لذتِ آشنائی اور اردو فارسی
اردو اور فارسی کے روابط اور شعری مجموعہ "لذتِ آشنائی" دونوں کتابیں علم وسخن کے اعتبار سے قابل قدر اور اہم معلومات کے در وا کرتی ہیں " لذتِ آشنائی" کے تخلیق کار پروفیسر خیال آفاقی ہیں۔ شاعری، ادب، تنقید نگاری اور درس وتدریس کے حوالے سے اپنا تعارف آپ کہ ہوا بہارکی ہے، میری اپنی معلومات کے اعتبار سے انھوں نے شعروادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔
وہ افسانہ نگار ہیں، ناول نویس اور بہت اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں، انھوں نے بے شمارکتابیں لکھیں اور ان کی تحریروں کو بے پناہ پذیرائی ملی، ایک کتاب کے مولف بھی ہیں نام ہے اس کا "رسول اعظمؐ" مذکورہ کتاب کو محبان اسلام نے بے حد پسند کیا اور داد و تحسین سے نوازا۔ مقصود پرویز نے ان کا مختصر سا تعارف بھی "خیال آشنائی" کے عنوان سے تحریر کیا ہے وہ لکھتے ہیں " پروفیسر خیال آفاقی کا یہ ساتواں شعری مجموعہ ہے، جس کو مرتب کرنے کا اعزاز اس خاکسارکو مل رہا ہے، پروفیسر صاحب نے کیونکہ نظم ونثر دونوں اصناف میں اس قدر لکھا ہے جس کی فہرست طویل ہے۔
انھوں نے "رسول اعظمؐ" کی تالیف کے بعد اپنے والد محترم قبلہ صوفی علاؤالدین نقشبندی مجددیؒ کی سوانح "خدا دوست" اور پھر علامہ اقبال کی حیات اور فکر وفن پر "شاعرِ اسلام" کے نام سے کتاب لکھنے میں مصروف رہے۔"
مقصود پرویز صاحب کی کاوش کا ثمر لذتِ آشنائی منصہ شہود پر اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ پروفیسرخیال آفاقی نے اپنے ہی تخلیق کردہ شعر سے کتاب کا نام تجویزکیا ہے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
ایک اورشعر جس میں عشق کی داستان کو استعاروں کی زبان عطا کی ہے۔
مجھے قلم، فرہادکو تیشہ، مجنوں کوکشکول دیا
عشق نے دل والوں کو جو بھی کام دیا، انمول دیا
شاعر نے "الحمدللہ" کی سرخی اور حمدیہ اشعارکے ساتھ ندرتِ بیان اور سطوت الفاظ کا خوبصورت گلدستہ قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے، اس کی مہک سے دل ودماغ معطر ہی نہیں ہوئے بلکہ شاعرکی سوچ اور آگہی کا دیا روشن ہو گیا ہے۔ فرماتے ہیں :
شمار روز و شب کو استعارہ کرتا رہتا ہوں
خزاں ہو کہ بہار اللہ ہی اللہ کرتا رہتا ہوں
مجھے معلوم ہے کیا ہے حقیقت میرے سجدوں کی
تیرے نزدیک ہونے کا بہانہ کرتا رہتا ہوں
سبحان اللہ! اللہ والوں کو ہر پل ایک ہی فکر رہتی ہے کہ ان کا رب ان سے راضی رہے تاکہ ان کی بخشش کا سامان ہو سکے۔ شاعر بھی آس لگائے بیٹھے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اس طرح دعا گو ہیں۔
عطا کر دے مجھے اشکِ رواں آہِ سحر گاہی
میری بخشش کا یا رب کوئی تو سامان ہوجائے
بنا دے میری تیرہ شب کو کہکشاں یا رب
طلوعِ صبح جس کو دیکھ کے حیران ہو جائے
پروفیسر خیال آفاقی کی شاعری میں علامہ اقبال کے فہم و ادراک اور لفظوں کی اثر انگیزی، شعلہ بیانی کی تپش اور حلاوت محسوس ہوتی ہے چند اشعار نمونے کے طور پر:
چھوڑ صدیوں اور قرنوں کا بیاں
آ بتاؤں میں تجھے تاریخ داں
حرفِ کن سے صورِ اسرافیل تک
اک لمحے کی فقط ہے داستاں
صف شکن محمد علی کی مدح سرائی جوکہ حقیقت پر مبنی ہے، اس طرح کرتے ہیں :
ہر ایک شے کا مقدر فنا سے ہے منسوب
حیات سب سے زیادہ اجل کو ہے مطلوب
تیری نظر تھی عقابی ترا جگر تھا چٹان
کہ تیری ضرب میں ضربِ کلیم کا تھا گماں
تھا اک زمانہ تیری گفتگو سے سحر زدہ
ترا حریف بھی خوش ہو کہ لوٹتا تھا مزہ
479 صفحات پر مشتمل کتاب ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان کی ہے۔ بقول ڈاکٹر جمیل الدین عالی "اردو اور فارسی کے روابط پر یہ مقالہ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان کا ہے، جس پر جامعہ کراچی نے انھیں 2002 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی" اپنے مضمون "حرفِ چند" میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی لکھتے ہیں اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں فارسی زبان کا اہم حصہ ہے مگر فارسی اردو روابط کے سلسلے میں بہت کم کام ہوا ہے۔ فارسی کے علاوہ اردو زبان پر عربی، ترکی، انگریزی اور سب سے بڑھ کر قدیم ہندی زبان کے نمایاں اثرات ہیں، زبان علوم کی ماں ہے، اس لیے اس کی ترقی کے بغیر علوم کی ترقی مشکل ہے۔
کتاب میں چھ ابواب شامل ہیں پہلے باب میں برصغیر میں مسلمانوں کی آمد، پہلا دور، عربی سندھی روابط، دوسرا دور دری (فارسی) اردو روابط تیسرے اور چوتھے ادوار میں فارسی اردو روابط اور فروغِ اردو شامل ہیں اسی طرح دوسرے ابواب میں بھی اردو فارسی عربی، ترکی ہند آریائی زبانوں کے روابط کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہے۔ علم اور علمِ بیان، تلمیحات، عروضی اوزان، اردو نثر پر فارسی کے اثرات، معنوی اثرات، موسیقی پر ہند ایرانی ثقافت کے اثرات اور ردیف و قافیہ، محاورات، ملتِ اسلامیہ کا جدید تصور اور لسانی روابط کے امکانات پر بحث کی گئی ہے، اسلوبِ بیان سادہ اور دل نشیں ہے۔
پروفیسر سحر انصاری نے ڈاکٹر صاحب کے کام کو قابل تحسین کارنامہ قرار دیا ہے اور مزید وضاحت کی ہے کہ "جیساکہ ڈاکٹر عطا نے لکھا ہے کہ پاکستان میں پہلا کام فارسی شاعری اردو شاعری کا اثر" ڈاکٹر محمد عبدالحق نے کیا جو ڈاکٹر عندلیب شادانی کی نگرانی میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں مکمل ہوا۔ دوسرا تحقیقی کام ڈاکٹر صدیق شبلی کا "تاثیر بر زبان فارسی بر اردو" ہے جو تہران مرکز تحقیقات فارسی، ایران پاکستان اسلام آباد کی طرف سے شایع ہوا اس کے علاوہ ڈاکٹر غلام مصطفی خان کا ایک رسالہ "فارسی پر اردو کا اثر" ہے جو پچاس کی دہائی میں انجمن ترقی اردو سے شایع ہوا۔ ان تین کاوشوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام منظر عام پر نہیں آیا۔
ڈاکٹر صاحب نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مقالہ مرتب کیا ہے مکمل قواعد اور اردو کے ارتقا پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ بے شک اس قدر خشک موضوع پر لکھنا آسان کام ہرگز نہ تھا بلکہ اس کام کے لیے تحقیق اور مطالعہ کے ساتھ لانے کے مترادف تھا باب سوم دستوری (قواعد کے) روابط میں اردو قواعد نویسی کے پس منظر میں انھوں نے اردو قواعد کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور پوری تاریخ بیان کردی ہے یہ کتاب طلبا اور اساتذہ کی رہنمائی کے لیے کسی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں ہے۔ ڈاکٹر عطا اس وقیع کام کے لیے مبارکباد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔