Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Bharat Ka Aabi Jang Ka Mehaz Jhaka

Bharat Ka Aabi Jang Ka Mehaz Jhaka

بھارت کا آبی جنگ کا محض "جھاکا"

پیدائشی بزدل ہونے کے علاوہ افغانستان، عراق اور لبنان پر مسلط ہوئی جنگوں کا برسرزمین جاکر مشاہدہ کرنے کے بعد میں دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ کے امکانات اجاگر ہوتے ہی گھبراجاتا ہوں۔ بھارت اور پاکستان تو ویسے ہی ایک دوسرے کے قریبی ہمسائے ہیں۔ گزشتہ ماہ کی 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کی پہل گام تحصیل میں واقع بائی سرن وادی پر ایک سفاکانہ حملہ ہوا۔ دہشت گردوں نے مذکورہ حملے کے دوران 26کے قریب سیاحوں کو ان کی ہندو شناخت جاننے کے بعد گولیوں سے بھون دیا۔ جس انداز میں یہ کارروائی ہوئی ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے۔

واقعہ کی شدت مگر اس امرکا تقاضہ کرتی ہے کہ بھارتی ریاست اپنے تمام تر انٹیلی جنس اداروں کی اجتماعی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے۔ انہیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ مذکورہ مشقت سے گزرنے کے بجائے بھارت نے فی الفور نہایت ڈھٹائی سے پہل گام واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرادیا۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے پاکستان آرمی چیف کی اس تقریر کو بطور حوالہ دہرانا شروع کردیا جو انہوں نے حال ہی میں ہوئے اورسیز پاکستانیوں کے کنونشن کے دوران کی تھی۔ اس خطاب کے دوران "دو قومی نظریہ" کا جذباتی شدت سے دفاع ہوا تھا۔

دو قومی نظریہ کے دفاع میں ہوئی تقریر کے پہل گام واقعے سے رابطہ جوڑنے کے لئے آپ کو تخیل کی ویسی ہی پرواز درکار ہے جو بھارت کی بالی وڈ میں کام کرنے والے تخلیق کاروں کو میسر ہے۔ دور کی ایسی کوڑی لانا مگر پاک- بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے والے کو 2000ء کا مارچ بھی یاد دلاتا ہے جب ان دنوں کے امریکی صدر کلنٹن نے بھارت کا ایک دورہ کرنا تھا۔ اس دورے کے عین قریب مقبوضہ کشمیر کے ایک گائوں چھتیس گڑھ میں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ ذمہ داری "پاکستان سے آئے"مذہبی انتہا پسندوں کے دہشت گردوں پر ڈال دی گئی۔ بعدازاں کئی لکھاریوں نے آزادانہ تحقیق کی بدولت اسے بھارتی ریاست کا رچایا "فالس فلیگ آپریشن" قرار دیا۔ اس کے علاوہ دو برطانوی صحافیوں کی جاں گسل تحقیق کے بعد لکھی ایک کتاب بھی یاد آجاتی ہے جو 5یورپی سیاحوں کے اغواء کے حوالے سے بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی بے اعتنائی عیاں کرتی ہے۔

بہرحال پہل گام واقعہ کی ذمہ داری پاکستان کے سرڈالنے کے بعد بھارت نے اپنی کابینہ کا اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کرنے والی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ بھارتی وزیر اعظم کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے پاکستان کے خلاف چند اقدامات لینے کا فیصلہ کیا۔ سندھ طاس معاہدہ کا تعطل ان میں سرفہرست تھا۔ یاد رہے کہ بھارت اس سے قبل بھی حکومت پاکستان کو چٹھیاں لکھ کر سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کرچکا ہے۔ پاکستان مصر ہے کہ مذکورہ معاہدہ دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین نہیں ہوا۔ اس میں ایک تیسرا فریق -ورلڈ بینک- نہ صرف ملوث ہے بلکہ اس معاہدے پر کامل عمل درآمد یقینی بنانے کا ذمہ دار بھی ہے۔

عالم طیش میں بھارت کا ٹھوس حقائق کو یکسر نظرانداز کرنا سمجھا جاسکتا ہے۔ اتوار کی دوپہر سے مگر پاکستانی چینلوں نے چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ذریعے یہ "خبر" پھیلانا شروع کردی کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف "آبی جنگ" کا آغاز کردیا ہے۔ جس "آغاز" کا ذکر ہوا ہے اس کی بنیاد بھارت کی مشہور صحافی برکھادت کا چلایا ایک یوٹیوب چینل ہے۔ موصوفہ کارگل جنگ کے دنوں میں سکرین پر نمودار ہوئی تھیں۔ اس جنگ کی رپورٹنگ نے انہیں بھارت کی کرسٹنا امان پوربنادیا جو CNNکے لئے عراق پر نازل کی پہلی جنگ کی وجہ سے مشہور ہوئی تھیں۔

برکھادت اپنے تعصبات کے باوجود ایک محنتی رپورٹر ہے۔ گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں رہی۔ وہاں اڑی کے مقام پر پاک-بھارت سرحد کے عین قریب کھڑے ہوکر بھی رپورٹنگ کی۔ اس نے ہی وہاں سے یہ اعلان کیا کہ بھارت نے پاکستان کو دریائے چناب سے جانے والا "پانی بند کردیا ہے"۔ دوملکوں کے درمیان لہٰذا آبی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ برکھادت نے طبلِ جنگ بجایا تو ہمارے ہاں سے سوال اٹھنے لگے کہ پاکستان اپنے حصے کا پانی وصول کرنے کے لئے کب "آگے بڑھے گا"۔

یہ سوال اٹھاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ بھارت تمام تر تیاریوں کے باوجود پاکستان پر اب تک حملہ آور اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ بین الاقوامی اداروں میں اس کے قریب ترین دوست جن میں امریکہ سر فہرست ہے مسلسل یہ "مشورہ" دے رہے ہیں کہ بھارت جنوبی ایشیاء کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر پہل گام حملے کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے کی کوشش کرے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی جانب سے اٹھایا "جارحانہ عمل" اسے بھرپورجنگ چھیڑنے کا جواز فراہم کردے گا۔ ہمیں لہٰذا نہایت بردبار تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پاک -بھارت چپقلش کا ادنیٰ مگر دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ بھارت نے بھی "آبی جنگ" کا آغاز نہیں کیا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق محض "جھاکہ" دیا ہے۔ "ٹریلر" چلایا ہے جسے رعونت سے نظرانداز کردینا چاہیے۔ میری بات سمجھنے کے لئے جان لیجئے کہ بھارت نے چناب پر دوڈیم بنارکھے ہیں۔ ان دونوں کا مقصد بجلی پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ بگلیہار اور سلال ان دوڈیموں کے نام ہیں اور بجلی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ذخیرہ ہوئے پانی کو تیزی سے رواں دریا کے پانی میں واپس بھیجا جائے۔

بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے جو انتظامات ہیں ان کے تحت 900میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 475ملین کیوبک میٹر فٹ پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ اب کی بار مطلوبہ تعداد جمع کرنے کے لئے جدید ترین مشینوں سے ذخیرہ میں سے مٹی نکالی گئی۔ اس کے بعد جو پانی جمع ہورہا ہے اسے زیادہ سے زیادہ پانچ دنوں تک وہاں روکا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ دن اگر پانی روکا گیا تو چناب سیلاب برپا کرنے کو مجبور ہوجائے گا اور مطلوبہ بجلی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ بگلیہار کی نسبت سلال چھوٹا ڈیم ہے۔ وہاں سے 690میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے239ملین کیوبک میٹر پانی جمع ہوجاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سے زیادہ دو دنوں تک روکا جاسکتا ہے۔

قصہ مختصربرکھادت کے "دورہ مقبوضہ کشمیر" کی بدولت بھارت بنیادی طورپر پاکستان کے خلاف آبی جنگ "شروع" کردینے کی محض بڑھک لگارہا ہے تاکہ پاکستان مشتعل ہوکر کوئی ایسا قدم اٹھائے جو بھارت کو ایک بھرپور جنگ مسلط کرنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔ ہمیں اس کے جھانسے میں آنے سے ہر صورت گریز کرناہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Meri Takmeel Aap Se Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq