ڈاکٹروں سے بات کریں

ینگ ڈاکٹروں اور ایل ایچ ویز سمیت صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ایک مرتبہ پھر میدان لگا رکھا ہے۔ سچ کہوں تو حکومت کے حامیوں میں وائے ڈی اے کی شہرت کچھ اچھی نہیں ہے۔ یہ سمجھاجاتا ہے کہ ان ڈاکٹروں کی اکثریت حکومت یا مسلم لیگ نون کی مخالف ہے مگر شائد یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں نے وائے ڈی اے میں بہت سارے رہنمائوں کو دیکھا ہے جو مسلم لیگ نون کے ساتھ مشکل ترین وقت میں کھڑے رہے جب طاقت اور مقبولیت ہرشعبے میں عمران خان کا طوطی بولتا تھا مگر اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔
میں کئی وجوہات کی بنا پر کہتا ہوں کہ ڈاکٹروں سے بات کریں اور سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اس میں دلیل ہوتی ہے، مکالمہ ہوتا ہے۔ تین ہفتوں سے زائد ہوگئے کہ انہوں نے احتجاج شروع کر رکھا ہے مگر ان سے مذاکرات نہیں کئے جا رہے، کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ کیا صحت کے محکمے کی طاقتور بیوروکریسی یا وزیروں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ مکالمہ کرنے بیٹھیں گے تو دلیل سے ہار جائیں گے اور اگر یہ خدشہ نہیں ہے تو مکالمے اور دلیل کا میدان کیوں نہیں لگ رہا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت تو ماں بھی ہوتی ہے اور باپ بھی، شہری اس کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، بچے اگر ضد پر ہوں، کچھ نہ سمجھ رہے ہوں تو کیا والدین انہیں عاق کر دیتے ہیں، ان پر پولیس چڑھا دیتے ہیں، ہرگز نہیں۔ یہ تو پڑھنے لکھنے والے بچے ہیں کوئی بدمعاش نہیں ہیں۔ تیسرے اگر ہم بھارت اور افغانستان جیسے ممالک سے بات کر سکتے ہیں تو اپنے ہی بچوں سے کیوں نہیں کرسکتے، کیا وہ ان سے بھی خطرناک اور ضرر رساں ہیں جو یہاں دہشت گرد بھیجتے ہیں۔ میں اس موقف کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ بات چیت کی ضرورت ہی نہیں۔
مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب وائے ڈی اے نے جیل روڈ پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رکھا تھا، ہسپتالوں کی غالباََ ایمرجنسیاں تک بند تھیں۔ تب میری فون پر جناب شہباز شریف کے ساتھ بات ہوئی۔ انہوں نے بجا طور پر شکوہ کیا کہ وائے ڈی اے کا احتجاجی کیمپ حکومت کے خلاف سیاسی کیمپ بنا ہوا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب شوکت بسرا اپنا سر پھڑوا کے ہسپتال پہنچ گئے تھے اور جناب آصف زرداری ان کی عیادت کے لئے گئے تھے۔ میرے علاوہ مبشرلقمان نے اعلان کر رکھا تھا کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک ہم روزانہ اسی کیمپ سے پروگرام کریں گے۔
وزیراعلیٰ نے مجھے کہا کہ یہ صورتحال ناقابل قبول ہے اور میرا کہنا تھا کہ یہ آپ کے بچے ہیں۔ انہیں بلائیں، آپ انہیں جو دے سکتے ہیں وہ دیں اور جو نہیں دے سکتے انہیں کہہ دیں کہ یہ مطالبہ مناسب نہیں ہے۔ جناب پرویز رشید میرے پاس دفتر آئے، ہم نے مکالمہ کیا اور یوں ایک بڑی تحریک بہت ہی آسانی کے ساتھ اس طرح ختم ہوئی کہ وزیراعلیٰ نے شفقت اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود وائے ڈی اے کے رہنمائوں کو جوس پلائے۔ ان کی تنخواہ ساڑھے بائیس ہزار سے دوگنا سے بھی بڑھ گئی جو ان کا حق تھا اور سروس سٹرکچر پر بھی کام شروع ہوگیا۔ میرا یقین ہے کہ محبت، طاقت سے بھی بڑی طاقت ہے۔
برادرم امین حفیظ کی صاحبزادی یعنی ہماری بھتیجی کی شادی کی تقریب میں میری خواجہ سلمان رفیق سے بات ہوئی۔ میں نہیں جانتا کہ خواجہ صاحب اپنے دوستوں سے دور کیوں ہو رہے ہیں۔ وہ دوست جنہوں نے ان کے لئے گالیاں تک کھائیں، بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پورا کالم لکھ چکا۔ خواجہ سلمان رفیق بتا رہے تھے کہ وہ صحت کے شعبے میں کوئی بڑاانقلابی پروگرام لا رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں شکوہ تھا کہ ڈاکٹر نہیں ہوتے لیکن اب ڈاکٹر ہوں گے اور وہ جتنے مریض دیکھیں گے اتنے ہی ان کو پیسے ملیں گے۔
ایک اور دوست بتا رہے تھے کہ اس پروگرام کے پائلٹ پروجیکٹ میں سامنے آیا کہ جہاں بیس مریض آتے تھے وہاں پچاس سے بھی زیادہ آنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کو غالباً سات لاکھ روپے ملیں گے جن سے وہ مرکز صحت کو چلائیں گے اوراس میں وہ ادویات کی فراہمی کے بھی ذمے دار ہوں گے۔ میرے پاس اس پروگرام کی حتمی اور مصدقہ تفصیلات نہیں سو میں اس کا پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ دفاع بھی نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ پروگرام واقعی اتنا اچھا ہے تو پھر اس پر پولیس کا استعمال کیوں، دوستوں کا کیوں نہیں؟
یہ کہنے میں عار نہیں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی حکومت بہت سارے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے اور جب بھی تبدیلی آتی ہے اس سے لازمی طور پر کسی نہ کسی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں جیسے تجاوزات کے خلاف مہم یا گندم کی خریدار ی میں کھربوں روپے کے ضیاع کو روکنالیکن کیا وجہ ہے کہ ان کے مثبت پہلوؤں پر بات کرنے کے لئے لوگ دستیاب نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے خلاف زوردار پروپیگنڈہ جاری ہے جیسے تجاوزات کے خلاف مہم سے بے روزگاری کا پروپیگنڈہ، گندم کی خریداری میں قوم کے کھربوں روپوں کے نقصان کو روکنے پر کسان کے مارے جانے کا پروپیگنڈہ اور اسی طرح صحت کے شعبے کے سٹیک ہولڈرز کا احتجاج۔ میں کانٹینٹ، کا بندہ ہوں جس میں حکومت کا مقدمہ اچھی صحت کے ساتھ نہیں لڑا جا رہا۔ حکومت اپنے پروگراموں کے اچھے نکات بھی واضح نہیں کر پا رہی حالانکہ اس کی طرف سے مختلف پروگراموں پر اشتہارات بھی جاری ہو رہے ہیں لیکن اس ضرورت اس امر کی ہے کہ پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب دئیے جائیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ کسان ہوں یا ڈاکٹر، یہ سب حکومت کی رعایا ہیں، حکومت کو حق ہے کہ ان پر اپنے فیصلے اور پالیسیاں لاگو کرے مگر ایک جمہوری حکومت ہمیشہ فیصلے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر کرتی ہے۔ بیوروکریسی بہت سیانی اور بہت ہوشیار ہوتی ہے مگر ووٹ بہرحال عوام نے ہی دینے ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مریم نواز کی بطور کیرزمیٹک لیڈر اگلی منزل وزارت عظمیٰ ہے۔ یہاں تو میاں نواز شریف نے انہیں ٹریننگ کے لئے بھیجا ہے۔ وہ اگر یہاں ان طبقات کے ساتھ مہربان رہیں گی تو یہ ان کے دست وبازو بنیں گے جیسے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے انہیں اہمیت دی، ان کی بات سنی تو انہیں یہاں ڈاکٹر شبیر چوہدری جیسے دوست اور ساتھی مل گئے۔ ان کی اہمیت پوچھنی ہے تو خواجہ آصف سے پوچھ لیں۔
سچ پوچھیں تو بلی کو مرچیں کھلانے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے زبردستی پکڑیں اوراس کے منہ میں مرچیں ٹھونس دیں مگر اس طریقے میں بلی اپنے پنجوں سے آپ کو لہولہان بھی کرسکتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ مرچیں بلی کی دم پر لگا دیں، وہ گھومتی رہے گی اورانہیں چاٹتی رہے گی۔ اگر آپ کچھ اچھا کر رہے ہیں، دوسروں کے لئے مفید، معاشرے کے لئے فائدہ مند تو اس پر دلیل سے جیتنے میں کیا ہرج ہے؟