنگ میں جو کچھ وزیر اعظم نے آن دی ریکارڈ کہا وہ اخباروں اور ٹی وی سکرینوں کے توسط سے آپ کے سامنے آچکا ہے۔ میں ایک روز گزرجانے کے بعد اس میں اضافے کے قابل نہیں۔ ایک شے مگر بیان کرنا لازمی ہے۔ شہباز صاحب سے میں 1990ء میں پہلی بار ملا تھا۔ اس برس کے بعد ان سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوئی۔ ان مختصر ملاقاتوں کے دوران وہ ہمیشہ متفکر اور ہر معاملے میں جلدی دکھانے کو بے تاب نظر آئے۔ پیر کی سہ پہر وہ انگریزی محاورے والے Man in total controlوالے اعتماد کا مظہر تھے۔ ایک مرتبہ بھی ان کی آواز جذبات میں نہ تو بلند ہوئی نہ تیز۔ انہیں اعتماد ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دلوانے کے لئے آئندہ بجٹ کے حوالے سے چند باتیں منوالیں گے۔

اس تناظر میں انہوں نے چند "آف دی ریکارڈ" تفصیلات بھی بتائیں۔ اہم ترین پیغام ان کی بریفنگ کا میری دانست میں یہ تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی 6 سے 10مئی کے دوران اپنی افواج اور ملک کی ہوئی خفت کا بدلہ چکانے پاکستان کے خلاف کوئی اور حملے کی جسارت نہیں کرے گا۔ امریکی صدر کے پاک-بھارت کشیدگی کے دوران اپنائے رویے نے وزیر اعظم پاکستان کو خوشگوار انداز میں حیران کیا ہے۔ انہیں گماں ہے کہ صدر ٹرمپ پاک-بھارت جنگ رکوانے میں اپنا رول ادا کرتے رہیں گے۔ امریکی صدر کی ترجیحات میں پاک-بھارت کشیدگی کے خاتمے کی خواہش برقرار رکھنے کے لئے وہ ان کا جی لبھانے کوچند ایسے ٹھوس اقدامات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں جو امریکی صدر کی "ٹیرف" کے حوالے سے اپنائی ضد کو تسکین پہنچاتے ہوئے پاکستان کے لئے بھی اقتصادی اعتبار سے خیر کی خبر لاسکتا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

The Identity Code (2)

By Muhammad Saqib