چوہدری برادران ۔ نیب۔ اور سیاسی منظر نامہ
چوہدری برادران نے نیب کے خلاف ایک رٹ دائر کی ہے۔ معاملہ صرف رٹ کے دائر تک نہیں بلکہ اس کے ساتھ ق لیگ نے حکومت کے ساتھ اپنی ناراضگیوں کا پنڈورا بکس دوبارہ میڈیا میں کھول دیا ہے۔ میں نے چوہدری برادران کی جانب سے نیب کے خلاف دائر کی جانے والی رٹ درخواستوں کو پڑھا ہے۔ لیکن فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے۔ تاہم نیب اور چوہدری برادران کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل بیس سال سے جاری ہے۔ اب بھی چوہدری برادران اپنے خلاف بیس سال پرانی انکوائری کو دوبارہ کھولنے اور ایک انکوائری کی تین انکوائریاں بنانے کے خلاف عدالت میں گئے ہیں۔
میں نے پہلے بھی اپنے کالموں میں لکھا ہے کہ چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ معاملات کافی حد تک خراب ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ جب تک انھیں مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل ہے چوہدری برادران کی ناراضگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دوسری طرف ن لیگ چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان ان نارضگیوں کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان سے شدید اختلافات کے باوجود چوہدری برادران ن لیگ کے ٹریپ میں بھی اب تک نہیں آئے ہیں۔ وہ تادم تحریر اپنی تمام تر ناراضگیوں اور اختلافات کے باوجود عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کب چوہدری برادران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔
چوہدری برادران کی سیاست کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی سیاسی راستہ نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ جوش کی بجائے ہوش میں فیصلے کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات نہیں بناتے۔ کہا جاتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی شدید غصہ والے ہیں لیکن چوہدری شجاعت حسین تحمل اور صبر کا پیمانہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جب چوہدری پرویز الٰہی غصہ میں کوئی قدم اٹھانے بھی لگتے ہیں تو چوہدری شجاعت حسین انھیں روک دیتے ہیں۔ ملک کے سیاسی حلقوں میں شجاعت حسین کی سیاسی فہم و فراست کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک رائے ہے کہ بیماری کے باوجود شجاعت حسین کے دماغ کا سیاسی خانہ بہت خوب چلتا ہے۔ اس لیے چوہدری پرویز الٰہی کے غصہ کو شجاعت حسین ہی لگام ڈال کر رکھتے ہیں۔ اور معاملات چلتے رہتے ہیں۔
جس طرح اس رٹ کے دائر ہونے کے بعد ق لیگ کے رہنما جن میں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور کامل علی آغا شامل ہیں میڈیا میں آکر حکومت کے خلاف بولے ہیں۔ ا س سے تو صا ف لگتا ہے کہ چوہدری خاندان کا خیال ہے کہ اگر اب نیب ان کے خلاف کچھ بھی کر رہا ہے تو اس میں عمران خان کی آشیر باد شامل ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ میڈیا میں ق لیگ نے نیب کو کم اور مرکزی حکومت کو زیادہ ٹارگٹ بنایا ہے۔ بات حکومت سے علیحدگی تک جانے کی بھی کی گئی ہے۔ مگر کیا یہ ممکن ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔
چوہدری خاندان کے لیے نیب سے نبٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے 1999میں خود نیب کے چوہدری برادران کے گھر چھاپے دیکھے ہیں۔ گھروں دفاتر کے کونے کونے کی تلاشی لی گئی تھی۔ ان کو ایک نہیں کئی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ لیکن 2000میں شروع کی گئی نیب انکوائریوں میں کچھ نہیں نکل سکا۔ بلکہ جس مشر ف نے چوہدری برادران کے خلاف یہ انکوائریاں شروع کی تھیں۔ اسی نے چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ پنجاب اور چوہدری شجاعت حسین کو وزیر اعظم پاکستان بنایا۔ تا ہم حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ اپنے خلاف نیب انکوائری بند نہیں کروا سکے۔ تفتیشی افسران اور پراسیکیوشن کی جانب سے انکوائری بند کرنے کی سفارش کے باوجود انکوائری بند نہیں ہوئی۔ اور آج بیس سال بعد اس ایک انکوائری کی تین انکوائریاں بنانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔
مشرف کے بعد بھی چوہدری برادران نے بہت سے سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ و ہ اقتدار سے باہر بھی رہے ہیں اور اقتدار میں بھی رہے ہیں۔ زرداری چوہدری پرویز الٰہی کو نہ صرف اپنے ساتھ شریک اقتدار کرنے میں مجبور ہو گئے بلکہ انھوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنا دیا۔ جو ن لیگ ہم خیال بنانے کے بعد ق لیگ ختم کرنے کے درپے تھی آج اسی ق لیگ سے اتحاد کی خواہاں ہے۔ اس لیے چوہدریوں کو برے سے برے حالات بھی بدلنے کا فن آتا ہے۔ بلا شبہ وہ میدان سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ آج بھی عمومی رائے یہی ہے کہ عمران خان انھیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن وہ پنجاب میں اقتدار میں ہیں۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میں تحریک انصاف سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ان کے کام رک نہیں سکتے۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں کوئی اسکرپٹ لکھا جا رہا ہے۔ جس کا ابھی عمران خان کا اندازہ نہیں ہو رہا۔ پہلے جہانگیر ترین عمران خان سے ناراض ہوئے ہیں۔ اس ناراضگی نے عمران خان کو سیاسی طور پر بہت کمزور کیا۔ اسی کمزوری کو دور کرنے کے لیے علیم خان کو دوبارہ وزارت دینے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑ گیا۔ لیکن پھر بھی حالات قابو میں نہیں ہیں۔ اسی لیے پارلیمنٹ کے اجلاس بلانے کی بجائے آرڈیننس سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے بھی حکومت سے علیحدگی کے بعد خاموش رہنے کی بجائے محاذ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مینگل بھی ناراض ہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی ابھی تک دوسری وزارت نہیں ملی ہے۔ وہاں سے بھی کوئی خوشی کی خبر نہیں ہے۔ وہ بھی اشارے کے انتظار میں ہیں۔ اور اب چوہدری برادران نے دوبارہ حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔
اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ چوہدری برادران کے خلاف نیب کے حالیہ اقدامات کے پیچھے حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ حکومت کو کمزور کرنے کی ایک کوشش تو ہے۔ نیب کے خلاف اپوزیشن کے بیانیہ کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن چوہدری برادران بھی اب اگر نیب کے خلاف ہو گئے ہیں تو عمران خان کا نیب کے خلاف بیانیہ کمزور سے کمزور ہو گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ق لیگ اور حکومت کے دیگر اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل کر نیب کے خلاف قانون سازی کر دیں اور تحریک انصاف حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اس قانون سازی کو روک نہیں سکے گی۔
کیا نیب کے خلاف چوہدری برادران ترپ کا وہ پتہ نہیں ہیں جس کی اپوزیشن کو کافی عرصہ سے تلاش تھی۔ اپوزیشن اس رٹ کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھ رہی ہے۔ ا ور انھیں اس میں سے ایک لمبی سیاسی روشنی نظر آرہی ہے۔ ایک دوست کی رائے ہے کہ چوہدری برادران کو عدالت سے ریلیف مل جائے گا اور نیب اور حکومت پر یہ الزام بھی نہیں آئے گا کہ انھوں نے حکومت کے اتحادیوں کو ریلیف دیا ہے۔
اس کی رائے ہے کہ چوہدری خاندان کو ایک مکمل کلین چٹ ملنے جا رہی ہے۔ ویسے تو سیاست میں کچھ بعید نہیں لیکن اگر ایسا بھی ہے تو پھر اس رٹ کو خاموشی سے کیا جاتا۔ جب فیصلہ آتا تو سب کو پتہ چل جاتا۔ اس کے ساتھ حکومت کے خلاف میڈیا میں محاذ کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔ معاملات خاموشی سے بھی چل سکتے تھے۔ اس لیے بات اتنی سادہ بھی نہیں جتنی لگ رہی ہے۔ لیکن اس بات میں وزن ہے کہ اس سے عمران خان طاقتور نہیں کمزور ہو رہے ہیں۔ جس کا انھیں شاید ابھی اندازہ نہیں ہے۔