جھوٹی کہانیاں
جب سے سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں تب سے ان کے خلاف ایک ٹولہ سازشیں کر رہا ہے تا ہم اب تک ساری سازشیں نا صرف ناکا م ہو چکی ہیں بلکہ سازشی ٹولے وقت بے وقت بے نقاب بھی ہوئے ہیں۔ تا ہم اس کے باوجود پنجاب میں درباری سازشوں کا ایک کھیل جاری ہے۔
سردار عثمان بزدارکے یہ نادان دوست ہار ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہر وقت کسی نہ کسی نئی سازش کے تانے بانے بننے میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پنجاب کا سیاسی منظر نامہ کبھی کبھی ایک ایسے ڈرامے کا منظر نامہ بھی پیش کرنے لگتا ہے جہاں سازشیں ہی سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔
سردار عثمان بزدار کے ان نادان دوستوں کی خواہش تو یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹادیا جائے تا ہم اب انھیں کسی حد تک اندازہ تو ہو گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیں سیاسی بساط ایسے بچھ گئی ہے کہ عثمان بزدار اس کا ایک بنیادی جزو بن گئے ہیں۔ اب اکیلے ان کا ہٹانا ممکن نہیں رہا۔ اب وہ اور وزیر اعظم عمران خان ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ عثمان بزدار کو ہٹانے کی ہر کوشش دراصل عمران خان کو ہٹانے کی کوشش ہے۔ اس لیے سردار عثمان بزدار کے نادان دوستوں کو اب اندازہ ہو گیا ہے کہ انھیں ہٹا یا نہیں جا سکتا۔ تا ہم انھیں کمزور کرنے اور ان کے ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہر وقت جاری رہتی ہے۔ شاید ان کے نادان دوستوں کو ڈر ہے کہ کہیں ان کا یوم حساب ہی نہ آجائے۔
جب میجر (ر) اعظم سلیمان چیف سیکریٹری پنجاب تعینات ہوتے تو چند نادانوں نے سمجھا تھا کہ پنجاب کے دونوں بڑوں کا اکٹھے چلنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے خوب تماشہ لگے لگا۔ لیکن عثمان بزدار نے تحمل اور سیاسی رواداری کا مظاہرہ کیا اور اس سارے کھیل کو ناکام بنا دیا جس کی نادانوں کو تمنا۔ اور پھر چیف سیکریٹری واپس وفاق چلے گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور میجر(ر) اعظم سلیمان کے مابین آج بھی بہترین تعلقات ہیں، شاید جو کوئی کھیل کھیلنا چاہ رہے تھے وہ دونوں طرف سے آئوٹ ہو گئے ہیں۔
اب جواد رفیق ملک پنجاب کے چیف سیکریٹری ہیں۔ وہ اندرون لاہور کے رہنے والے ہیں اور ان کا تعلق لاہور کی ککے زئی برادری سے ہے۔ لیکن یہ مزاج سے ککے زئی نہیں ہیں۔ کیونکہ ویسے تو لاہور کے ککے زئی کافی غصیلے اور لڑا کے مشہور ہیں لیکن جواد رفیق کے مزاج میں تحمل اور نرم گوئی حیران کن حد تک موجود ہے۔ بہت کم لوگوں نے انھیں کبھی غصے میں دیکھا ہو گا۔ انھیں پنجاب میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ لاہور کے کمشنر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر صحت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مرکز میں بھی کئی اہم ذمے داریوں پر کام کیا ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے سیکریٹری رہے ہیں۔ نیشنل ہائی وے کے چیئرمین رہے ہیں اور وفاقی سیکریٹری مواصلات رہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ بطور وفاقی سیکریٹری مواصلات انھیں عمران خان کی بہت قربت حاصل ہوئی ہے۔ اسی لیے عمران خان نے انھیں پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا ہے۔
سردار عثمان بزدار اور جواد رفیق ملک دونوں کا مزاج ایک جیسا ہی ہے۔ دونوں ہی نرم اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں۔ اس لیے عمومی رائے یہی ہے کہ اب ٹھیک جوڑی بن گئی ہے۔ اب پنجاب میں ٹھیک ٹیم بن گئی ہے۔ اس لیے جواد رفیق ملک کی تعیناتی سے پنجاب میں بہت بہتری آئی ہے۔ لیکن نادان دوست باز نہیں آئے۔ اب منفی خبریں لیک کرنا شروع کر دی گئی ہیں، نئی نئی کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے کچھ گڑبڑ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں فریق ہی حیران ہیں کہ ان کے درمیان اختلافات کی یہ کہانیاں کہاں سے جنم لے رہی ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ دونوں کو ہی نہیں پتہ کہ ان کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ نادان دوستوں کو وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کے درمیان اختلافات کی خبریں پھیلا کر کیا حاصل ہوتا ہے۔ اس کا ایک مقصد تو پنجاب کی بیوروکریسی کو کنفیوژکرنا ہے۔ دور اضلاع میں بیٹھے افسران جب ان خبروں کو سنتے ہیں تو انھیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کریں۔ یوں پنجاب میں گورننس کے مسائل پید اہو جاتے ہیں جیسا کہ ماضی میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس بار منفی خبریں پھیلانے میں افسر شاہی کے دو الگ الگ دھڑے بھی شامل ہیں۔ دونوں کے مقاصد اہداف بھی الگ الگ لگتے ہیں۔ چیف سیکریٹری تعیناتی کے بعد افواہ اڑائی گئی کہ اب پنجاب میں دوبارہ تبادلوں کا ایک ریلا آنے والا ہے۔ ایسی خبریں بھی آئیں کہ پنجاب سے بڑے بڑے افسران کو سرنڈر کیا جا رہا ہے۔ کبھی خبر آجاتی کہ سات سیکریٹری تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ کبھی چھ کمشنر تبدیل ہونے کی خبریں آجاتیں۔ ان گنت ڈپٹی کمشنرز کے تبادلوں کی خبریں آنے لگیں۔
ایسی خبریں آنے کے بعد افسران کام کرنے کی بجا ئے اپنے تبادلے رکوانے کے چکر میں لگ جاتے۔ ان میں پریشانی بڑھنے لگتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ جب سے جواد رفیق ملک پنجاب کے چیف سیکریٹری لگے ہیں انھوں نے کوئی بڑا تبادلہ نہیں کیا ہے۔ پرانی ٹیم ہی کام کر رہی ہے۔ لیکن پھر بھی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ادھر وہ افسران جنھیں سابق چیف سیکریٹری نے آکر ہٹا دیا تھا، وہ بھی پریشان ہو رہے ہیں کہ آخراب ا ن کی پوسٹنگ کیوں نہیں ہو رہی ہے۔
راوی کے مطابق دونوں کے درمیان اختلافات کی خبریں اور افوائیں میڈیا میں آنے کے بعد جب دونوں کی ملاقات ہوئی ہے تو دونوں کافی دیر تک ان خبروں اور افواہوں پر ہنستے رہے ہیں۔ قہقہے لگاتے رہے ہیں۔ حیران بھی ہوئے ہیں کہ ایسی اطلاعات کہاں سے آجاتی ہیں۔ لیکن یہ پاکستان ہے یہاں ایسی خبریں اور افواہیں بھی آجاتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب کے دونوں بڑوں کو اس کا اندازہ ہے۔ اس لیے انھوں نے ان کو سنجیدہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔