1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Main Ne Aurat March Dekha

Main Ne Aurat March Dekha

”میں نے عورت مارچ دیکھا ۔۔“

کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین مسائل اور مصائب کاشکار ہیں، میں نہیں کر سکتا، ہمارے ہاں ونی اور سوارہ جیسی رسموں پر آج بھی چھپ چھپا کر عمل کر لیا جاتا ہے، جرگے مضحکہ خیز اور الم ناک فیصلے بھی کر جاتے ہیں، قرآن سے شادی کی باتیں بھی بہت پرانی نہیں، خواتین پر جنسی تشدد، اغوااور غیرت کے نام پر قتل کی خبریں بھی آتی ہیں۔ وراثت میں حصہ نہ دینے کا مرض بھی نادرا کے نئے قوانین کے باوجود موجود ہے مگر دوسری طرف ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ گذشتہ بیس، پچیس برسوں میں پاکستان نے خواتین کے حقوق کے لئے بہت ساری قانون سازی کی ہے جن میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں بہت ریلیف دیا گیا ہے یعنی پارلیمنٹ میں خواتین کی تینتیس فیصد اضافی نشستوں سے ورک پلیس پر ہراساں کرنے کی قانون سازی تک، ہمارے ہائیر ایجوکیشن کے اداروں، ملازمتوں اور اروباروں میں خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو اصلاحات ہی کا نتیجہ ہے۔

معاشرے میں خواتین کے مسائل کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک قسم کے مسائل رسوم اور رواجات سے جنم لیتے ہیں جیسے ونی اور سوارہ ہی نہیں بلکہ جہیز کا مسئلہ، فاٹا جیسے مقامات پران کی تعلیم سے انکار۔ دوسری قسم کے مسائل ہمارے خاندانوں اور سماجی حلقوں کے ہیں۔ مسائل کی تیسری قسم انفرادی نوعیت کی ہے کہ راہ چلتے ہوئے لچے لفنگوں نے چھیڑ دیا، آوازے کس دئیے، جسم کے کسی حصے پر ہاتھ لگا دیا اور اس کی انتہا اغوا اورآبروریزی ہے۔ میں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ میں خواتین کے حقوق کی آگاہی اور مسائل کے خاتمے کے لئے آواز بلند کرنے اورمارچ کرنے کا ہی نہیں بلکہ سوسائٹی کے گندے عناصر کا منہ کالا کرنے کا بھی حامی ہوں مگر دیکھنا یہ ہے کہ عورت مارچ اس سلسلے میں اپنا کیا حصہ ڈال رہا ہے۔ میں عورت مارچ میں موجود تھا جب ہم نے پریس کلب کے سامنے لگے ہوئے سیکورٹی گیٹ سے پنجاب اسمبلی کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ میرے آگے ٹائیٹ جینز میں ملبوس نوجوان لڑکیاں تھیں جنہوں نے مختلف قسم کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ ان کے چہروں پر خوشحالی کی رونقیں تھیں۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے اردو کم اور انگریزی زیادہ بول رہی تھیں۔ میں اس سے بھی انکارنہیں کرتاکہ سماجی مسائل پر آواز پڑھا لکھا طبقہ ہی اٹھاتا ہے مگرمجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ عورتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہاں موجود عورتوں کی اکثریت کا اس سے دوردور تک کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرا جسم میری مرضی کانعرہ پرانا ہوچکا اور اس کے لئے ان کی تشریحات بھی کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کے جسم پر ان کے شوہر کا بھی حق نہیں ہے اور اگر مرضی ہے تو پھر کسی کا بھی ہے۔ ایک پوسٹر اٹھائے دو ہٹی کٹی خواتین اپنا ہی نہیں بلکہ اپنی ماں، نانی اور دادی کے بدلے لینے کا بھی اعلان کر رہی تھیں اورمیں سوچ رہا تھا نجانے ان کے ساتھ نسل در نسل کیا ظلم ہوا ہے اور اب یہ کس سے بدلے لیں گی؟

میرا مشاہدہ تھا کہ اس عورت مارچ کا اور اس عورت مارچ میں شریک ہونے والی عورتوں او ر مردوں کا عورتوں کے حقیقی مسائل سے دور، دور کا تعلق نہیں ہے۔ وہ لڑکیاں جو مرد سے آزادی اور ریپ سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں بہت سارے ان کے کپڑوں اور ان میں جھلکتے جسموں کودلچسپی سے دیکھ رہے تھے اوریہیں سے اختلاف شروع ہوجاتا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ جس طرح کے مرضی کپڑے پہنیں مگر مرد نظریں جھکا کے گزرتے رہیں اورمیں کہتا ہوں کہ یہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔ وہاں سڑک پرایک مرد نما عورت مردوں کے مظالم کے خلاف تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا، پر سینکڑوں مردوں کے سامنے ناچ رہی تھی، دوپٹہ اچھال رہی تھی، زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی اور پھر اس پر داد وصول کر رہی تھی۔ یہ کیسا ظلم تھا اور یہ کیسا احتجاج تھا۔ یہ کس کے مسائل اجاگرہورہے تھے۔ میں نے گذشتہ برس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے لائنوں میں لگی ہزاروں غریب اورمجبور عورتوں سے بات کی تھی اور تب عورت مارچ ہو رہا تھا۔ دودو ہزار روپے کے لئے صبح سے لائن میں لگی عورتوں میں سے ننانوے فیصد کوعلم ہی نہیں تھا کہ عورت مارچ کب ہوتاہے، اس کو کون کرواتا ہے۔ ان عورتوں میں سے کوئی ایک بھی اس مارچ میں نہیں تھی سو یہ مارچ نہیں تھا، تفریح تھی، فن تھا، موج تھی، مستی تھی۔

مان لیجئے، عورتوں پرمظالم اورمسائل میں، مردوں ہی نہیں، خود عورتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ یہ ممی ڈیڈی کلاس خود اپنی ملازم عورتوں کے ساتھ کیا کرتی ہے سب کو علم ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ تین چوتھائی مسائل حل ہوجائیں اگر ساس بہو کو بیٹے پر حق دے اور بہو، ساس کو گھر میں عزت، احترام اور وقار دے۔ بھابی نند کو ہنسی خوشی برداشت کرے اورنند، بھابی کو گھر میں فیصلے کرنے کا اختیار دے۔ دیورانیاں، جیٹھانیاں ایک دوسرے کی سہیلیاں بن جائیں۔ ہمسائیاں، ہمسائیوں سے جیلس نہ ہوں اور ان لڑائیوں کو مردوں تک نہ لے جائیں۔ خواتین افسران اپنی فیمیل کولیگز کے خلاف سازشیں نہ کریں۔ جہیز واقعی ایک لعنت مگر وہ مائیں بھی شرم کریں جو بیٹوں کی شادیوں پر گھر سامان سے بھرنا چاہتی ہیں اور وہ غیر شادی شدہ خواتین بھی جن کی ضد ہے کہ وہ شادی اسی سے کریں گی جو گورا چٹا اونچالمبا ہو گا، تنخواہ ایک لاکھ سے زائد اور کار، کوٹھی بھی ہوگی۔ عورتیں شادی شدہ مردوں سے سیٹنگ نہ کریں اورکنواروں تک محدود رہیں۔ عورتوں اوربچیوں کی جنسی ہراسگی قابل مذمت مگر آنٹیاں بھی رحم کریں (اس فقرے کی مزید تشریح سے معذرت بھی قبول کریں)۔ وہ مائیں عقل کریں جوخود بیٹیوں کی پیدائش پر باپوں کے دل بھی خراب کرتی ہیں، وہ ساسیں جو بہووں کو اس پر طعنے دیتی ہیں، ذلیل کرتی ہیں۔ یہی مائیں ہانڈی سے برابر کی بوٹیاں بیٹیوں کو بھی دیں کہ ہانڈی پر کوئی مرد نہیں وہ خود بیٹھی ہوتی ہیں۔ عورتیں ہی گھروں کو جنت بھی بنا سکتی ہیں اور جہنم بھی۔ مائیں اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں تو اس سے کسی نے کب انہیں روکا ہے؟

وہ عورتیں جو کسی سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، جرنیل کی بیوی، بیٹی ہونے پر پارلیمنٹ کی تینتیس فیصد نشستوں پر قابض ہیں وہ حقیقی سیاسی رہنما اور ایکٹیویسٹ خواتین کے لئے یہ سیٹیں خالی کر دیں تاکہ خواتین کے حقوق کاپارلیمانی سطح پرحقیقی تحفظ ہوسکے، اور ایک اہم بات، وہ لڑکیاں جو پروفیشنل اور ورکنگ لائف نہیں گزارنا چاہتیں وہ رٹے سے زیادہ نمبر لے کرہائیر ایجوکیشن کے اداروں میں ان لڑکیوں کاحق نہ ماریں جن کے نمبر ہوتے ہیں کم مگر وہ تعلیم حاصل کر کے جاب کے ذریعے اپنی فیملی کا سہارا بننا چاہتی ہیں مگر کچھ لڑکیاں ڈگری لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں اور عملی طور پر سیٹیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ خواتین صرف حقوق کی بات نہ کریں بلکہ اپنے فرائض بھی پہچانیں۔

عورت مارچ والوں نے عورت کے مسائل اور مصائب کے ساتھ وہی کیا ہے جو ایک مفاد پرست اوربدکردارمولوی اسلام کے ساتھ کر سکتا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کہ حقیقی مسائل اورمشکلات پر بھی ردعمل پیدا کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مجبور عورتوں کے مسائل ان کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جو سڑکوں پر رنگ برنگے کپڑوں میں ڈھول بجانا اورموج مستی کرنا چاہتی ہیں اور چاہتے ہیں۔ کاش عورت مارچ والیوں کو علم ہو کہ عورتوں کے مسائل میں تمام کے تمام جنسی مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ یہ بھی ہیں کہ قبائلی علاقوں میں انہیں ووٹ کے حق تک سے محروم رکھا جا رہا ہے، ان کے تعلیمی ادارے جلا دیے گئے ہیں اور اب بھی فنکشنل نہیں ہیں، خواتین کو ابھی تک ٹرانسپورٹ کے ایشوز کا سامنا ہے۔ پاکستانی خواتین میں چھاتی کے کینسرکی شرح خوفناک حدتک بڑھتی جا رہی ہے۔ خواتین گائنا کالوجسٹ بچوں کی پیدائش پر پیسے کمانے کے لئے دھڑا دھڑ اپنی ہی جاتی کے آپریشن کئے جا رہی ہیں جو ملٹی پل ایشوز کا باعث بن رہے ہیں، ہاں، جنسی مسائل بھی ہیں اور وہی عورت مارچ کھاتی پیتی عورتوں کے لئے سب سے اہم ہیں۔

Check Also

Saifal Nama Bil Tehqeeq Az Molvi Lutf Ali Bahawalpuri

By Amir Khakwani