شہری اور دیہی سندھ تنازعات کا حل؟
سندھ کے شہری علاقہ بالخصوص کراچی اور حیدر آباد پر اندرون سندھ کی حکومت نے پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت آج تک سندھ کے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی ہے۔
اسی لیے کراچی آج ان گنت مسائل کا شکار نظرآتا ہے۔ امن وامان کے مسائل کے ساتھ پانی کا مسئلہ، گندگی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور اسپتالوں کی بری حالت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت نے کراچی کے ساتھ بالخصوص اور سندھ کی شہری آبادی کے ساتھ نہ تو انصاف کیا ہے اور نہ ہی ان کی ترقی ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔ اس کے مقابلے میں پنجاب کے شہری علاقوں کی صورتحال بہت بہتر ہے۔
ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم دراصل نہ صرف میرٹ کا قتل تھا بلکہ یہ سندھ کی شہری آبادی اور بالخصوص کراچی کے پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ زیادتی تھی۔ اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں وہ مسائل پید اکیے جو پاکستان کی وحدت اور یگانگت کے لیے خطرہ بن گئے۔ اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں لسانی سیاست کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہی کوٹہ سسٹم بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی نے دراصل سندھ کے سیاسی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پنجاب کی تقسیم کانعرہ لگایا۔
حالانکہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کی صورتحال اور وہاں کے سیاسی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سندھ کی تقسیم کی جائے اور شہری اور اندرون سندھ پر مشتمل دو الگ صوبے بنا دیے جائیں۔ میں اس دو عملی پر بھی حیران ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا تو ملک سے محبت ہے لیکن سندھ کی تقسیم کی بات کرنا ملک سے غداری ہے۔ یہ عجیب سیاسی بیانیہ ہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے پاکستان کے دروازے کراچی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہوا ہے۔ ہم نے بے شک کراچی سے ایک ناسور کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک ہم اس وجہ کو ختم نہیں کر سکے ہیں جس کی وجہ سے وہ ناسور پیدا ہوا۔ اس لیے میری رائے ہے کہ جب تک ہم بالخصوص کراچی کے مسائل حل نہیں کریں گے ایسے ناسور پیدا ہوتے رہیں گے۔ جب تک ہم میرٹ کی حکمرانی قائم نہیں کریں لوگوں کی محرومیاں دشمن کو فائدہ اٹھانے کے لیے زرخیز فصل مہیا کرتی رہیں گی۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے سندھ اور کراچی پر لاڑکا نہ کی حکومت ہے۔ اندرون اور شہری سندھ کی اس لڑائی میں نہ تو اندرون سندھ کوئی ترقی ہو سکی ہے اور نہ ہی شہری سندھ میں کوئی آئیڈیل صورتحال بن سکی ہے۔ میں اس کی بھی بنیادی وجہ کوٹہ سسٹم کو ہی سمجھتا ہوں۔ جب میرٹ کی حکمرانی ختم کریں گے تو ترقی اور خوشحالی قائم نہیں ہو سکتی۔
ایک خبر یہ ہے کہ سندھ کی حکومت نے لاڑکانہ سے 73پولیس افسران کا کراچی تبادلہ کر دیا ہے۔ اس تبادلہ کا مقصد یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ کراچی میں نئی بھرتیوں کی بجائے لاڑکانہ میں نئی بھرتیاں کی جا سکیں۔ اب جب 73پولیس افسرا ن لاڑکانہ سے کراچی منتقل کر د یے گئے ہیں تو لاڑکانہ میں 73پولیس افسران کی کمی ہو گئی ہے۔
جس کے بعد اب لاڑکانہ میں نئے پولیس افسران بھرتی کر لیے جائیں گے۔ باقی کہانی کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب کو سمجھ آہی گئی ہوگی۔ اس عمل کی وجہ سے کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والے نوجوانوں کے لیے کراچی پولیس میں بھرتی کے مواقع معدوم ہو جائیں گے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کی ہر آئی جی سے انھی مسائل کی وجہ سے لڑائی ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے اے ڈی خواجہ سے بھی یہی مسائل تھے بعد میں کلیم امام سے بھی یہی مسائل رہے۔ یہ بتانے کی بھی ضروت نہیں ہے کہ لاڑکانہ کے چہیتے پولیس افسران کس طرح بھرتی ہوئے ہوں گے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر لاہور کے پولیس افسر کو جنوبی پنجاب بھیج دیا جائے تو سرائیکی زبان نہ جاننے کی وجہ سے اس کے لیے وہاں روزمرہ کے فرائض سرانجام دینا مشکل ہو جائے گا۔ اس طرح لاڑکانہ کے پولیس افسر کے لیے کراچی میں فرئض سر انجام دینا آسان نہیں ہوگا۔ اس سے مزید لسانی مسائل پیدا ہونگے۔ اس حوالہ سے کراچی میں بہت شور ہے۔ ایک لاوا پک رہا ہے۔ ایک اور پمفلٹ بھی بہت تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جولائی 2018کے بعد یعنی نئی حکومتوں کے قیام کے بعد سے جو نئی بھرتیاں کی ہیں ان میں اردو بولنے والوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہو گئی ہے۔ اس پمفلٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی شرح 0.44فیصد ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے پمفلٹ نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ ان کا بھی موثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔
کراچی کی مردم شماری کے حوالہ سے ایک تنازعہ پہلے ہی موجود ہے۔ مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایک شور پیدا ہوا تھا کہ کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی ہے۔ اس وقت تو یہ کہا گیا کہ ابھی انتخابات قریب ہیں اس لیے ان مردم شماری کے نتائج کو مشروط طور پر تسلیم کر لیا جائے لیکن بعد میں تحقیقات کی جائیں گی۔
اس معاملہ کو بھی دبانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کراچی کی آبادی کم دکھانے کا ریاست پاکستان کو کیا فائدہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اندرون سندھ کی سیاسی قیادت کو تو فائدہ ہے۔ اگر سندھ کی شہری آبادی اندرون سندھ سے زیادہ یا برابر ہو جاتی ہے تو سندھ کا سیاسی بیلنس بدل جائے گا۔ اگر شہری سندھ کی آبادی زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر سیاسی برتری بھی شہری آبادی کی ہوگی۔ پھر سندھ کا وزیر اعلیٰ بھی شہری آبادی سے آئے گا۔ لاڑکانہ کی کراچی پر حکومت ختم ہو سکتی ہے اور کراچی کی لاڑکانہ پر حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ اگر کراچی کی نشستوں میں اضافہ ہو جاتا ہے تواس میں ریاست پاکستان کا کیا نقصان ہے۔
آج بھی مردم شماری 2017کے نتائج کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے ایک تنازعہ موجود ہے۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر یہ بات طے بھی ہوئی تھی کہ کراچی کے مردم شماری کے نتائج کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروالیا جائے گا۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے اور اس پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں اس مطالبہ کو مان چکی ہیں۔
سندھ اسمبلی نے گزشتہ انتخابات سے قبل اس ضمن میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی تھی۔ آج جب کراچی کے لولے لنگڑے بلدیاتی ادارے اپنی مدت پوری کر رہے ہیں تو نئے انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مردم شماری کے ان نتائج پر تنازعہ ہی ہے۔ کراچی کے بڑے سیاسی سٹیک ہولڈرز کا موقف ہے کہ جب تک مردم شماری کے نتائج کا حسب وعدہ تھرڈ پارٹی آڈٹ نہیں ہوتا تب تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ اور جب تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں نئے انتخاب کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس صورتحال میں لگ یہی رہا ہے کہ دیہی اور شہری سندھ کی اس لڑائی میں شہری بلدیاتی اداروں سے بھی محروم ہو جائے گا۔