پچاس لاکھ بچوں کی درخواست
اس روز جب پاک فوج سمیت پوری قوم آرمی پبلک سکول کے بچوں کو بربریت کے ساتھ قتل کرنے کے سانحے کی یاد منا رہی تھی، یعنی سولہ دسمبربروزمنگل، میں ہزاروں بچوں کے ساتھ لاہور کینٹ کی مین بلیوارڈ والٹن روڈ پر موجود تھا۔ یہ بچے یونیفارمز میں تھے اور اپنے اپنے سکولوں سے اپنے اپنے اساتذہ کے ساتھ آئے تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہزاروں بچے مجموعی طور پر پچاس لاکھ بچوں کی نمائندگی کر رہے تھے جو ملک بھر کے بائیس کنٹونمنٹس بورڈ کے تیس ہزار کے لگ بھگ چھوٹے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں، مسئلہ ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان سکولوں کے لاکھوں پر مشتمل ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کا بھی تھا اور ان مالکان کا بھی تھا جنہوں نے ان سکولوں میں اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ صرف لاہور کے دونوں بورڈز میں بائیس سو کے لگ بھگ سکول ہیں جنہیں وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔
میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ سکولوں کو رہائشی علاقوں کی عمارتوں میں نہیں ہونا چاہئے، یہ ایک اصولی بات ہے، اتنی ہی اصولی کہ ہمارے حکمرانوں کو صادق اور امین ہونا چاہئے اور ہمارے ججوں، جرنیلوں، صحافیوں اور بیوروکریٹوں کو غیر سیاسی۔ آپ کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کے ہر بچے کو مفت، معیاری اور گھر کے قریب تعلیم دینا حکومت کی ذمے داری ہے اور آپ اس سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ہماری ہر حکومت اس ذمئے داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ سکولوں کا کاروبار فروغ پایا ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد حکومت کی آئین میں دی گئی ذمے داری پورے کرنے سے ناکامی میں ہے کہ اگر حکومت ہر بچے کو اس کے علاقے میں سرکاری سکول میں یکساں معیار کی تعلیم دے رہی ہوتی تو پرائیویٹ سکولوں کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
بات صرف اس ایک ناکامی کی نہیں بلکہ اس سے بھی اگلی ناکامی یہ ہے کہ گذشتہ پچاس، ساٹھ برسوں قائم ہونے والے سکولوں میں کسی قسم کے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز پر عمل ہی نہیں کروا یا گیاکہ سکول کہاں ہونے چاہئیں، ان کے کتنے کمرے ہونے چاہئیں، ان کے پاس کتنی وسیع گراؤنڈز ہونی چاہئیں۔ سو، پرائیویٹ سکول بنتے گئے کہ سرکاری سکولوں کی گھٹیا ترین کارکردگی کے بعد جب ایک باپ پچیس، تیس ہزار مہینہ بھی کمانے لگے تو وہ سب سے پہلا کام یہی کرتا ہے کہ اپنے بچے کے بہتر مستقل کے خوا ب دیکھتے ہوئے اسے کسی پرائیویٹ سکول میں داخل کروا دیتا ہے جس کی فیس پانچ سو سے دو، چارہزار روپوں تک ہوتی ہے۔
میں بنیادی طور پر قوانین کا احترام کرنے والا شخص ہوں، مجھے ٹریفک سگنل پر اس وقت بھی رک پر اطمینان ہوتا ہے جب رات کے وقت سڑک ویران ہو اور وہاں کوئی ٹریفک والا بھی نہ ہو مگر میں اس بنیادی فلسفے کا بھی حامی ہوں کہ قوانین انسانوں اور شہریوں کے لئے ہوتے ہیں، انسا ن اور شہری قوانین کے لئے نہیں ہوتے۔ مجھے سپریم کورٹ کے اسی حالیہ فیصلے کاحوالہ دینے دیجئے جس میں ہزاروں ملازمین کی ملازمتیں دئیے جانے کے طریق کار کے غلط ہونے کے باوجود انسانی بنیادوں پر بحال کی گئی ہیں۔
اگر میں مزید کھل کر کہوں تو یہ جناب ثاقب نثار کا فیصلہ ہے جس کے تحت ہزاروں سکول کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود سے باہر نکالے جا رہے ہیں اوراس فیصلے پر میری رائے وہی ہے جو ان کے بہت سارے دوسرے فیصلوں پر ہے کہ وہ آئین، قانون اور بنیادی حقوق کے ابواب میں بطور نظیر پیش نہیں ہوسکتے۔ آل پاکستان کالجز اینڈ اکیڈمیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رانا عنصر محمود مجھے بتا رہے تھے کہ فیصلے کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز آرگنائزڈا ور پلانڈ ایریاز ہیں جہاں کمرشل ایکٹیویٹیز باقاعدہ قواعد وضوابط کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔
یہاں تک بات جزوی طور پر درست ہے اور باقی حقیقت یہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں ہی بہت سارے علاقے سویلین آبادیوں کے ہیں جہاں بے ہنگم بازار بھی ہیں اوربغیر کسی منصوبہ بندی کے رہائش بھی۔ آپ لاہور میں ہی صدر، نشاط، والٹن، چونگی امرسدھو وغیرہ کو دیکھ لیں۔ اب حکم یہ ہے کہ کینٹ کے ان تمام علاقوں سے پرائیویٹ سکول منتقل کر دئیے جائیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ یہ کاروباراپنے اپنے علاقوں سے منسلک ہیں یہ دوسری جگہ کیسے جا سکتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ان سے ہزاروں بلکہ لاکھوں ان بچیوں کا روزگار جڑا ہوا ہے جو چند ہزار روپے تنخواہ لے کر اپنا خرچ چلاتی ہیں، وہ نوے فیصد بے روزگار ہوجائیں گی، تیسرا سوال یہ ہے کہ ان پچاس لاکھ بچوں کے والدین جو کنٹونمنٹ بورڈز میں رہتے ہیں اپنے بچوں کو کیسے دور دراز کے سکولوں میں لینے اور چھوڑنے کی ذمے داری نبھائیں گے۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ جب کمرشل ایکٹی ویٹی کی بات کی جاتی ہے تو کیا صرف یہ سکول ہی بے ہنگم کمرشل ایکٹی ویٹی میں آتے ہیں۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ جب آپ ان سکولون کو کینٹ سے دیگر شہری علاقوں میں منتقل کریں گے تو کیا وہاں ٹریفک اور رش کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔
یٰسین سوہل کینٹ کے علاقے سے ایم پی اے ہیں اور اپنے علاقے میں ون ون ٹو ٹو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرا نکتہ بھی اٹھا رہے تھے کہ اس کے بعد کینٹ میں صرف امیروں کے سکول رہ جائیں گے جو باقاعدہ مخصوص کی گئی جگہوں پر بنائے گئے ہیں، جن کی فیسیں لاکھوں میں ہیں مگر وہ سکول جن کی فیسیں پانچ سو سے اڑھائی ہزار تک ہیں وہ سب نکال دئیے جائیں گے یعنی کینٹ امیروں کا پاکستان بن جائے گا جہاں سے غریبوں کے بچوں کو شودر سمجھ کر نکال دیا جائے گا۔ کیا کسی مہذب ریاست میں اس طرح کی تفریق رکھی جا سکتی ہے کہ قریب کے سکولوں میں وہی بچہ پڑھے گا جس کے باپ کی جیب میں پیسہ ہو گا۔
میرا ارباب اختیار سے سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے ایسے فیصلے کرتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے یہ سوچا کہ ان گھرانوں کے لئے پیدا ہونے والی مشکلات اور مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا۔ یہ بچے اپنے گھروں سے دور کیسے سکولوں میں جائیں گے۔ ان کے ماں باپ جو موٹرسائیکلوں اور چنگ چیوں سے زیادہ کچھ افورڈ نہیں کرتے پک اینڈ ڈراپ کیسے کریں گے۔ گھروں سے دور جانے والی سکولوں کی بچیوں کے لمبے راستوں پر جب لوفر اور لفنگے ان کی عزتوں پر حملے کریں گے تو کیا اس کی ذمے داری کن پر ہو گی۔ میں یہ سب دیکھ کر، سوچ کر سخت تکلیف میں ہوں کیونکہ ان سکولوں میں کسی طاقتور کا بچہ نہیں پڑھتا۔
یہ خبر بھی آئی کہ اس معاملے کا وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لے لیا ہے مگر کیا اس نوٹس کا حال بھی وہی ہو گا جو انہوں نے آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں کے نوٹس کالیا تھا کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کنٹونمنٹ انتظامیہ نے راولپنڈی میں ان سکولوں کوتالے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔ اس وقت کرسمس اور سردیوں کی چھٹیاں کی جا رہی ہیں اور جب یہ چھٹیاں ختم ہوں گی تو پچاس لاکھ بچے اپنے سکولوں سے محروم ہو چکے ہوں گے۔
مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ بائیس کنٹونمنٹس بورڈ سے منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی اس پر اپنی اپنی اسمبلی میں کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر یہ اسمبلیاں ایسے ایشوز پر بھی بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں، ایسے مسائل کو بھی حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں تو انہیں آگ لگا دینی چاہیے اور ان کی راکھ سے ان کا منہ کالا کر دینا چاہئے جو عوام کے حقوق کے نام نہاد محافظ بنتے ہیں۔