کورونا، ایران اور سعودی عرب کے اقدامات
کورونا نے پوری دنیا کو پریشان کر دیا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں اس وائرس سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی بنا رہی ہیں۔ تمام حکومتوں کے اقدامات اور ان کے نتائج یکساں نہیں ہیں۔ ہر حکمران اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کورونا سے نبٹنے کی حکمت عملی بنا رہا ہے۔ گو کہ عالمی ادارہ صحت نے حکومتوں کی رہنمائی کے لیے گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔
تمام حکومتیں ان گائیڈ لائز پر عمل بھی کر رہی ہیں۔ لیکن ٹائمنگ کا فرق ہے۔ کچھ حکومتوں نے بروقت عمل کیا ہے۔ کچھ نے اتنی دیر کر دی کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ اس ضمن میں تمام حکومتوں کے اقدامات کا الگ الگ احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
ایران اور سعودی عرب پاکستان کے لیے مذہبی اعتبار سے دو اہم ممالک ہیں۔ پاکستان سے زائرین کی بڑی تعداد ان ملکوں میں جاتی ہے۔ دونوں ممالک سے پاکستان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ایران اور سعودی عرب جانے والے زائرین کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کے درمیان کورونا سے نبٹنے کے لیے اقدامات کا موازنہ بھی دلچسپ ہے۔
ابھی تک یہی کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں کورونا ایران سے آنے والے زائرین کی وجہ سے آیا ہے۔ کئی زائرین میں کورونا کے ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں۔ ملک میں ایک طرف یہ بحث جاری ہے کہ حکومت نے ایران سے بارڈر بند کرنے کے فیصلے میں تاخیر کیوں کی۔ ادھر غور کیا جائے تو یہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے، کیا یہ ایرانی حکام کی غفلت نہیں نہیں ہے۔
ایران میں کورونا کا پھیلاؤ زیادہ ہے، ایرانی حکام کا فرض تھا کہ وہ اپنی سرحد کے اندر ان زائرین کو قرنطینہ میں رکھتے اور جو زائرین کلیر ہوجاتے، انھیں پاکستانی حکام کے حوالے کرتے اور پھر پاکستانی حکام انھیں قرنطینہ میں رکھتے۔ لیکن یہاں بھی لاپروائی ہوئی اور وہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس ضمن میں اگر سعودی عرب کی صورتحال دیکھیں تو وہ بہتر نظر آتی ہے۔
پاکستان سے ایران کی نسبت سعودی عرب عمرہ کے لیے جانے والے زائرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن سعودی عرب کے اقدامات کو دیکھا جائے تو وہ بہتر نظر آرہے ہیں۔ اس دلیل میں بہت وزن ہے کہ ہم نے کیوں بر وقت ایران سے بارڈر بند نہیں کیا۔ اگر ہم چین کے شہر ووہان میں پھنسے بچوں کو واپس اس لیے نہیں لائے کہ ان کے واپس آنے سے ملک میں کورونا پھیلنے کا خطرہ ہے تو ایران سے زائرین کی واپسی کو کیوں بند نہیں کیا گیا۔ پھر جو زائرین واپس آئے بھی ہیں، ان کو ملک بھر میں پھیلنے کی اجازت کیوں دی گئی۔
اس وقت دنیا میں حکومتوں کے درمیان اس بات کا مو ازنہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کس حکومت نے کورونا سے نبٹنے کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں۔ خود وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ موازنہ پیش کیا ہے۔ لیکن موازنہ صرف اس بات کا نہیں ہو سکتا کہ کس حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ بلکہ موازنہ تو اس بات کا ہونا چاہیے کہ کس حکومت کے اقدامات کے نتائج کتنے مثبت آئے ہیں۔ اقدامات کو نتائج کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں سعودی عرب کے اقدامات کو دیکھا جائے تو وہ بہتر لگتے ہیں۔
ایران میں صورتحال مخدوش ہے۔ وہاں وبا پھیل چکی ہے۔ شاید ایرانی حکام خطرے کا صحیح اندازہ نہیں کر سکے ہیں۔ ایران میں ایک بحران آچکا ہے۔ ایران میں کورونا سے نبٹنے کی کوشش کے حوالے سے بھی اعلیٰ سطح پر اختلاف کی افواہیں چل رہی ہیں۔ ایک گروپ کی تجویز ہے کہ تہران سمیت تمام شہر بند کر دیے جائیں۔ دوسرا گروپ شہر بند کیے بغیر کورونا کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کا حامی ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ ملک بند کر کے معیشت چلا سکے۔ ایران نے زائرین کی آمد بھی بند نہیں کی۔ جس کی وجہ سے وہاں صورتحال نہ صرف خراب ہوئی بلکہ ان کی وجہ سے پاکستان سمیت متعدد ممالک مشکل میں آگئے ہیں۔
ادھر سعودی عرب کو دیکھیں تو ان کے اقدامات بروقت نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں، نہ صرف عمرہ پر پابندی لگائی بلکہ مذہبی مقامات کو بھی تقریباً سیل کر دیا۔ یہ آسان فیصلے نہیں تھے۔ سعودی عرب نے سرحدیں بند کی ہیں۔ لوگوں کو واپس جانے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے عملی طور پر سعودی عرب کو لاک ڈاؤن کر دیا۔
آج سعودی عرب سے کسی ملک کو یہ شکایت نہیں ہے کہ وہاں سے آنے والے زائرین کورونا پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ آپ سوچیں اگر سعودی عرب میں عمرہ کے زائرین میں کورونا کی وبا پھیل جاتی تو دنیا کے کتنے ممالک اس سے متاثر ہوتے اور پاکستان کی صورت حال کتنی خراب ہو جاتی۔ سعودی عرب نے اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان آج کورونا کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بلوچستان کی حکومت صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے پاس ایران سے آنے والے زائرین کو سنبھالنے، ان کے ٹیسٹ اور انھیں میڈیکل سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے وہ بے بس ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی حکومت سے بھی غلطی ہوئی ہے۔ اگر ایران نے زائرین کی آمد بند نہیں کی تھی تو پاکستان کو خود ہی زائرین کے جانے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے تھی۔
شاید ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا، ہم نے تو سعودی عرب جانے پر بھی پابندی نہیں لگائی تھی۔ وہ بھی سعودی عرب نے خود ہی لگائی تھی۔ اس لیے ہم سوچتے رہ گئے۔ بقول وزیراعظم عمران خان ہمیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اب ہمارے گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔