Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Punjab Hukumat Ka Muqadma

Punjab Hukumat Ka Muqadma

پنجاب حکومت کا مقدمہ

یہ کامن سینس کا سوال ہے کہ جب آپ کی صلاحیت اور کارکردگی پر حملہ ہو رہا ہو تو آپ اسے ثابت کریں گے یا الم غلم باتوں سے مزاحیہ صورتحال پیدا کریں گے۔ پنجاب حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا کہ اپوزیشن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی اہلیت اور قابلیت پر تاک تاک پر حملے کرتی رہی مگر حکومتی ترجمان وزیراعلیٰ کی کارکردگی کو ہائی لائٹ کرنے کے بجائے سیاسی بیانات سے خود سے کو نمایاں کرتے رہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پنجاب حکومت کی ترجمانی میں تین میم، غیر موجود رہے۔ یہ منطق، ، متانت، اور معیار، کے میم تھے۔ ہماری صحافت ہی نہیں بلکہ سیاست بھی جگت اور پھکڑ باز ی کی طرف چلی گئی ہے سو وہی بڑا صحافی اور سیاستدان بناجو بڑا میراثی بنا مگرحقیقی عزت اسی کی ہے جو منطق، متانت اور معیار کا حامل ہے۔

میں حکومت کی کارکردگی کا ناقد رہا ہوں، صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ مسلم لیگ نون کی حکومت پر بھی کھل کر تنقید کی ہے۔ جب میرے کسی پروگرام اور کسی کالم میں کی گئی نشاندہی پر کوئی مسئلہ حل ہوتا تھا تو وہ حکومت کے کریڈٹ میں ہی جاتا تھا جیسے کلمہ چوک انڈر پاس کا ڈیزائن تبدیل ہوا اور ماڈل ٹاون کو راستہ مل گیا، جیسا وائے ڈی اے پر پولیس چڑھانے کے بجائے مذاکرات کئے گئے تو بحران ٹلا اور انہی مذاکرات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ایمرجنسیاں تک بند کرنے والے آج اس دور کو سراہتے نظر آتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ صحافی کی تنقید کو مخالفت کے طورپر نہیں لینا چاہئے۔ اگر ایک صحافی آپ سے سوال کرتا ہے تو وہ دراصل آپ کو موقع دے رہا ہوتا ہے کہ آپ اپنا مقدمہ لڑیں، اپنی کارکردگی بتائیں، آپ کے بارے جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس کا توڑکریں۔

تین برس بعد پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان کے ساتھ مکالمہ میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ مجھے لگا کہ یہاں واقعی تبدیلی آ گئی ہے۔ میں وزیراعلیٰ اور حکومت کے ترجمان حسان خاور کی بات کر رہا ہوں، مجھے لگا کہ وزیراعلی پنجاب کو اپنی ترجمانی کے لئے منطق، متانت اور معیار کے تینوں میم مل گئے ہیں۔ حسان خاور سے پہلی ملاقات ان کی تقرری کے اعلان والے دن ہی ہوئی تھی۔ ہم صحافی اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن کی تقریب میں شریک تھے۔ میرا پہلے دن ہی موقف تھا کہ سیاست اہم ہے مگر پنجاب حکومت کے ترجمان صرف سیاست کے بخار میں ہی مبتلارہے ہیں۔

حکومت، پنجاب میں سب کچھ غلط نہیں کر رہی مگر وہ کیا کر رہی ہے اس بارے کوئی اچھی پرسیپشن، پیدا کرنے کے بجائے وہی باتیں کی جار ہی ہیں جو کئی برس پہلے کنٹینر پر ہوا کرتی تھیں۔ کنٹینر پر موجود جناب عمران خان کے کھیلنے کا میدان کوئی اور تھا جبکہ حکومت قائم ہونے کے بعد کھیل کا میدان کچھ اور ہے۔ ا ب پی ٹی آئی حکومت نے اس نعرے کے ساتھ الیکشن میں نہیں جانا کہ ان کے مخالف کرپشن کرتے رہے بلکہ اس نعرے کے ساتھ جانا ہے کہ وہ پانچ برس تک اقتدار میں کیا کرتے رہے۔ ان کے مخالفین بہت کامیابی کے ساتھ یہ تاثر پیدا کر چکے ہیں کہ حکومتی نااہلی سے بدعنوانی اور بدانتظامی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

ہم صحافی جب اپوزیشن کے حلقوں میں بیٹھتے ہیں تو وہ تاثر دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی پنجاب کی دشمن ہے، ا س کی ترقی کی دشمن ہے۔ سابق حکومت نے میگا پراجیکٹس کی بھرمار کر رکھی تھی مگر موجودہ حکومت شہر سے کوڑا تک نہیں اٹھا پا رہی۔ میں نے یہی تاثر حسان خاور کے سامنے رکھا تو ان کا جواب تھا کہ 1983 سے تخت لاہور پروقفے وقفے سے حکمرانی کرنے والے بتائیں کہ کیا وہ لاہور میں ایک بھی سرکاری سکول ایسا بنا پائے جس میں لاہوری اپنے بچے داخل کرواکے خوش ہوں، ایک ہسپتال بھی ایسا بنا پائے جہاں وہ اپنا علاج کروا سکتے ہوں، ایک تھانہ بھی ایسا بنا پائے جہاں عزت و احترام کے ساتھ قانون پر عملداری اور انصاف کی حکمرانی ملتی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ کم و بیش تیس برس کی حکمرانی کی کارکردگی کو ان کی تین برس کی کارکردگی کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا مگر اس کے باوجود سابق دور کے مون سون میں لاہور ڈوب جانے پر سیاست کی جاتی تھی جبکہ ان کی حکومت نے انڈر گراونڈ واٹر ٹینک بنا کر اس مسئلے کو حل کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی ان ہی کی حکومت میں ہوا ہے کہ لاہور کا واٹر لیول جو عشروں سے نیچے جا رہا تھا وہ اوپر آ رہا ہے۔ ان کی حکومت لاہور میں تین فلائی اوورز اور تین انڈر پاسز بنا رہی ہے، سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے ذریعے سرمایہ کاری کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے، مدر اینڈ چائلڈ کئیر کے ساتھ ایک دوسرا ہسپتال بھی بنا رہی ہے۔

میرا سوال تھاکہ اگر انڈر پاس اور فلائی اوور شہباز شریف بنائے تو غلط، آپ بنائیں تو درست۔ اس کا جواب تھا کہ عثمان بزدار کی حکومت ہر ضلعے کے لئے معاشی اور ترقیاتی انصاف کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ان کے بقول دوسرے اضلاع کے فنڈز لاہور پر خرچ نہیں کئے جا رہے۔ میں نے پوچھا، عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان نے وسیم اکرم پلس کہا، وہ کیسے وسیم اکرم پلس ہیں۔ جواب ملا، عثمان بزدار بہت ملنسار اور وضع دار طبیعت کے مالک ہیں، انہوں نے پوری ٹیم کے اختیارات خود نہیں سنبھال رکھے بلکہ کپتان بن کے کھیل رہے ہیں اور ان کی ٹیم میں راجا بشارت، محمود الرشید، اسلم اقبال، یاسمین راشد، یاسر ہمایوں اور مراد راس جیسے پلئیرز ہیں جبکہ آپ پچھلے دور کو یاد کریں تو ایک ہی پلئیر تھا جو وزیراعلیٰ تھا، عام لوگوں کو ان کے وزیروں کے نام تک یاد نہیں۔

حسان خاور نے کہا کہ ان کی حکومت نے میٹرو لاہور کا ٹھیکہ آٹھ، نو برسوں کے بعد جب دیا تو پہلے ٹھیکے کے مقابلے میں آدھی قیمت پر دیا۔ وہ پریقین تھے کہ پنجاب میں ہیلتھ انشورنس یعنی صحت کارڈ کا نظام نہ صرف عام آدمی کے صحت کے مسائل حل کر دے گا بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اس میں ہیلتھ کے شعبے میں بڑی سرمایہ کار ی ہو گی، اس طرح حکومت کا بہت بڑا کارنامہ لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین پر سے ناجائز قابضین کا خاتمہ ہے۔

میں نے کہا، اگر سب کچھ اتنا ہی اچھا ہو رہا ہے تو ڈاکٹروں، تاجروں، ٹیچروں اور سرکاری ملازموں سمیت ہر طبقہ آپ سے ناراض کیوں ہے بالخصوص وہ ڈاکٹر جو دوا کے ساتھ ساتھ نسخے پر لکھا کرتے تھے کہ بلے پر ٹھپہ لگائیں۔ مجھے حسان خاور کے جس موقف سے سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ یہ تھا کہ ان کی حکومت بہتری کے لئے کام کرے گی، وہ میڈیا کے اٹھائے ہوئے ہر سوال اور ہر ایشو کا جواب دے گی اور جہاں ان کے پاس جواب نہیں ہو گا وہاں وہ جا کر اس کی اصلاح او ربہتری کے لئے کام کریں۔ میں نے پوچھا، پی ڈی ایم نے تئیس مارچ کو مہنگائی مارچ کا اعلان کر دیا ہے کیا حکومت اس مارچ سے خوفزدہ ہے، جواب ملا، ان سے حکومت کیا خوفزدہ ہو گی جو اپوزیشن تک نہ کرسکیں۔

انہوں نے اس سے پہلے بھی لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا اور پی ڈی ایم تڑوا کر بیٹھ گئے تھے۔ کسی تضحیک، تمسخر اور گالی کے بغیر دلچسپ جواب یہ تھا کہ فرض کریں کہ واقعی عوام مہنگائی سے تنگ ہیں اور وہ پی ڈی ایم کے پاس گئے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے تو آگے سے جواب ملا کہ جاو، ایک سو آٹھ دنوں کے بعد آنا، یہ تو ان کی کمٹ منٹ اور سنجیدگی کا عالم ہے، ا پوزیشن خود اپوزیشن کے لئے خطرہ ہے حکومت کے لئے نہیں۔ رہ گئی بات مہنگائی کی تو اس کی وجوہات بین الاقوامی ہیں، پاکستان کی حکومت دنیا بھر میں اپنے عوام کی مدد کرنے والی سب سے بڑی اور بہتر حکومت کے طور پر سامنے آئی ہے۔

Check Also

Chokri Ki Kari Terhi

By Mojahid Mirza