ہیلتھ کارڈ پر کچھ سوالات
اس کا ظاہری چہرہ یہ ہے کہ ہر گھر کے سربراہ کے پاس غالباً دس لاکھ کے قریب روپے ہیں ،جن سے وہ فیملی کا علاج کروا سکتا ہے، یہ چہرہ خوشنما ہے، متاثر کن ہے کہ اب وہ پرائیویٹ ہسپتال بھی غریب کی دسترس میں ہیں، جنہیں وہ پہلے افورڈ نہیں کر سکتا تھامگر ایک لمحہ ٹھہرئیے، اس پر او پی ڈی نہیں یعنی نوے فیصد سے زائد مریض ویسے ہی آوٹ ہو گئے جو ہسپتال میں داخل نہیں ہوتے۔ وہ علاج کہاں سے اور کیسے کروائیں گے۔
حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ ہسپتال بند نہیں کر رہی مگر ایک منطقی سوال ہے کہ جب حکومت انشورنس کمپنیوں کو 400 ارب دے دے گی تو صحت کا روایتی انفراسٹرکچر چلانے کے لئے بجٹ کہاں سے لائے گی۔ ہمارے پاس ان بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا علاج ہیلتھ کارڈ سے نہیں ہوگا لیکن جب اس ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے، اوپن مارکیٹ کمپی ٹیشن بڑھے گا ،توافراط زر کی بنیاد پر، پرائیویٹ علاج مزید مہنگا ہو جائے گا۔
دوسرا، آپ کو ملنے والا سات یا دس لاکھ کسی وزیراعظم یا حکومتی پارٹی کا نہیں آپ کا پیسہ ہے۔ قومی خزانے سے پہلے اس سے سرکاری ہسپتالوں میں براہ راست اچھا یا برا علاج ملتا تھا۔ یہ کامن سینس کی بات ہے کہ اب یہ پیسہ پہلے انشورنس کمپنی کے ٹھیکیدار کے پاس جائے گا ،جس میں سے وہ اپنا حصہ رکھنے کے بعد ہی آپ کا علاج کروائے گا ،یعنی حکومت نے اس بجٹ میں ایک اور پارٹنر شامل کرلیا ہے۔ جو لوگ انشورنس کمپنیوں کے بزنس اور معاملات کو جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہے کہ وہ معمول کے کلیمز پر بھی اعتراضات عائد کرتے ہیں۔ ان کی بچت ہی یہ ہو گی کہ لوگوں کے پاس کم سے کم پیسہ جائے۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں ،وہاں کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ پر بھی فراڈ ہوتے ہیں۔ یہاں ہیلتھ کارڈ ہو گا تو ایک طرف انشورنس کمپنی اور کرپٹ ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے جعلی بل بنیں گے اور فراڈئیے لوٹیں گے۔ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ کرپشن کے خلاف انشورنس کمپنی اپنا کردارادا کرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ انشورنس کمپنی کا نہیں اور اگر انشورنس کمپنی والے ہی ہسپتالو ں والوں سے مل جائیں گے تو پھر چیک اینڈ بیلنس کہاں ہوگا۔
تیسرا قومی نقصان یہ ہو گا کہ ستر برسوں میں اب تک بنایا گیا صحت کا اچھا یا برا سرکاری انفراسٹرکچر تباہ ہو جائے گا جو کئی سو کھرب مالیت کا ہے اور جب دو چار برس بعد کوئی حکومت پریمیم کی رقم ادا نہیں کر پائے گی تو یہی پرائیویٹ سیکٹر اپنی خدمات روک دے گا ،مگر پیچھے غریب عوام کے لئے سرکاری ہسپتال بھی موجود نہیں ہوں گے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہی انشورنس سسٹم ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہاں کے عوام کی ماہانہ اور سالانہ آمدن کتنی زیادہ ہے، وہ اس عیاشی کو افورڈ کرسکتے ہیں، پاکستانی نہیں۔ یہاں ایک اور ایجنٹ مافیا جنم لے چکا ہے۔
مجھے ڈاکٹروں نے ہی بتایا ہے کہ دل کے سرکاری ہسپتال سے مریضوں کواچھے علاج کے نام پر ایک دوسرے پرائیویٹ ہسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرکاری ہسپتال ختم ہوجائیں گے۔چوتھا سوال یہ ہے کہ جن بیماریوں کا علاج ہیلتھ کارڈ پر دستیاب نہیں کیا وہ بیماریاں ہی نہیں ہیں یا ان کے مریض، مریض ہی نہیں ہیں؟ ستم تو یہ ہے کہ اس میں کورونا، ڈینگی جیسی وبائیں بھی شامل نہیں ہیں اور ٹیسٹ؟ بہت ساری بیماریوں میں دواؤں سے مہنگے تو ٹیسٹ ہو جاتے ہیں۔
مجھے اس پر بھی جزوی اعتراض ہے کہ یہ کروڑ پتی کو بھی وہی مفت علاج دے رہا ہے یعنی اس سے بنیادی طور پر اشرافیہ کو نوازا جا رہا ہے جو پرائیویٹ علاج افورڈ کر سکتا ہے۔ ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے بیس، تیس، چالیس لاکھ کیا ایک کروڑ تک کا علاج بھی مفت ہوتا تھا (چلڈرن ہسپتال اور پی کے ایل آئی وزٹ کر لیجئے) مگر اب یہ حد صرف دس لاکھ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پنجاب میں علاج اتنا ہی مشکل اور ناممکن ہونے جا رہا ہے جتنا خیبر پختونخوا میں ہو چکا اور وہاں کے مریضوں سے پنڈی سے لاہور اور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال تک بھرے پڑے ہیں۔ یہ یورپ کا وہ ماڈل جس کی وجہ سے تارکین وطن علاج وطن واپس آ کر ہی کرواتے ہیں۔
سادہ سا سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت کے پاس انشورنس کمپنیوں کو صرف صحت کارڈ پر دینے کے لئے 400 ارب موجود ہے تو وہ، ملک چلانے کے نام پر، ایک ارب ڈالر کی قسط یعنی 180 ارب روپوں کے لئے ساڑھے تین سو ارب کے ٹیکس کیوں لگا رہی ہے، 200 ارب کے ترقیاتی منصوبے کیوں ختم کر رہی ہے؟ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ شہباز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں میں کنٹریکٹ پر ڈاکٹروں کی بھرتی شروع کی اور دلیل دی گئی کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹر زیادہ فرض شناس ہوں گے، ان کی کارکردگی کے باقاعدہ نمبر ہوں گے اور جیسے ہی کوئی ڈاکٹر کارکردگی نہیں دکھائے اسے گھر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔
برس ہا برس یہ نظام چلتا رہا اور چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اس نظام کی حمایت اور سرپرستی کی مگر اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ صرف دس سے بارہ برس میں ہسپتالوں میں سینئرز کی ریٹائرمنٹ کے بعدتمام پوسٹیں خالی ہوتی گئیں بالخصوص ٹیچنگ میں تو پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کا کال پڑ گیا اور اسی طرح کنسلٹنٹ، رجسٹرار اور سینئر رجسٹرار ناپید ہوگئے۔ ہر ہسپتال اور میڈیکل کالج میں پوسٹیں خالی ہوگئیں۔ دوسری طرف ڈاکٹردس، دس اور پندرہ، پندرہ برس ملازمت کی شرائط کے باعث اسی گریڈ میں رہے۔ اب اس سے بھی بدتر صورتحال پیدا ہونے جا رہی ہے۔
مان لیجئے، تعلیم صحت پانی سڑکوں اور بجلی کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔ تبدیلی اور سہولت کے اس اس خوش نما چہرے اور وقتی کامیابی کے پیچھے مکمل تباہی ہے مگر کچھ لوگ میک اپ سے لتھڑا یہ چہرہ دیکھ کر واہ واہ کر رہے ہیں۔ ان کے ہوش جلد ٹھکانے لگ جائیں گے جب یہ تبدیلی منہ دھو کے سامنے آئے گی بلکہ بہت ساری جگہوں پر آ چکی ہے۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سٹیک ہولڈروں سے مشورہ کئے بغیر ہی فیصلے کرتی ہے اور یہاں پر فیصلے پاکستان کے حالات و واقعات سے ناواقف جناب عمران خان کے امریکی کزن نوشیرواں برکی کر رہے ہیں۔
صحت سے متعلقہ پروفیشنلز کی تمام تنظیموں کا موقف ہے کہ پاکستان میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ ضلعے اور تحصیل کی لیول پر ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے، انہیں ٹیچنگ ہسپتالوں کے لیول پر لایا جائے۔ وہ چار سو ارب جو انشورنس کمپنی کی پارٹنر شپ میں خرچ کیا جا ئے گا اسے صحت کے نظام کی بہتری پر خرچ کر دیا جائے تو ملک و قوم کا بھلا ہو گا ورنہ یہ سینکڑوں ارب روپیہ ہوا میں اڑجائے گا اور ہمارے پاس صرف ملبہ اور کھنڈرات رہ جائیں گے۔
مجھے افسوس سے کہنا ہے کہ معیشت ہو یا صحت، پاکستانیوں کے لئے فیصلے پاکستانی نہیں کررہے۔