Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. La Qanooniat Ki Aadi Qaum

La Qanooniat Ki Aadi Qaum

لاقانونیت کی عادی قوم

ہم سب عملی، ذہنی، نفسیاتی اور قومی سطح پر لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے تو ہمیں وہ برا لگتا ہے، غلط لگتا ہے۔ ہم کسی سڑک پر جا رہے ہوں اور کسی کا سگنل توڑنے پرچالان ہوتے دیکھیں تو کہتے ہیں، اوہ بے چارے کا چالان ہوگیا یعنی ہم اس پر برہم نہیں ہوتے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہوچکا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے کسی کو سگنل توڑ تے دیکھیں تو کہتے ہیں، واہ، زبردست، کتنا بہادر ہے۔ مجرموں کو بہادرسمجھنا، انہیں سراہنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ہیرو اور ولن کی بنیادی تعریفوں اور تصورات کو گڈمڈ کر چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو ظاہر ہوا کہ ہم فکری اور عملی طور پر کس حد تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔ بہت سارے تو ایسے ہیں جو صرف اس وجہ سے تجاوزات کے خلاف مہم کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہرصورت مخالفت کرنی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مریم نواز کے مقابلے میں انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ عثمان بُزدار کی حمایت کرتے ہیں مگر ان سے ہٹ کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجاوزات کے خلاف مہم میں بے روزگاری نظر آ رہی ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے سڑکوں پر بے ہنگم کھڑی ریڑھیوں کوہٹانے سے پہلے وہاں کاروبار کرنے والوں کی رجسٹریشن کی، انہیں جدید اور خوبصورت ریڑھیاں ہی نہیں دیں بلکہ ان سڑکوں کے ایک جانب جگہ بھی دی جہاں سے ٹریفک بلاک کیا کرتے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس مہم کے بعد بھی جو لوگ بے روزگاری کا شکوہ کر رہے ہیں ان کے لئے الگ سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ان کے روزگار کا متبادل دیا جا رہا ہے۔

سینئر صحافیوں کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر ملاقات اور غیر رسمی گپ شپ ہوئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس تنقید کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ان کے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بات ہوئی تو وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی اور جمہوری حکومت کے لئے یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ مسلم لیگ نون کو اس امر کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس نے ہمیشہ اپنی سیاست سے زیادہ ملک اور قوم کے مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ اس سے پہلے جب عمران خان عین آئینی اور قانونی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جا رہے تھے تو نواز لیگ نے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ سب کو علم تھا کہ عمران خان نام کا شخص معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھود کے جا رہا ہے۔

عمران نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا اور ملک میں ڈالروں کا بحران پیدا کیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا اوریہاں پر پٹرول تین ہزار روپے کا لیٹر اور بجلی کا یونٹ تین سو روپے میں بھی نہ ملتا۔ بہت ساروں کا یہ خیال تھا کہ حکومت اسی طرح نہیں لینی چاہئے جس طرح ایک سیانا شخص ایکسیڈنٹ کی گئی گاڑی نہیں خریدتا کہ اس نے دوبارہ پتا نہیں ٹھیک بھی ہونا ہے یا نہیں۔

میاں نواز شریف ہوں، شہبا زشریف ہوں یا مریم نواز، یہ چیلنج قبول کرتے ہیں اوراس پر پورا اتر کے دکھاتے ہیں۔ جب ریڑھیاں ختم کی جائیں گی یا تھڑے توڑے جائیں گے تو کچھ لوگ ضرور ناراض ہوں گے مگر بہت سارے خوش ہوں گے، اپنے محلے بازار اور شہر کو صاف ستھرا دیکھ کے۔ آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیں وہاں دکانوں کو دیکھ لیں جیسے کسی سبزی والے کی دکان۔ اس نے اندر سے پوری دکان خالی رکھی ہوگی اور تمام ٹوکرے باہر سجا رکھے ہوں گے۔

بات تجاوزات کے حوالے سے ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے۔ جب ہم کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بارے میں پہلا اندازہ اس کی سڑکیں اور بازار دیکھ کے ہی لگاتے ہیں کہ یہ کتنا مہذب اور کتنا جدید ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غربت کی بنیاد پر غریبوں کو ریڑھیاں لگانے کی اجازت دے دی جائے تو اسی غربت کی بنیاد پر کیا کل چوری اور ڈاکے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، اسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقعے پیدا کرنے چاہئیں اور یہ بھی درست ہے کہ یہ مواقعے ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو دوسرے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہوں، معاشرے کا چہرہ گندا کر رہے ہوں۔ میں صرف لاہور کی نہیں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے بازاروں سے لے کر منڈی بہائوالدین کے صدر بازار تک کی بات کر رہا ہوں۔ حکومت کو دو امور پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ایک متبادل ریڑھی بازار اور دوسرے پارکنگ کا انتظام۔ جب ہم بازاروں میں پارکنگ سے منع کریں گے تو یقینی طور پر ہمارے پاس ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں پر گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں پارک کی جا سکیں اور وہ محفوظ بھی رہیں۔ جہاں فوری طور پر پارکنگ پلازے نہیں بن سکتے وہاں الیکٹریکل پارکنگ بھی لائی جا سکتی ہے۔

ایک اور اہم کام گلیوں، محلوں سے تھڑوں کا خاتمہ ہے۔ ہماری بہت ساری سڑکیں اور گلیاں چھوٹی چھوٹی ہیں اور یوں بھی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میں بھی لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں گیراج نہیں ہوتے۔ سو نے پر سہاگہ تقریباً نوے فیصد لوگ اپنے گھر اونچے بناتے ہوئے سیڑھیاں اور ڈھلوان گیٹ سے باہر بنا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر اونچا بنانا چاہتا ہے تو شوق سے بنائے مگر گیٹ گلی کے فرش کے برابر ہی ہونا چاہئے، اگر کسی نے سیڑھی یا ڈھلوان بنانی ہے تو وہ اس کی جگہ اپنے گھر کے اندر سے دے۔

میں نے کہا، ہم لاقانونیت کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی قانون پر عمل کرے تووہ غلط لگتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص غلط پارکنگ کرے اور گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دے، کوئی شخص اشارہ توڑے اور دوسری طرف سے آنے والے سے ٹکر اجائے، کوئی شخص ون وے کی خلاف ورزی کرے اور سیدھے راستے پر آنے والوں کے لئے ٹریفک بلاک کر دے تو جب بھی ایسے کسی شخص کو روکا جائے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے زیادہ بدمعاشی کرتا ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ ہم نے اپنی نفسیات اور اخلاقیات ہی خلط ملط کرکے رکھ دی ہیں۔

اگر آپ ایسے سبزی والے کو جس کا ذکر میں نے پہلے کیا، اسے کہیں گے کہ تم یہ ٹوکرے اپنی دکان کے اندر کیوں نہیں رکھتے تو وہ آگے سے کہے گا تمہیں کیا تکلیف ہے، تم مامے لگتے ہو۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سب کو ریاستی قوانین اور معاشرتی اخلاقیات کی خلاف ورزیاں دیکھ کے تکلیف ہونی چاہئے اگر ہم کچھ تمیز، تہذیب اور شعور رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک مشکل کام شروع کیا ہے اورمیرا خیال ہے کہ گھر کو صاف ستھرا کرنے والا کام ایک خاتون ہی کر سکتی تھی، مرد سیاستدانوں کے بس کی یہ بات ہی نہیں تھی۔

Check Also

Camera Ki Aankh

By Dr. Ijaz Ahmad