حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جعلی مفاہمت
ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کا ایک دھندلا منظر نامہ نظر آرہا ہے۔ گو آرمی ایکٹ پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مکمل افہام و تفہیم نظر آئی ہے۔ لیکن سیاسی حلقے اس کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم نہیں مان رہے ہیں۔
افسوس کی بات کہ حکومت نہ تو اس افہام و تفہیم کاکریڈٹ لینے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کوروکنے کی پوزیشن میں تھی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ افہام و تفہیم حکومت کی مرضی کے خلاف تھی۔ حکومت نہ ایسے کسی اتفاق رائے کی خواہاں تھی اور نہ ہی ا س کو یہ پسند ہے۔ لیکن وہ اس کو قبول کرنے پر مجبور نظرا ٓئی ہے۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے۔ آرمی ایکٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس اتفاق رائے کی بھی عجیب کہانی ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھی۔ آج اس مفاہمت کے قصیدے پڑھنے والے بھول گئے ہیں کہ عمران خان نے فروغ نسیم کی قانونی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی سندھ کی سیٹ پر خالد محمود صدیقی اور بلوچستان کی سیٹ پر منیر احمد کاکڑ کو ممبر نامزد کر دیا تھا۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ تا ہم چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان نے نہ صرف حکومت کے اس نوٹیفکیشن کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ ان دونوں ممبران سے حلف لینے سے بھی انکار کر دیا۔
ان دونوں ممبران کو نامزد کرنے سے پہلے قائد حزب اختلاف نے ایک خط وزیر اعظم عمران خان کو لکھا اور اپنی طرف سے نام پیش کیے۔ اس کے بعد عمران خان نے ایک خط لکھا اور اپنی طرف سے نام پیش کیے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے نام قبول نہیں کیے گئے۔ تا ہم وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آئین میں مشاورت کا لکھا ہوا ہے اور خطوط کے تبادلے سے مشاورت کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ اس لیے حکومت کے پاس اپنی مرضی کے ممبران نامزد کرنے کا اختیار ہے۔ لہذا اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کے نئے ممبران نامزد کر دیے گئے ہیں۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان نے حکومت کی نامزدگیوں کو ماننے انکار کر دیا۔ انھوں نے حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا کہ حکومت نے ان دونوں ممبران کو غیر آئینی طور پر نامزد کیا ہے۔ اس لیے ان سے حلف نہیں لیا جا سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر کے انکار کے بعد حکومت بند گلی میں پھنس گئی۔ لیکن حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے دن گنے جانے لگے۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ اسی طرح یک طرفہ طور پر اپنی مرضی سے نیا چیف الیکشن کمشنر بھی نامزد کرلے گی۔ لیکن اس سے پہلے اپوزیشن عدالت چلی گئی۔ شائد حکومت اپوزیشن کے عدالت جانے سے بھی پریشان نہیں تھی۔ کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ اس وقت اپوزیشن کی کون سنے گا۔ تا ہم ماحول بدل گیا۔
حکومت جسٹس (ر) سردار محمد رضا سے بھی بہت ناراض ہو گئی۔ اسی لیے وفاقی وزیر اعظم سواتی نے برملا کہا کہ حکومت شکر ادا کرے گی جس دن چیف الیکشن کمشنر ریٹائر ہوں گے۔ حالانکہ یہی حکومت اسی چیف الیکشن کمشنر سے بہت خوش تھی۔ سارے انتخابی عمل میں اپوزیشن کا یہی الزام رہا ہے کہ ان کا جھکاؤ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ پولنگ اسٹیشن پر فوج تعینات کرنے سے لے کر تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کو التواء میں رکھنے تک جسٹس (ر) سردار محمد رضا کے تمام اقدامات تحریک انصاف کے حق میں ہی رہے تھے۔ لیکن جاتے جاتے نہ جانے انھیں کیا ہو گیا کہ انھوں نے عمران خان کے نامزد کردہ ممبران سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔
یہ ساری کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اپوزیشن سے مفاہمت کبھی بھی اس حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ آج بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ مفاہمت حکومت کے لیے ایک کڑوی گولی ہے۔ بلکہ اگرا س مفاہمت کے حوالے سے عمران خان کی ٹیم کا رویہ دیکھا جائے تو وہ اسے اپنے لیے زہر قاتل ہی سمجھ رہے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومتی حلقے اس کو بادل نخواستہ قبول کر رہے ہیں۔ اسی لیے حکومت اس مفاہمت سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکی ہے۔ کیونکہ وہاں یہ رائے موجود ہے کہ اس مفاہمت کا تحریک انصاف کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن اس مفاہمت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ وہ جان رہے ہیں کہ حکومت کو یہ مفاہمت پسند نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اس مفاہمت کو کامیاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ جو قوتیں یہ مفاہمت کروا رہی ہیں۔ ان کو قائل کیا جائے کہ اس مفاہمت کا ملک کو بہت فائدہ ہے۔ اس لیے اس سلسلہ کو آگے چلانا چاہیے۔ ہمیں یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حکومت تو کسی بھی قسم کی قانون سازی کے لیے بھی اپوزیشن سے تعاون مانگنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے یک دن گیارہ آرڈیننس جاری کر دیے گئے۔
حکومت کا موقف تھا کہ جب آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی جا سکتی ہے تو اپوزیشن سے تعاون مانگنے اور مفاہمت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن آرڈیننس جا ری کرنے کا معاملہ بھی نہیں چل سکا۔ ویسے تو اپوزیشن کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد ارکان پورے ہونے کے باوجود ناکام ہو گئی تھی۔ اس لیے جب قومی اسمبلی سے آمرانہ انداز میں آرڈیننس کی توثیق کی گئی تو اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی منطق نہیں سمجھ آتی تھی۔
حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت پوری تھی۔ اس لیے ا س عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ تا ہم یہ عدم اعتما د واپس لینے کے لیے حکومت کو درخواست کرنی پڑی۔ لیکن یہ بھی کوئی سنجیدہ درخواست نہیں تھی۔ لیکن اپوزیشن نے یہ غیر سنجیدہ درخواست بھی مان لی۔ آرڈیننس واپس لینے پر بات ہوئی اور اپوزیشن نے وعدہ کر لیا کہ وہ یہ قوانین منظور کرانے میں حکومت کی مدد کرے گی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن ایک قدم پیچھے ہٹی۔
اس لیے مجھے دو بڑے معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے باوجود مفاہمت کا یہ ماحول جعلی لگ رہا ہے۔ ایک طرف مل کر بڑے بڑے معاملات طے بھی ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی نظر آرہا ہے کہ کوئی مفاہمت نہیں ہے۔ لیکن اپوزیشن کو ریلیف بھی مل رہا ہے۔ آپ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے زرداری کی کراچی منتقلی تک سارے معاملات دیکھ لیں۔ اپوزیشن ریلیف بھی لے رہی ہے اور حکومت بے بس بھی نظر آرہی ہے۔ حکومت کی بے بسی قابل دید ہے۔
حکومت کا رویہ ایسی خاتون کا ہے جسے اپنی سوتن کو خوش آمدید کہنے اور گلے لگانے کا کہہ دیا جائے اور وہ اپنی ہی سوتن کو گلے لگانے اور خوش آمدید کہنے پر مجبور ہو جائے۔ وہ بظاہر ہنس رہی ہو لیکن اندر سے رو رہی ہو۔ ایسے ہی حکومت بظاہر ہنس رہی ہے اور اندر سے رو رہی ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ اسی لیے مفاہمت جعلی لگ رہی ہے۔ اس میں اپوزیشن کی جیت اور حکومت کی ہار نظر آرہی ہے۔