قاضی صاحب کی یاد میں
میں نے جب اپنی صحافت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے جس پولیٹیکل پارٹی کو میری بیٹ میں شامل کیا گیا، وہ جماعت اسلامی تھی اور پھر اس کے بعد دیگر دینی سیاسی جماعتیں، یہ وہ دور تھا جب علامہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی جیسی علمی اور دبنگ شخصیات حیات تھیں اور جماعت اسلامی کی سربراہی، گرم دم جستجو ہی نہیں بلکہ گرم دم گفتگو بھی، محترم قاضی حسین احمد کے پاس تھی۔ یقین کیجئے میں نے کسی کو قاضی حسین احمد کی طرح کا اقبال کا حافظ نہیں پایا، ہاں، ابھی کچھ عرصہ پہلے مولانا خادم حسین رضوی کی کچھ تقریروں کے کلپس سنے اور انہیں سے اقبال کا ورد کرتے دیکھا تو مجھے قاضی حسین احمد ہی یاد آئے۔
کلام اقبال سے ہٹ کر ادب و شاعری پر جس کی مکمل گرفت تھی وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم تھے۔ مجھے سعادت حاصل ہے کہ نکلسن روڈ پر باباجی کے ڈیرے پر بہت چائے پی، بہت گفتگو سنی۔ جب میں نے قاضی حسین احمد کی بطور امیر جماعت اسلامی بیٹ رپورٹنگ شروع کی، تو علم ہوا کہ ان کے تین بائی پاس آپریشن ہوچکے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اگر صبح پشاور ہوتے تھے اور دوپہر کو منصورہ لاہور میں تو رات کو علم ہوتا تھا کہ وہ کراچی پہنچ چکے ہیں، بلاشبہ، وہ اپنے دور کے متحرک ترین سیاسی رہنما تھے۔
ان کی حکمت عملی سے اختلاف ہو سکتا ہے کہ یہ اختلاف تو برادرم مزمل سہروردی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں میاں طفیل محمد مرحوم نے بھی کیا، مگر میں نے طویل تجربے کے بعد جانا ہے کہ ہمیں قاضی حسین احمد جیسی عظیم شخصیات کا وزن اپنے نظریات اور تعصبات کے ترازو میں تول کر نہیں نکالنا چاہئے۔ مجھے بطور ورکنگ جرنلسٹ یہ گواہی دینے میں عار نہیں کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی اور مقبول جماعت بنانے کے لئے جو کوششیں کیں وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکا۔
جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی کے راستہ روکنے کے لئے نواز شریف کے ساتھ اتحاد کیا اور انہیں اپنے دور میں دائیں بازو کا مقبول لیڈر بنا دیا۔ نواز شریف لیڈر بنے تو جماعت کو احساس ہوا کہ اس نے اپنا ووٹر ایک غیرکے حوالے کر دیا ہے، سو جماعت کی مجالس عاملہ اور شوریٰ نے نواز حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کیا، نواز شریف کا یہ بیان مجھے آج بھی یاد ہے کہ انہوں نے قاضی حسین احمد کے اتحاد توڑنے کے فیصلے کے خلا ف جماعت کی مجلس شوریٰ سے خطاب کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
میں مانتا ہوں کہ اس فیصلے کے کچھ اور عوامل بھی تھے، مگردل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دیجئے کہ کیا ان عوامل نے ذوالفقار علی بھٹو اور خود نواز شریف کو لیڈر نہیں بنایا تھا۔ قاضی حسین احمد نے شباب ملی بنائی اور پھر اس کے بعد ظالمو قاضی آرہا ہے کا مقبول نعرہ دیا۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف کے حکومت کے خاتمے میں عمومی اور بے نظیر حکومت کے خاتمے میں خصوصی کردار ادا کیا، ان کے دھرنے کے مقابلے میں عمران خان کے دھرنے مونگ پھلی تھے۔
میں نہیں جانتا کہ ووٹر کس طرح سوچتا ہے مگر قاضی حسین احمد کی شخصیت میں علم اور جرات سمیت وہ سب کچھ موجود تھا، جو ایک کرشماتی لیڈر میں ہونا چاہئے۔ میں اس وقت بھی عتیق سٹیڈیم میں موجود تھا، جب پاکستان اسلامک فرنٹ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور قاضی صاحب جماعت کی رکنیت کی سخت شرائط سے باہراچھے اور نیک نام لوگوں کو پارٹی کا اتحادی بنا رہے تھے۔ میری نظر میں وہ بھی جماعت اسلامی کی روایتی سخت گیر تنظیمی سیاست میں ایک انقلاب کے مترادف تھا مگر حیرت انگیز طور پر وہ تجربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔
مجھے لگتا ہے کہ جب کسی چھوٹی پارلیمانی جماعت نے کسی بڑی پارلیمانی جماعت کا ووٹ توڑنا ہو توا سے اس سے دوستی کرنی چاہئے، کیونکہ دشمنی میں اس کا ووٹر آپ کو نفسیاتی طورپر دشمن ڈیکلئیر کرتے ہوئے آپ کے لئے اپنے ذہن میں ایک فصیل تعمیر کر لیتا ہے، ایک ایسی فصل جس کے دروازے آپ کی ہر اچھی بات کے لئے سختی سے بند ہوتے ہیں، لیکن اگر دوستی ہوجائے تو فصلیں گرنے لگتی ہیں اور راستے بننے لگتے ہیں۔
میں ضیا شاہد مرحوم کے ساتھ ملاقات میں قاضی حسین احمد کی اس حیرانی کا ذکر ایک حالیہ کالم میں کر چکا کہ ووٹر ان کی طرف توجہ کیوں نہیں دے رہا تھا اور اسے ان کی دبنگ قیادت کے مقابلے میں نواز شریف میں کیا نظر آ رہا تھا، مگر مجھے نوے کی دہائی کے آخری برسوں کا واقعہ بھی یاد ہے جب میں ایک اخبار کا چیف رپورٹر تھا اور اس اخبار کے مالک کے ساتھ قاضی حسین احمد کا ایک اور انٹرویو کرنے کے لئے گیا تھا۔ قاضی حسین احمد اس وقت مقتدر حلقوں کی مسلسل وعدہ خلافیوں سے تنگ آ چکے تھے اور انہوں نے انٹرویو(ٹیپ ریکارڈر پر) ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنے دور کے کور کمانڈرز کو کروڑ کمانڈرز کہہ کے پکارا تھا۔
اس دور میں یہ جرات قاضی حسین احمد ہی کر سکتے تھے جو نڈر اور بے باک تھے۔ اخبار نے یہ پالیسی کے مطابق اس بات کی سرخی نہیں نکالی تھی مگر قاضی حسین احمد نے اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد یہی الفاظ فیصل مسجد میں ہونے والے اجتماع عام میں بھی ادا کر دئیے تھے۔ مجھے یہ قرار دینے میں بھی عار نہیں کہ ان کے عمر بھر کے ساتھی سید منور حسن بھی آخر کار دلبرداشتہ ہو گئے تھے اور انہوں نے افغانستان کی جنگ میں پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے حوالے سے وہ فتویٰ نما بیان دے دیا تھا جو کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی امارت کی قیمت بن گیا تھا۔
قاضی حسین احمد کی قیادت ہی تھی جس میں جماعت اسلامی پہلے ملی یکجہتی کونسل، پھر دفاع افغانستان کونسل اور اس کے بعد متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنی تھی، دینی جماعتوں کے اس اتحاد نے اس وقت کے صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری بھی حاصل کی تھی۔ میں نے قاضی حسین احمد کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کیا اور مجھے ان کے ساتھ اپنی آخری ملاقات بھی یاد ہے، جو محترم لیاقت بلوچ کے کسی قریبی عزیز کی وفات پر اظہار تعزیت کے لئے مسلم ٹاون میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی۔
اس موقعے پر لمبی چوڑی گفتگو میں میری ان کے کسی بزرگ ساتھی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے حوالے سے شدید قسم کی اختلافی گفتگو ہو گئی۔ وہ صاحب قرار دے رہے تھے کہ ان کے مسلکی طریقہ کے مطابق ادا نماز ہی نماز ہے اور وہی قبول ہو گی جبکہ میرا موقف تھا کہ ہمیں طریقے کے اختلافات کو نظرانداز کر کے نماز کی ادائیگی کو اہمیت دینی چاہئے، اس کی قبولیت اور عدم قبولیت اللہ کا معاملہ ہے، ہمارا معاملہ ایمان اور اخلاص کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہے۔
مجھے اس وقت شدید حیرت ہوئی جب قاضی حسین احمد نے اپنے سیاسی اورمسلکی ساتھی کی بجائے میرے موقف کی حمایت کی۔ میں نے انہیں دوسرے مسالک کے کے علما کے ساتھ نماز ادا کرتے اکثر دیکھا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اتحاد امت کے داعی تھے، فرقہ واریت سے بالاتر تھے۔ وہ اقبال کے مرد مومن تھے، فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والے مرد کہستانی تھے، اپنی فقیری میں سرمایہ سلطانی تھے مگر افسوس قیادتوں کے بحران کے باوجود قوم انہیں نہ پہچان سکی، ان کی قدر نہ جان سکی۔