پاور ایمرجنسی، کتنی ممکن، کتنی ناممکن
ملک میں پاور ایمرجنسی لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ نیپرا اور وزارت توانائی کے درمیان اختلاف اور تناؤ کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کے نرخوں میں سترہ دفعہ اضافہ کیا ہے۔ لیکن بجلی کی قیمت میں اس قدر اضافے کے باوجود گردشی قرضوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے توانائی کے شعبہ کے مالی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ مہنگی بجلی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کو کہیں نہ کہیں یہ ماننا ہوگا کہ وہ مسئلے کے آسان حل کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ناکام ہو گئے ہیں۔ اگر ان کی پالیسی یہ تھی کہ صرف بجلی کے نرخوں میں اضافے سے گردشی قرضوں سمیت دیگر مسائل حل ہو جائیں گے تو وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کی پالیسی کی بھی ایک حد تھی۔ حکومت نے اپنے پہلے دو سال میں ہی اس حد کو چھو لیا ہے۔ اب باقی تین سال کیا کریں گے۔ عمر ایوب کی پالیسی انھیں ایک بند گلی میں لے آئی ہے۔ اب شاید آگے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ ادھر جو اقدامات تجویز کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ وہ حکومت کے لیے شاید اب ممکن نہیں ہیں۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس نے مشکل کام کرنے کا تمام وقت گالم گلوچ اور مخالفین کو جیلوں میں بھیجنے میں ضایع کر دیا ہے اور اب یہ حکومت مزید کسی بھی قسم کی کڑوی گولی کھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے بند گلی میں کھڑی نظر آرہی ہے۔ اخبارات میں آیا ہے کہ نیپرا نے حکومت کو ملک میں پاور ایمرجنسی لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے تحت جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ وہ کرنا اس حکومت کے بس میں نظر نہیں آرہا۔
بجلی کی ریکوری کے نظام کی نجکاری تجویز دی جارہی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں یونین کو ختم کرنے، پری پیڈ میٹر، آئی پی پی سے دوبارہ مذاکرات کرنے، درآمدی فیول سے بجلی بنانے والے پلانٹ بند کرنے اور نقصان میں چلنے والے فیڈرز کی نجکاری کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دو سال ضایع کرنے والی حکومت کیا اب یہ تمام کام کر سکتی ہے۔
جہاں تک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں یونین ختم کرنے کی بات ہے۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ اگر آج عمران خان ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ تمام لیبر یونین ختم کر دیں تو کیا ہوگا۔ صاف ظا ہر ہے جو نظام اس وقت چل رہا ہے وہ بھی رک جائے گا۔ معاملہ عدالتوں میں جائے گا۔ ہڑتالیں شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کی حکومت اس وقت لیبر یونینز کے خاتمے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اگر دو سال پہلے اقتدار سنبھالتے ہی یہ کر لیا جاتا تو شاید تبدیلی کی امید کے چکر میں یہ ہضم ہو جاتا، اب ممکن نہیں ہے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیر اعظم نے بجلی چوری پر پاور ڈویژن کی کارکرد گی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا صرف چھوٹے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے جب کہ بڑ ے بجلی چوروں کے خلاف کارکردگی صفر ہے۔ میں بھی و زیر اعظم کے اس موقف سے متفق ہوں۔ بجلی چوری پکڑنے کا سارا ڈرامہ جعلی نکلا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی چوری ہو اور دو سال میں ایک بھی بڑا بجلی چور نہ پکڑا جائے۔ ملک میں سب نیک ہیں۔ حکومت سیاسی طور پرکمزور ہو چکی ہے۔ اتحادی ناراض ہیں۔ اپوزیشن دن بدن مضبوط ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا ایک کمزور حکومت کسی بڑے نام کو بجلی چوری میں پکڑنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ شاید یہ بھی دو سال پہلے ہوتا تو ممکن تھا۔ لیکن اب مشکل ہو گیا۔ حکومت نے اس محاذ پر بھی وقت ضایع کر دیا ہے۔ حکومت تو اب نیب کو بند کرنے کے چکر میں ہے۔ جن کو پہلے کرپشن میں پکڑا تھا وہ باہر آرہے ہیں۔ ضمانتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت کے ہاتھ سے طاقت نکلتی نظر آرہی ہے۔ ایسے میں بڑے لوگوں کو پکڑنا کیسے ممکن ہوگا۔
نواز شریف نے 1997میں ملک میں توانائی کے بحران سے نبٹنے کے لیے واپڈا فوج کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ بلاشبہ بہتری آئی تھی۔ آخر فوج نے ایک نہ ایک دن واپس بھی جانا تھا۔ کئی سال رہنے کے بعد فوج واپس چلی گئی اور آپ دیکھ لیں صورتحال آج پھر ابتر ہو گئی ہے۔
پاکستان میں ایسے کئی علاقہ ہیں جہاں لوگ بجلی کا بل دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ آپ کہہ سکتے ہیں وہاں بجلی کے بل کی ریکوری کے لیے حکومتی رٹ بہت کمزور ہے۔ لوگ کھلم کھلا بل نہ دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان میں بلوچستان کے متعدد علاقہ شامل ہیں۔ کے پی اور بالخصوص فاٹا کے علاقے شامل ہیں۔ اندرون سندھ کے علاقے بھی شامل ہیں۔
اگر لاہور اور کراچی کا موازنہ کیا جائے تو کراچی کی صورتحال بھی بہت خراب ہے۔ ن لیگ کی گزشتہ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے اس وقت عمران خان سے تعاون مانگتی تھی لیکن عمران خان تعاون کرنے سے انکاری تھی۔ آج عمران خان بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں۔ وہ بھی یہ کام اپوزیشن کے تعاون کے بغیر نہیں کر سکتے۔ لیکن آج اپوزیشن ان سے تعاون نہیں کرے گی۔ ن لیگ اپنے دور میں بجلی کی ریکوری اور بجلی چوری کی روک تھام صوبائی حکومتوں کو دینا چاہتی تھی۔ لیکن کے پی کی تحریک انصا ف کی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ آج کیا عمران خان ایسا کر سکتے ہیں؟ شاید اس محاذ پر بھی عمران خان نے وقت ضایع کر دیا ہے، اب دیر ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ عمران خان بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اور وہ انھیں اب نکلنے نہیں دیں گے۔
کیا آئی پی پی سے دوبارہ مذاکرات ممکن ہیں؟ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ماضی میں ایسی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔ جو زیادہ کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ گرمیاں آرہی ہیں۔ حکومت کو بجلی چاہیے ہو گی۔ ورنہ لوڈ شیڈنگ بڑھ جائے گی۔ کمپنیاں عالمی عدالت انصاف میں چلی جائیں گی۔ اس لیے یہ بھی مشکل محاذ ہے۔ ویسے بھی یہ کام ایک دن میں ممکن نہیں۔ یہ ایک لمبا کام ہے اور حکومت کے پاس اب وقت کم ہے۔
ٹیکنیکل لاسزکا معاملہ بھی گھمبیر ہو چکا ہے۔ یہ طے کرنا بھی مشکل ہے کہ بجلی چوری کتنی ہے اور لائن لاسز کتنے ہیں، ٹیکنیکل لاسز کتنے ہیں۔ اگر گزشتہ حکومت نے پاور جنریشن میں اضافہ کیا تھا تو موجودہ حکومت کو سسٹم کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ تا کہ لائن لاسز اور ٹیکنیکل لاسز کم کیے جا سکتے۔ لیکن دو سال میں اس محاذ پر بھی کام نہیں ہو سکا۔ ساری توجہ بجلی مہنگی کرنے پر رکھی گئی ہے۔
میری رائے میں حکومت کو پاور ایمرجنسی لگانی چاہیے۔ اس کے اہداف بھی بتانے چاہیے۔ لیکن یہ کام اکیلی حکومت نہیں کر سکتی۔ اس ضمن میں ایک قومی اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ لیکن یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اکیلی حکومت پاور ایمرجنسی لگا بھی لے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت مزید غیر مقبول ہو جائے گی اور اس کی نااہلی پر مزید مہر ثبت ہو جائے گی۔