خواجہ برادران کی ضمانتوں کا معاملہ
اس وقت ملک عجیب صورتحال کا شکار ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سیاسی اور قومی ہم آہنگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آرمی ایکٹ کی غیر مشروط حمایت اور قانون سازی پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت ایک نیا منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی سیاسی قیادت کے خلاف حکومت کی جانب سے محاز آرائی جاری ہے، جس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ اپوزیشن کے نئے لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا اس وقت مناسب نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح نواز شریف کی بیماری پر سیاست حکومت کے لیے کوئی آسانی نہیں پیدا کرسکتی۔ تا ہم منظر نامہ میں یہ تضاد کہیں نہ کہیں حکومت کی ایک پیج کی تھیوری کی نفی کر رہا ہے۔
آپ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ دونوں بھائی نہ جانے کس جرم میں اندر ہیں۔ اب تو ثابت ہو گیا ہے اور خود حکومتی حلقے اعتراف کر رہے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق نے پاکستان ریلوے کی بحالی کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے جب ریلوے کی وزارت سنبھالی تو ریلوے شدید مالی اور انتظامی بحران کا شکار تھا۔ حالت یہ تھی کہ ٹرینیں ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے کھڑی رہتی تھیں۔ ریلوے کے پاس ایک دن کے ڈیزل کا بھی ذخیرہ نہیں تھا۔ انجن خراب تھے۔ غرض یہ بات عام تھی کہ ریلوے بند ہو جائے گا۔
ادھر چینی انجنوں کا اسیکنڈل زبان زد عام تھا۔ لوگ گزشتہ ادوار میں ریلوے میں کرپشن کی داستانیں کھل کر سناتے تھے۔ ریلوے کا خسارہ بہت بڑھ چکا تھا۔ ایک ماحول تھا کہ نواز شریف حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے ریلوے کی نجکاری کر دیں گے۔ ریلوے کے ملازمین سڑکوں پر تھے کہ نجکاری کو روکا جائے۔ ایسے میں خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی وزارت کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ اورریلوے کی بحالی کا سفر شروع کیا۔
میں یہاں خواجہ سعد رفیق کی بطور وزیر کامیابیاں نہیں گنوانا چاہتا۔ کیونکہ اس سے ایک بحث شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ اگر ازاخیل نوشہرہ ریلوے ڈرائی پورٹ کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ ایک طرف یہ دعویٰ ہے کہ ازا خیل ڈرائی پورٹ کا منصوبہ خواجہ سعد رفیق کے دور میں شروع ہوا اور نوے فیصد کام اس دور میں مکمل ہو گیا تھا۔ شیخ رشید کے دور میں صرف دس فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ لیکن شاید حکومت یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے کیا کام کیا ہے۔ مورخ ہی اس کا بہتر فیصلہ کر دے گا، یہ وقت اور ماحول مناسب نہیں ہے۔
تا ہم میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس حکومت کو بر سر اقتدار آئے اب تقریبا سترہ ماہ سے زائد ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن ان سترہ ماہ میں حکومت خواجہ سعد رفیق کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لا سکی ہے۔ بلکہ اب تو شیخ رشید نے بھی تنقید بند کر دی ہے۔ شروع شروع میں جو ریفرنسز بنانے کی باتیں کی جا رہی تھی وہ سب دم توڑ گئی ہیں۔ شیخ صاحب جو ایل این جی میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف گواہ بننے کے لیے تو تیار ہیں۔ لیکن وہ خواجہ سعد رفیق کے خلاف ایک بھی ثبوت نہیں ڈھونڈ سکے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان سترہ ماہ میں خواجہ سعد رفیق کے پانچ سالہ دور کو ایک مکمل کلین چٹ مل گئی ہے۔ انھوں نے بطور وزیر نہ تو کہیں اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور نہ ان کے دور میں ریلوے کو نقصان پہنچانے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
اب جہاں تک نجی ہاوئسنگ سوسائٹی کے حوالے سے ریفرنس کا تعلق ہے تواس ضمن میں بھی خواجہ سعد رفیق کا موقف یہ ہے کہ نیب نے ان کے دیے ہوئے کاغذات پر ہی ایک ریفرنس بنایا ہے جو خلاف حقیقت ہے۔ معاملہ چونکہ عدالت میں ہے لہٰذا میں مقدمے کے میرٹس پر بات نہیں کرنا چاہتا تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ جب اتنے نیب زدگان کی ضمانت ہو رہی ہے تو عدلیہ کو خواجہ سعد رفیق کے ضمانت کے معاملے کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ ایک سوال ہے، پندرہ ماہ کی جیل کافی ہوتی ہے۔ اب اگر بعد میں سزا ہو گئی تو وہ باقی جیل کاٹ لیں گے اگر ساری جیل مقدمے کے فیصلے سے پہلے ہی کاٹ لی تو مقدمے کے فیصلے کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔
میں نہیں مانتا لیکن سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کا لوہے کے چنے والے بیان نے ان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اسی لیے پہلے تو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہی نہیں کیے جاتے تھے اور اگر جاری بھی کیے جاتے تھے تو ان کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت بھی ایک تکلیف بنا دی جاتی تھی۔ انھیں صبح لاہور سے اسلام آباد بذریعہ سڑک اجلاس میں شرکت کے لیے لیجایا جاتا رہا ہے اور شام کو واپس بذریعہ سڑک لاہور لایا جاتا۔ یوں چار گھنٹے کے اجلاس میں شرکت کے لیے دس گھنٹے کا سفر کرایا جاتا۔
خواجہ سعد رفیق بھی ایک ذہین سیاستدان ہیں، اسی لیے آرمی ایکٹ میں قانون سازی کی باری آئی اور ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے تو انھوں نے شرط رکھ دی کہ وہ صبح جاکر شام کو واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر آرمی ایکٹ میں ووٹ کے لیے اسلام آباد لیجانا ہے تو وہیں رکھنا ہوگا۔ جو حکومت پندرہ ماہ سے انھیں اسلام آباد میں رات رہنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی، اس نے فوراً پارلیمنٹ لاجز کو سب جیل قرار دے دیا اور انھیں اسلام آباد لے گئے۔ پندرہ ماہ کی حراست میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ پارلیمنٹ لاجز میں رہے ہیں۔ حکومت کے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے ایسا نہیں لگتا کہ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں انھیں یہ سہولت دوبارہ دی جائے گی۔
خواجہ سلمان رفیق کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ وہ تو دس سال پنجاب میں وزیر صحت رہے ہیں۔ ان کے دور وزارت میں اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ صحت کے سیکڑوں منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ سابق دور میں صحت کے شعبہ میں کیا اور کتنا کام ہوا ہے۔ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ حکومت خواجہ سلمان رفیق پر بھی کرپشن ثابت نہیں کرسکی ہے۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی کیس نہیں بن سکا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس طرح نیب ریفرنسز میں باقی سیاستدانوں کی ضمانتیں ہوئی ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی ضمانت نہیں ہوئی ہے۔ خواجہ برادران کی ضمانت کی راہ بھی ہموار ہونی چاہیے۔ ان کی ضمانت کی راہ میں قانونی اور دیگر رکاوٹیں دور ہونی چاہیے۔ پندرہ ماہ کی اسیری بہت ہوتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے اندر سیاسی ہم آہنگی اور اداروں کے ساتھ ملکر چلنے کی سوچ کے حامی ہیں۔ وہ آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خلاف نہیں رہے بلکہ انھوں نے اس فیصلہ کی حمایت کی ہے۔ تا ہم شائد ابھی حکومت اس سیاسی ہم آہنگی کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہی بلکہ اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہی ہے۔