کورونا کے بعد کا منظر نامہ
کورونا نے پاکستان کو کیا نقصان پہنچایا ہے، ہمیں اس کا شاید ابھی اندازہ نہیں ہو رہا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت اور ارباب اختیار کو بھی اس کا اندازہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہم ابھی تک اسی بات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے کہ نہیں۔ عید سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کرنے کے حق میں دلائل دیے جا رہے تھے۔
عید کے فوری بعد دوبارہ لاک ڈاؤن کرنے کے حق میں دلائل آنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہی چہرے ہیں لیکن دلائل بدل گئے ہیں۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ پاکستان لمبے لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب کہاجا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ عوام کو سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ عجیب منطق پیش کی جا رہی ہے کہ عوام نے خیال نہیں کیا ہے۔ عوام نے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی ہیں۔ عوام نے بے احتیاطی کی ہے، اس لیے دوبارہ لاک ڈاؤن کرنا ہوگا۔ سارا قصور عوام کا ہی ہے۔
حکومت نے لاک ڈاؤن کی بحث میں خود کو اس قدر پھنسا لیا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ کورونا سے لڑنے کے لیے لاک ڈاؤن ایک جزوی حکمت عملی ہے۔ سب سے بڑا محاذ معاشی ہے۔ جو لوگ کورونا سے بچ جائیں گے وہ بھوک بے روزگاری سے مر جائیں گے۔ کورونا کے بعد ملک میں بھوک اور بے روزگاری کا ایک ننگا ناچ نظر آرہا ہے۔ لیکن حکومت نے ایسے ہی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جیسے ٹڈی دل کے حملے کے وقت بند کی ہوئی تھیں۔ ٹڈی دل پر بھی حکومت نے بروقت اسپرے نہیں کیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ آٹھ سو ارب کا نقصان ہوگیا ہے۔
ویسے تو میں سمجھتا ہوں کہ بر وقت اسپرے نہ کر کے حکومت نے ٹھیک ہی کیا ہے۔ اگر بر وقت اسپرے کر دیا جاتا تو سب کہتے کرپشن ہو گئی۔ ابھی تو ٹڈی دل نے حملہ بھی نہیں کیا تھا اور اسپرے کر دیا گیا۔ ہمیں ایسے ایسے زرعی ماہر نظر آنے لگتے جو اس کرپشن کی داستان سناتے تھکتے نہیں۔ اس لیے اس حکومت نے کرپشن کے الزامات سے بچنے کی ایک کامیاب راہ یہ بھی نکالی ہے کہ کوئی کام ہی نہ کیا جائے۔ کیونکہ کام نہ کرنا کوئی کرپشن نہیں۔ نا اہلی کوئی کرپشن نہیں ہے۔ کام کرنے سے کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، نہ کرنے سے موجاں ہی موجاں۔
بہر حال ہم کورونا کے بات کر رہے تھے، ٹڈی دل نہ جانے کہاں سے آگیا۔ سوال یہ ہے کہ جب کورونا کا حملہ تھم جائے گا تو کیا ہوگا۔ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ ہمیں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے ہمار ی کیا حکمت عملی ہوگی۔ ہمیں تو ابھی یہ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم احساس پروگرام کے تحت پیسے دیکر سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے بہت تیر مار لیا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ حکومت سمجھ رہی ہے کہ ملک میں صرف دو طبقے امیر اور غریب رہتے ہیں۔
حالانکہ ملک میں امیروں اور غریبوں کے علاوہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی اکثریت رہتی ہے۔ جن کی تعداد امیروں اور غریبوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے لیکن جب سے یہ حکومت آئی ہے مڈل کلاس کے لیے بھی زندگی مشکل سے مشکل ہو تی گئی ہے۔ اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ کورونا نے امیروں اور غریبوں کو اس طرح متاثر نہیں کرنا ہے جیسے مڈل کلاس کو کیا ہے۔ لیکن حکومت کے پاس نہ تو مڈل کلاس کو اس وباء سے بچانے کے لیے کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی توجہ۔
کورونا کی وجہ سے پاکستان میں پڑھے لکھے نوجوان دن بدن بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ہر جگہ ڈاؤن سائزنگ کے نام پر لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ایجوکیشن سیکٹر میں تنخواہیں بند ہو گئی ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کالجز میں انتظامیہ نے لاک ڈ اؤن کی وجہ سے ٹیچرز کو تنخواہیں دینا بند کر دی ہیں۔ کیا حکومت میں کسی کو اندازہ ہے اس بار عید پر کتنے فیصد تنخواہ دار طبقے کو تنخواہ نہیں ملی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو احساس پروگرام کے تحت پیسے بھی نہیں مانگ سکتا۔
ایجوکیشن سیکٹر کے ساتھ ہوٹل اور ریسٹورنٹ انڈسٹری میں بھی تباہی ہو گئی ہے۔ چھوٹے بڑے ریسٹورنٹس بند ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں انھوں نے نوے فیصد اسٹاف کو نکال دیا ہے۔ ہوم ڈلیوری اور ٹیک وے کے لیے اسٹاف کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ویٹرز، ریسٹورنٹ مینجرز اور دیگر اسٹاف کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو چکی ہے۔ اول تو جو ماحول بن رہا اس میں ریسٹورنٹس کے کھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر لاک ڈاؤن ختم بھی ہو جاتا ہے تو یہ کاروبار منافع بخش نہیں ہوسکے گا۔ ریسٹورنٹس مالکان کی اکثریت کے پاس اب دوبارہ اپنے کاروباروں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔
جہاں تنخواہیں مل بھی رہی ہیں وہاں آدھی کر دی گئی ہیں۔ تنخواہ آدھی کرنا اس میں کٹ لگانا تو کوئی جرم ہی نہیں رہ گیا۔ بلکہ جو آدھی دے رہے ہیں وہ اچھے مالکان تصور کیے جا رہے ہیں کہ دے تو رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تمام کاروبار تباہ کر دیے ہیں۔ کیا کسی کو اس کااندازہ ہے۔ ہم تو اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے کہ نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایک اسکیم دی ہے۔ لیکن اکثریت نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس میں مالک کو تنخواہوں کے قرض کے لیے جائیداد گروی رکھنے کی شرط عائد کی گئی تھی۔ کون مالک ہے جو ملازمین کی تنخواہوں کے لیے اپنی جائیداد گروی رکھوائے گا۔ اس لیے اکثریت نے تنخواہیں نہ دینے میں ہی عافیت جانی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کورونا سے ہونے والی معاشی تباہی سے نبٹنے کی حکمت عملی بنانے کا یہی بہترین وقت ہے۔ حکومت نے جس طرح کنسٹرکشن پیکیج دیا ہے۔ ایسے ہی ایک بڑے پیکیج دینے کا وقت ہے۔ کنسٹرکشن پیکیج بھی ابھی نامکمل ہے، اس میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو شامل نہیں کیا گیا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کورونا کے بعد دنیا ہماری مدد کو نہیں آئے گی۔ قرض نہیں ملے گا۔ ہمیں ساری تباہی سے خود ہی نبٹنا ہوگا۔
حکومت کو ملک میں ایک اتفاق رائے بناناہوگا۔ پاکستان کے اندر کالے پیلے نیلے سرمائے کو باہر لانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو اس بات کو اب ماننا ہوگا کہ احتساب کے جعلی اقدامات اور یکطرفہ کارر وائیوں نے بے شک عمران خان کو سیاسی فائدہ تو دیا ہے لیکن اس کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ معاشی طور پر پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ لوگ ڈر گئے ہیں۔ پیسہ رک گیا ہے۔ لوگوں نے پاکستان میں کام کرنا بند کر دیا ہے۔ اس لیے تمام تر کوششوں کے باوجود ترقی کی شرح بھی کم ہوئی۔ ٹیکس بھی کم اکٹھا ہوا۔ مہنگائی بھی ہوئی۔
اب کورونا کے بعد ہم ایسے ماحول کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس ماحول کو بدلنے کے لیے پالیسی بدلنا ہو گی۔ پورے ملک کے لیے ایک بڑی اور مکمل جنرل ایمنسٹی اسکیم دینے کی ضرورت ہے۔ نیب کو بند کرنا ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ماحول ایسا بن گیا ہے کہ صرف حکومتی اقدامات سے لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرنا ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن کو ملکر یہ ایمنسٹی دینی ہوگی۔
ملک میں کاروبار کو ہر قسم کی پریشانی سے آزاد کرنا ہوگا۔ ایسی اسکیمیں لانا ہوں گی کہ لوگ چھوٹے کاروبار کرنے کی طرف مائل ہو سکیں۔ بند کاروبار دوبارہ کھل سکیں۔ آسان قرضوں کی اسکیمیں لانا ہوں گی، جن میں جائیداد کی گروی کی شرائط ختم کی جا سکیں۔ ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ بینکوں نے عام روٹین کے چھوٹے قرض دینا بھی بند کر دیے ہیں۔ ہمیں سارا منظر نامہ بدلنا ہوگا۔ ورنہ اگر ہم کورونا سے بچ بھی گئے تو کورونا کے اثرات سے مرجائیں گے۔ افسوس کے حکومت کو بھی تک اس کا کوئی ادراک نہیں ہے۔