کیا مولانا دوبارہ مارچ کر سکتے ہیں
مولانا فضل الرحمن دوبارہ نئی اننگ کھیلنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریک کے تیسرے مرحلہ کو شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے پہلے دو مراحل ناکام ہو گئے تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد کا مارچ اس شرط پر ختم کیاگیا تھا کہ تین ماہ میں تین استعفیٰ آجائیں گے۔ ان کے بقول چوہدری برادران ان وعدوں کے ضامن ہیں۔
میں حیران ہوں کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک اور دو اندیش سیاستدان نے کیسے ان وعدوں پر یقین کر لیا۔ جب ہر سیاستدان کو علم تھا کہ مولانا کچھ حاصل کیے بغیر گھر لوٹ گئے ہیں تو انھیں کیوں نہیں پتہ تھا کہ وہ خالی ہاتھ گئے ہیں۔ مولانا کا یہ گلہ کس حد تک جائز ہے کہ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن تقسیم ہو گئی ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مولانا نے پہلے بھی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی ایک نہیں سنی تھی اور اپنی مرضی کی تھی اور سولو فلائٹ کی تھی۔ اب بھی وہ سولو فلائٹ کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا کا نیا شیڈول کچھ نہیں ہے۔ کراچی میں جلسہ عام کے اعلان سے وفاقی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلام آباد میں ہوٹل کے ہال میں قومی کانفرنس بھی کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ معمول کی سیاسی سرگرمیاں ہیں۔ جن سے نہ تو حکومت جاتی ہے اور ہی کسی حکومت کو گھر بھیجا جا سکتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ مولانا کے ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ گلے شکوے کس حد تک جائز ہیں۔ اب مولانا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی تحریک کے تیسرے مرحلے میں ن لیگ اور پی پی پی کو شامل نہیں کریں گے۔ جواب یہ ہے کہ ن لیگ پہلے بھی رسمی طور پر شامل ہوئی تھی۔ یہ شمولیت بھی مجبوری میں تھی۔ لہذا ان کو دعوت دینا پہلے بھی گناہ بے لذت تھا، اب دعوت نہ دینا بھی گناہ بے لذت ہی ہوگا۔ مولانا صاحب نے باقی سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت حاصل کی تھی تا کہ وہ سیاسی طور پر تنہا نظر نہ آئیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت کے باوجود آپ پہلے بھی فیصلوں میں آزاد تھے۔ پی پی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ آپ کے دھرنے کی حامی نہیں ہے۔
ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو نے آپ کو اپنا مارچ موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ جسے آپ نے قبول کیا تھا۔ آپ نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی کوئی بات نہیں مانی تھی۔ پھر بھی دونوں جماعتوں نے آپ کی اخلاقی حمایت جاری رکھی۔ آپ اپنا گیم پلان خود ہی کھیل رہے تھے۔ آج اس کی ناکامی کی ذمے داری بھی آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ آپ اس ناکامی کی ذمے داری ن لیگ اور پی پی پی پر کیسے ڈال سکتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ن لیگ کا بالخصوص یہ سیاسی تجزیہ درست تھا کہ آپ کے مارچ کے نتیجے میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پی پی پی کو بھی ٹائمنگ پر اعتراض تھا۔ لیکن پھر بھی آپ کا ساتھ دیا گیا۔
سیاست میں ٹائمنگ سب سے اہم ہوتی ہے۔ صحیح ٹائم پر غلط کام بھی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اور غلط ٹائم پر صحیح کام بھی غلط ہو جاتا ہے۔ مولانا کی آزادی مارچ کی ٹائمنگ پر آج بھی دو رائے موجود ہیں۔ لوگ آج بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ مارچ واقعی عمران خان کے خلاف تھا۔ کیونکہ عمومی رائے یہی تھی کہ یہ مارچ اسٹبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے خلاف تھا۔ نواز شریف نے اس مارچ کی حمایت اسی سوچ سے کی تھی کہ مولانا سول بالادستی کے لیے مارچ کرنے جا رہے ہیں۔ تا ہم ایسا نہیں ہوا۔ مولانا نے کراچی سے اسلام آباد پہنچنے تک نرم گفتگو کی۔ سب کا خیال تھا کہ یہ بھی حکمت عملی ہے۔
وہ پہلے اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں۔ پھر موڈ بدل لیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مولانا نے پہلے دن ضرور للکارا۔ عمران خان سے بھی استعفیٰ پہلے دن مانگا گیا۔ لیکن اگلے دن مولانا کا موڈ بدل گیا تھا۔ وہ پہلے دن ڈی چوک جانے کا عندیہ دے رہے تھے۔ لیکن اگلے دن پیچھے ہٹ گئے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولانا نے ایک رات میں ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔ مولانا نے اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے آزادی مارچ سے پہلے یقین دلایا تھا کہ وہ دس لاکھ لوگ اسلام آباد لے آئیں گے۔ لیکن وہ دس لاکھ لوگ نہیں لا سکے۔ ان کا مارچ بھی پہلے دن عمران خان کے دھرنے کی طرح ناکام ہو گیا تھا، عمران خان بھی مطلوبہ تعداد میں لوگ لانے میں ناکام ہو گئے تھے۔
اس لیے وہ نواز شریف کا استعفیٰ نہیں لے سکے تھے۔ مولانا بھی مطلوبہ تعداد میں لوگ اسلام آباد لانے میں ناکام ہو گئے تھے۔ اس لیے عمران خان کا استعفیٰ نہیں لے سکے۔ اگر عمران خان تب دس لاکھ لوگ لانے میں کامیاب ہو جاتے تونواز شریف کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اسی طرح اگر مولانا بھی دس لاکھ لوگ لانے میں کامیاب ہو جاتے تو عمران خان کے استعفیٰ کے امکانات روشن ہو سکتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مولانا دوبارہ کوئی گیم بنا سکتے ہیں؟ کیا مولانا دوبارہ اسلام آبار کی طرف مارچ کر سکتے ہیں؟ مجھے نہیں لگتا۔ انھیں دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوئی اجازت نہیں دے گا۔ ایک دفعہ ہی ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ ہوگیا۔ عمران خان بھی دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ نہیں کر سکے تھے۔ حالانکہ انھیں طاقتور حلقوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن مولانا کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اب آہستہ آہستہ سیاسی تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے مولانا کی جانب سے اسلام آباد پر دوبارہ مارچ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس بات کا سب کو علم ہے۔ اسی لیے اب مولانا کی بات کو کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا ہے۔
مولانا کو چاہیے کہ وہ ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کے بجائے انھیں بہتر کریں۔ ان کی سیاسی اہمیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتیں انھیں لیڈر مان رہی تھیں۔ ورنہ وہ ایک چھوٹی جماعت کے لیڈر تھے اور ہیں۔ اور اسی حساب سے ان کی اہمیت ہو سکتی ہے۔ مولانا نے ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔ اب انھیں دوبارہ ویسا موقع ملنا کو کوئی امکان نہیں ہے۔