پلٹے کھاتی ہماری معیشت اور وزیر خزانہ کی محض خوش بیانیاں

انگریزی کا ایک محاورہ یاد دلاتا ہے کہ بوڑھا گھوڑا نئے کرتب سیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے باوجود یہ قلم گھسیٹ ابھی تک جی ڈی پی اور جی این پی میں فرق سمجھ نہیں پایا۔ سارا دھیان ملکی سیاست اور خارجہ امور پر توجہ دینے میں صرف کردیا۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت کے آغاز ہی سے وطن عزیز میں سیاست "ہائی برڈ" ہونا شروع ہوگئی۔
بالآخر جنہیں "ووٹ کو عزت" دلوانا تھی وہ بارہ منٹ کی ریکارڈ مدت میں باجوہ کی مدتِ ملازمت میں تین سالہ توسیع کے قانون پر فدویانہ انگوٹھے لگانے کو رضا مند ہوگئے۔ "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" کے دعوے دار بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ معیادِ ملازمت میں تین سال اضافے والا قانون اس حکومت نے متعارف کروایا جسے "تبدیلی" لانا تھی۔ ان دنوں میرکی طرح خوار پھررہے ہیں۔ ایسے عالم میں دو ٹکے کا رپورٹر سیاست پر کیا لکھے۔ خارجہ امور بھی اب وزیر اعظم مقتدرہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر طے کرلیتے ہیں۔ اخباروں میں چھپی رائے کے اس ضمن میں طلب گار نہیں رہے۔ روز کی روٹی کمانے کو مجبور صحافی کو دیگر موضوعات پر لکھنا ہوگا۔
دیگر موضوعات کی تلاش میں فیصلہ کیا کہ معاشی امور سے نابلد ہونے کے باوجود ان میں جھانکا تو جائے۔ جو ارادہ باندھا تھا اس کی تکمیل کے لئے پیر کے روز دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آگیا اور ریموٹ دباکر ٹی وی آن کردیا۔ وزیر خزانہ کی جانب سے گزرے مالی برس کا اقتصادی جائزہ پیش ہونا تھا۔ نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل اقتصادی سروے کی رونمائی پرانی روایت ہے۔ اسے غور سے سن کر اقتصادی امور کے ماہر نئے مالی سال کے بجٹ کے خدوخال کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ فی الحال مجھے یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس بغور سنتے ہوئے کوشش فقط اتنی رہی کہ ملکی معیشت کی موجودہ حیثیت جان لوں۔
وزیر خزانہ اورنگزیب صاحب ایک تجربہ کار اورمعروف بینکار ہیں۔ جنرل مشرف کے چہیتے وزیر خزانہ بھی ایک بینکار تھے۔ وہ "سب اچھا" دکھانے کے ماہر تھے۔ ماہر نہ بھی ہوتے تو امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں "دہشت گردی" کے خلاف لڑی جنگ نے پاکستان کو سرمایہ دار ممالک اور اداروں کا چہیتا بنارکھا تھا۔ بازار میں رونق اس کی وجہ سے کئی برسوں تک لگی رہی۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک قلعہ نما گھر سے برآمدگی نے مگر اس رونق کو جھٹکا پہنچایا۔ اسی جھٹکے نے مشرف کے زوال کے اسباب بھی مہیا کردئے۔
2008ء تک پہنچے تو عالمی معیشت میں شدید کساد بازاری آگئی۔ اسی برس ہمارے ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے طفیل "جمہوری حکومت" قائم ہوئی۔ عالمی منڈی میں پھیلی کساد بازاری کا اثر ہم تک بھی پہنچا۔ سیاق وسباق سمجھے بنا ہم نے دوش اس کا "جمہوریت" کو دیا۔ جمہوریت بدنام ہوئی تو افتخار چودھری کی سپریم کورٹ "کرپشن" کو اقتصادی بدحالی کا واحد سبب ٹھہرانے کو ڈٹ گئی۔
آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے بازار میں رونق لگانے کیلئے بینکاری کے شعبے سے ایک اور وزیر خزانہ مستعار لیا۔ نام ان کا بھی شوکت تھا مگر ان کا نام ختم "عزیز" کے بجائے "ترین" پر ہوتا تھا۔ ترین کے لاحقے والے شوکت رعونت کی مجسم علامت تھے۔ زیادہ عرصہ ٹھہر نہ پائے۔ ان کی جگہ حفیظ شیخ کو لانا پڑا۔ دریں اثناء افتخار چودھری نے گیلانی کو گھر بھیج دیا۔ اس کے بعد راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی کو یاد آگیا کہ ان کے پاس سید نوید قمر موجود ہیں جو اچھے وزیر خزانہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کی حکومت کے دن مگر تھوڑے تھے۔ نئے انتخاب ہوئے اور اسحاق ڈار ہی 2018ء تک ہمارے وزیر خزانہ رہے۔ ان کو بھی لیکن سپریم کورٹ کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔ شاہد خاقان عباسی نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد ہمارے وزیر اعظم تھے۔ ڈار صاحب کی عدم موجودگی سے گھبرائے نہیں۔
2018ء میں بالآخر "تبدیلی کی حکومت" آگئی۔ خیال تھا کہ ان کے پاس ملک کی معاشی تقدیر بدلنے کے لئے اسد عمر نام کا ایک نابغہ موجود ہے۔ 2019ء کا بجٹ پیش کرنے سے قبل مگر ان کی چھٹی کروادی گئی کیونکہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے خیال میں ہمارا ملک دیوالیہ کی جانب لڑھک رہا تھا۔ ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لئے ایک بار پھرحفیظ شیخ بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ہماری معیشت "بحال" کرنے لگے۔ معاشی "بحالی" کے عمل نے مگر عوام کی چیخیں نکلوادیں۔ انہیں بھی برطرف کرنا پڑا اور شوکت ترین وزارت خزانہ کے منصب پر لوٹ آئے۔
شوکت ترین کے ہوتے ہوئے کرونا کی وباء نے دنیا بھر میں معیشت کو مفلوج بنادیا۔ آئی ایم ایف اس کی وجہ سے تھوڑی نرم دلی دکھانے کو مجبور ہوئی۔ اس کی نرمی سے بازار میں رونق لوٹتی نظر آئی۔ کرونا کی وباء ختم ہوتے ہی مگر آئی ایم ایف کو وہ معاہدہ یاد آگیا جو پاکستانی معیشت سنبھالنے کے نام پر ہوا تھا۔ بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمت اس معاہدے کے تحت بتدریج بڑھانا تھیں۔ شوکت ترین نے مگر نہایت رعونت سے آئی ایم ایف کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا۔ "قومی حمیت کے تحفظ" کے نام پر عمران خان نے ان کے مشورے کو دل وجان سے قبول کرلیا اور نتیجہ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کی بدولت وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے ذریعے بھگتا۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سیاسی اعتبار سے بہتر تھا کہ ملکی معیشت کی حقیقی شکل عوام کے روبرو رکھ کر نئے انتخاب کروائے جاتے۔ قمر جاوید باجوہ کی ترجیحات مگر کچھ اور تھیں۔ موصوف نے عمران خان کا خوف برقرار رکھتے ہوئے شہباز شریف کو وفاقی حکومت کی آئینی مدت مکمل کرنے کو مجبور کیا۔ مفتاح اسماعیل ان کے وزیر خزانہ تھے۔ اپنا منصب سنبھالتے ہی وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر دھڑادھڑ عمل کرنے کو مجبور ہوگئے۔ تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں تو لوگوں کو عمران خان "مسیحا" کی صورت یاد آنے لگے۔ شہباز شریف نے مفتاح اسماعیل کو قربانی کا بکرا بناکر اپنے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ میں واپس لے آئے۔
2024کے انتخابات کے بعد قائم ہوا حکومتی بندوبست مگر ڈار صاحب کی "معاشی سوچ" کو مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بینکاری کے نظام ہی سے ایک اور بھاری بھر کم نام -محمد اورنگزیب- جو شریف خاندان کے دوست بھی ہیں وزیر خزانہ بنادئے گئے۔ اورنگزیب صاحب کی طاقت کا "سرچشمہ" مگر محض شریف خاندان سے دوستانہ تعلق نہیں ہے۔ ریاست کے طاقتور ترین ادارے میں بھی ان کو سراہنے والے موجود ہیں۔ اورنگزیب صاحب لہٰذا انتہائی اعتماد سے اپنی ترجیح کے عین مطابق معاشی پالیسیاں طے کررہے ہیں۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے بھی ان کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ غالباََ اسی باعث اورنگزیب صاحب جب بھی کیمروں کے روبرو آتے ہیں تو ان کا اعتماد دیدنی ہوتا ہے۔ شوکت عزیز کی طرح چکنی چپڑی باتوں سے جی نہیں لبھاتے۔ شوکت ترین والی رعونت سے بھی گریز کرتے ہیں۔ چہرے پر فطری دِکھتی مسکراہٹ سے مشکل ترین سوالوں کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جان کی امان پاتے ہوئے مگر یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ پیر کی سہ پہر اقتصادی سروے کے بارے میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اورنگزیب صاحب ایک بنیادی نکتے کی بابت تگڑے اور اعدادوشمار پر مبنی جواب فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آئے۔ اقتصادی سروے میں دعویٰ ہوا ہے کہ گزشتہ مالیاتی سال میں شرح نمو 2 اعشاریہ 7 فی صد رہی ہے۔ معاشی امور پر بہت محنت سے لکھنے والے -شہباز رانا- نے مگر انہیں یاد دلایا کہ ٹھوس اعدادوشمار یہ بتارہے ہیں کہ گزشتہ 8مہینوں میں شرح نمو 2فی صد کا ہدف بھی نہیں چھوپائی۔ محض یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ گزرے مالی سال کے آخری چار مہینوں کے دوران جو اعدادوشمار جمع ہوں گے وہ شرح نمو کو 2اعشاریہ 7فی صد تک لے جائیں گے۔ معاشی طورپر مجھ جاہل کو اس سوال کا تشفی بخش جواب چاہیے تھا۔ اورنگزیب صاحب اسے فراہم کرنے کے بجائے Data Collectionکے گنجلک موضوع پر ایک لیکچر نما خطاب دینا شروع ہوگئے۔ مجھ جاہل کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔
اقتصادی سروے کا بنیادی پیغام مجھ جاہل کو یہ بھی ملا ہے کہ پاکستان میں زراعت کا حال بہت برا ہے۔ وزیر خزانہ نے مالیاتی یا موسمیاتی تبدیلیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ ان کا فرمانا بجالیکن موسمی تبدیلیاں ہی زراعت کی تباہی کا واحد سبب نہیں۔ گندم، مکئی اور چاول کی فصلوں کو نقصان ہماری غذائی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتا ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں مستقل فکرمندرہنا ہوگا۔