لاہور کے انتخابی نتیجے کاتجزیہ
لاہور کے علاقوں ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن اور باگڑیاں وغیرہ مشتمل این اے 133 سے مسلم لیگ نون کی امیدوار شائستہ پرویز ملک کی کامیابی کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی کہ یہ حلقہ عشروں سے نواز لیگ کا ہے، اصل سوال یہ بن گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے میدان سے آؤٹ ہونے، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے امیدوار وں کی عدم موجودگی اور پاکستان عوامی تحریک کی حمایت کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کتنے ووٹ لیتی ہے۔
بہت سارے لوگ ایک سازشی تھیوری کو مانتے ہوئے پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات کے مسترد ہونے کوسوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیتے ہیں جس کے تحت پیپلزپارٹی کی پنجاب اور بالخصوص لاہور میں واپسی کے امکانات کو چیک کرنا تھا۔ یہ ایک دور کی کوڑی ہے جس کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا مگر بہرحال اسی کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو ون آن ون مقابلے جیسا میدان ملا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میرے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت کی اس حلقے میں دلچسپی اور محنت بھی حیرت انگیز تھی۔
میں نے دیکھا کہ انتخابی مہم اور اس کے اخراجات کو براہ راست آصف علی زرداری مانیٹر کر رہے تھے۔ مڈل کلاس کے اسلم گل کی انتخابی مہم کے اخراجات اتنے تھے کہ شائد اتنی ان کی زندگی بھر کی کمائی نہ ہو۔ میں نے ان کے پاس گاڑیوں کا جو قافلہ دیکھا جو بھی کہیں سے بھجوایا گیا تھا۔ حلقے میں ان کے بینرز اور پوسٹرز بلاشبہ پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے ارب پتی امیدواروں کا مقابلہ کر رہے تھے اوراس کے بعد ووٹوں کی خریداری کے الزامات، یہ خرچہ بھی کروڑوں میں ہی ہوا ہو گا۔
جناب آصف علی زرداری نے حلقے میں اپنی پارٹی کو ملنے والے ووٹ ساڑھے پانچ ہزار سے اکٹھے ہی بتیس ہزار سے زائد ہونے پر بلاول ہاؤس لاہور میں جشن اور سینکڑوں کارکنوں کے لئے پرتکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا، انہوں نے اسے پنجاب میں پارٹی کا دوسرا جنم قرار دیا مگر کیا یہ ووٹ عام انتخابات میں بھی برقرار رکھے جا سکتے ہیں، یہ سوال سب سے اہم ہے اور اس کا فوری اور دوٹوک جواب نہیں، ہے۔
یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ پیپلزپارٹی نے کسی حد تک یہ تاثر قائم کرلیا ہے کہ اگلی سلیکشن اس کی ہوچکی اور بلوچستانیوں کی طرح پنجابیوں میں بھی بہت سارے ایسے ہیں جو کنگز پارٹی کا ساتھ دینے کو ہی عقلمندی سمجھتے ہیں مگر دوسری طرف پی ٹی آئی ہے جس نے ابھی تک کنگز پارٹی کا تاج کسی دوسرے کو نہیں دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں بھی ایسا پنجاب مل سکتا ہے جس میں نہ پی ٹی آئی ہواور نہ ہی تحریک لبیک، نہ جماعت اسلامی ہو اور نہ ہی پاکستان عوامی تحریک، چلیں، پاکستان عوامی تحریک کی حد تک مان لیتے ہیں کہ وہ بائیکاٹ کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر باقی تینوں اینٹی نواز ووٹ بنک کی حامل جماعتیں کیوں باہر رہیں گی اور اپنے ووٹ پیپلزپارٹی کو کیوں جانے دیں گی۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا پورے پنجاب کے حلقو ں میں اسی طرح ووٹ خریدنے کے لئے رقم خرچ ہوسکتی ہے جس طرح لاہور میں ہوئی۔ مجھے ٹاؤن شپ کے علاقے بی ٹو میں پی پی پی کے ایک انتخابی دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پی ٹی آئی کے معروف پرانے کارکنوں کو جیالوں کے روپ میں دیکھا۔ وہ نواز لیگ کو ہروانے کے لئے پیپلزپارٹی کی مہم چلا رہے تھے۔
میں مانتا ہوں کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں کی تقسیم نہیں ہے مگر پنجاب میں باالعموم اور لاہو ر میں بالخصوص ہے۔ اس امر سے انکا رنہیں کہ پیپلزپارٹی نے ایک سیاسی پیغام ضرور دے دیا ہے اور وہ اب اسے بھرپور طور پر استعمال بھی کرے گی۔ سازشی تھیوری کے مطابق وہ مقتدر حلقوں کے انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہو چکی ہے سو جشن بنتا ہے۔
اب ہم شائستہ پرویز ملک کے ووٹوں کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کے مرحوم شوہر پرویز ملک کو ملنے والے ووٹوں سے تقریبا آدھے رہ گئے۔ یہ دلیل مانی جا سکتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ ٹرن آؤٹ کم اور بعض اوقات بہت کم رہتا ہے۔ پی ٹی آئی اسی پر خوش ہے کہ ووٹر کم نکلے اور شہباز گل اسی کو بنیاد بنا کر دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کاووٹر اتنا زیادہ ہے کہ اگروہ نہیں نکلے گا تو انتخابی میدان سنسان اور ویران رہے گا مگر ہمارے بہت سارے ضمنی انتخابات میں ووٹ کم پڑنے کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
مسلم لیگ نون کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے چالیس، پچاس ہزار کوووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی کیونکہ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ یہاں مقابلہ ہی نہیں ہے، جب یہ سمجھا جاتا ہے تو وننگ پارٹی کا ہم خیال ووٹر بھی ڈھیلا پڑجاتا ہے۔ مسلم لیگی حلقے مریم نواز شریف کو کراؤڈ پلر قرار دیتے ہیں اوراس میں حقیقت بھی ہے مگر انہوں نے بھی اس حلقے کی انتخابی مہم کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔ یہاں نواز لیگ دو انتہاؤں کا شکار ہے کہ اگر ایک طرف مریم نواز کو گلگت بلتستان اور کشمیر کے انتخابا ت میں باہر نکالا جاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو موقع نہیں دیا جاتا اور جب انہیں واپس گھر میں محدود کیا جاتا ہے تو پھر وہ ایک جلسہ بھی نہیں کرتیں، یہ نواز لیگ کے اندر پارٹی پر قبضے کی اندرونی کشمکش کا شاخسانہ ہے، یہ کشمکش اسے کسی روز کسی بڑے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔
ایک رائے تھی کہ اسلم گل پانچ ہزار ووٹوں کو بڑھا کر دس یا پندرہ ہزار کر لیں گے مگر وہ تیس ہزار کو کراس کرجائیں گے یہ امید نہیں تھی۔ ایک فقرہ اور شامل کر لیجئے کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں ایسا کوئی تیر نہیں مارا کہ پنجاب کاووٹر دوبارہ اس کی طرف دیکھنے لگے سوائے اس کہ وہ کنگز پارٹی بن جائے، بلوچستان کے بعد پنجاب ہی ہے جو کنگز پارٹیوں کو مارجن دیتا ہے۔
شیر کے نشان پر عام انتخابات کے مقابلے میں آدھے ووٹ پڑے اور ہم اسے منطقی مان لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو نواز لیگ اپنی پنجاب بھر کی تنظیم کو اس حلقے میں جھونکنے کے باوجود اپنے ان ووٹروں کو ان کے گھروں کے قریب پولنگ سٹیشنوں تک نہیں لے جاسکی جنہوں نے اسے تین برس پہلے ووٹ دئیے تھے تو وہ مارچ میں اپنے ہمدردوں کو مہنگائی مارچ میں اسلام آباد کیسے لے جا سکے گی۔ سوشل میڈیا کے بھرپور دباؤ پر نواز لیگ نے گذشتہ مہینے لاہور میں مہنگائی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
میں اسے ناکام مظاہر ہ نہیں کہتا مگروہ کوئی کامیاب یا تاریخی مظاہرہ بھی نہیں تھا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا اجیرن کردیا ہے، وہ روزی روٹی سے مجبور ہو چکا ہے تو سوال یہ بھی ہے کہ پھر وہ احتجاج کیوں نہیں کرتا، اپنی محرومی پر ردعمل کیوں نہیں دیتا، شائد سنٹرل پنجاب کے نواز لیگی ووٹ بنک کو نواز شریف کی جلاوطنی نے مایوس کیا ہے اور اب وہ موجودہ حکومت کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر چکا ہے۔ نواز لیگ کو بھی اپنے بیانیے کے رسپانس نے مایوس کیا ہے اوریوں اس مرتبہ مارچ ووٹ کو عزت دو کے بجائے مہنگائی کے نام پر ہو رہا ہے کہ شائد یہی نعرہ لوگوں کو گھروں سے نکال لے۔