بجلی کی قیمت اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز میں ہوش ربا اضافہ
اس وقت حکومت آٹے کے بحران سے نبٹنے میں مصروف ہے۔ لیکن شاید حکومت کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس ماہ آنے والے بجلی کے بلوں میں عوام پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر ایک ایٹم بم گرا دیا گیا ہے۔ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز بل کی رقم سے بھی کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے بل میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
اس ضمن میں میں سنی سنائی بات نہیں کر رہا بلکہ بات اپنے گھر کے بل سے شروع کر رہا ہوں۔ اس ماہ گھر میں شور تھا کہ بجلی کا بل معمول سے زیادہ آیا ہے۔ میں نے کہا کیوں آیا ہے۔ گھر کے سب لوگ اکٹھے بیٹھ گئے تا کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس ماہ گھر کا بجلی کا بل کیوں زیادہ آیا ہے۔ ویسے تو جب سے یہ حکومت آئی ہے بجلی کے بل میں ہر ماہ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خاموشی کے ساتھ ہر ماہ بجلی کی قیمت اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر بل بڑھائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ اضافہ نہ صرف غیرمعمولی بلکہ نا قابل برداشت ہو گیا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس ماہ ہم نے بجلی کے سات سو یونٹ استعمال کیے ہیں۔
اور سات سو یونٹ کا بل 32465روپے آیا ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمیں بجلی کا یونٹ 46روپے کا چارج ہوا ہے۔ بجلی کے اس بل میں بجلی قیمت کی صرف 14076روپے ہی ہے۔ یعنی بجلی قیمت کے حساب سے مجھے 20روپے کا یونٹ چارج ہوا ہے۔ یہ قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس پر ظلم ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے ساتھ 13434روپے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر بل میں ڈالے گئے ہیں۔ اگر اس کا جائزہ لیں تو فی یونٹ 19روپے سے زائد فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز چارج کیے گئے ہیں۔ پہلے بیس روپے کا یونٹ چارج کیا گیا ہے اس کے اوپر 19روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز چارج کیے گئے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس پر دیگر ٹیکسز اور چارجز کے ضمن میں 4958روپے ڈالے گئے ہیں۔ اس طرح یہ ٹیکسز بھی سات روپے فی یونٹ بنتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے بجلی کی مجموعی قیمت میں اس حکومت کے آنے کے بعد کتنا اضافہ ہوا ہے۔ میں نے اپنے ہی گھر کے پرانے سالوں کے بل نکالے۔ نومبر 2018میں میں نے 545یونٹ استعمال کیے تھے۔ اور میرا بل 9144 روپے تھا۔ یعنی مجھے بجلی فی یونٹ 16.77روپے چارج ہو رہا تھا۔ جو اب 44روپے فی یونٹ چارج ہو رہا ہے۔ نومبر 2018کے بل کے مطابق 545یونٹ بجلی قیمت 6509 روپے تھی۔
یعنی بجلی قیمت 11.93پیسے فی یونٹ تھی۔ اس کے ساتھ دیگر ٹیکسز کی مد میں 2134روپے چارج کیے گئے ہیں۔ یعنی 3.91روپے فی یونٹ کے حساب سے یہ ٹیکس وصول کیے گئے ہیں۔ جب کہ FPAکی مد میں صرف 499روپے چارج کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم ہے۔ اسی طرح نومبر 2017میں 797یونٹ کا میرا بل 12700روپے تھا۔ اس طرح مجھے 15.93روپے فی یونٹ بجلی چارج ہوئی تھی۔ اس میں تمام ٹیکسز شامل ہیں۔ میں یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نومبر 2018میں تحریک انصا ف کی حکومت آچکی تھی اور ایک مرتبہ بجلی قیمتوں میں اضافہ کر چکی تھی۔ جس کے بعد بھی یونٹ 17روپے تھا۔ لیکن اب فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر یونٹ کی قیمت 44روپے تک لے گئے ہیں۔ میں سو چ رہا ہوں کہ اگر بجلی قیمت یہی رہی تو گرمیوں میں تو بجلی کے استعمال سے اجتناب ہی کرنا ہوگا۔
یہ حکومت اس سے پہلے گیس کی قیمت میں بھی تین سو فیصد تک اضافہ کر چکی ہے۔ اور اب دوبارہ خبریں آرہی ہیں کہ گیس دوبارہ پندرہ فیصد مہنگی کرنے کی تجویز دے دی گئی ہے۔ اس طرح اس حکومت کے بارے میں یہ بات درست ہے کہ ایک ہفتہ بجلی قیمت بڑھائی جاتی ہے دوسرے ہفتہ گیس کی قیمت بڑھائی جاتی ہے اور اس کے بعد پھر بجلی کی قیمت بڑھانے کی باری آجاتی ہے۔ ابھی مجھے بجلی کا بل وصول ہی ہوا تھا کہ اخبار میں خبر تھی کہ بجلی کے بلوں میں 0.93روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز بڑھانے کی تجویز دے دی گئی ہے۔ اب یہ تو اس حکومت کی خاص بات ہے کہ جب تجویز آئے تو اسے فوری قبول کر لیا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اس اضافہ سے نہ تو غریب پر کوئی اثر پڑ رہا ہے اور نہ ہی امیر بجلی کی قیمتوں میں اس ہوش ربا اضافہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ لیکن کیا کسی کو اندازہ ہے کہ مڈل کلاس اس سے کس قدر متاثر ہو رہی ہے۔ ملک کی شہری آبادی کا کیا حال ہو رہا ہے۔ اب تو ویسے بھی گاؤں اور دیہات میں بھی بجلی پہنچ چکی ہے۔ وہاں بھی سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں اے سی استعمال ہوتے ہیں۔ پنکھے تو گاؤں شہر میں تقریبا ہر گھر میں پہنچ چکے ہیں۔ فریج بھی ہر گھر میں پہنچ گئی ہے۔ اس لیے لوگوں کا بجلی پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ گیس کا استعمال بھی روز مرہ زندگی میں بڑھ گیا ہے۔ کیوں حکومت کو احساس نہیں ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر گھر متاثر ہو رہا ہے۔ ہر گھر کے لیے زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
بجلی کے بل دیکھتے ہوئے میں نے سنجیدگی سے اس بات پر غور شروع کیا ہے۔ کہ کس طرح بجلی کا استعمال زندگی میں کم سے کم کیا جائے۔ ٹی وی دیکھنا کم کر دیا جائے۔ فریج کو زندگی سے ختم کر دیا جائے۔ بزرگوں کے لیے ہیٹر کی سہولت ختم کر دی جائے۔ بتیاں بند کر دی جائیں۔ بچوں کو پڑھائی کے لیے اسٹریٹ لائٹ میں بھیج دیا جائے۔ موبائل چارج کرنے بند کر دیے جائیں۔ آجکل پنکھے نہیں چل رہے۔ اے سی نہیں چل رہے۔ لیکن بجلی کے بل کی صورتحال دیکھتے ہوئے مجھے اے سی اور پنکھوں کا استعمال ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں لگ رہا۔ ان سے جان چھڑانا بھی مشکل ہے اور ان کو استعمال کرنا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔
اس حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کا ایک چور دروازہ ڈھونڈ لیاہے۔ اب خاموشی سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ میں نے اپنے گھر کے بل کے بعد متعدد گھروں کے بل دیکھے ہیں۔ سب جگہ فیو ل ایڈجسٹمنٹ کی قیمت بل کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس طرح ہم سب د و بل دینے پر مجبور ہیں۔ ایک بجلی کی قیمت اور پھر اتنی ہی فیول ایڈجسٹمنٹ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو اندازہ ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔
یہ کیا حکومت ہے جس سے کسی بھی چیز کی قیمت کنٹرول نہیں ہو رہی ہے۔ آٹے کا بحران سب کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے ٹماٹر کا بحران سب کے سامنے ہے۔ گھی چاول سمیت ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ صاف بات ہے کہ ان سب کی قیمتوں میں اضافہ میں بجلی کی قیمت کا بنیادی عمل دخل ہے۔ یہ جس دکان میں فروخت ہوتی ہیں وہاں بجلی استعمال ہوتی ہے۔ زرعی ٹیوب ویل بھی بجلی پر چلتے ہیں۔ اسٹوریج میں بھی بجلی استعمال ہوتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایک طرف حکومت بجلی سے چلنے و الی گاڑیاں لانے پر زور دے رہی ہے اور دوسری طرف بجلی قیمت اتنی بڑھائی جا رہی ہے۔
عمران خان کے گھر بھی بجلی کا بل آتا ہوگا۔ مجھے یاد ہے عمران خان نے دھرنوں کے دوارن بجلی کے بل پھاڑ دیے تھے۔ حا لانکہ تب بل آج کی نسبت کئی گنا کم تھے۔ آج کیا وہ اپنے گھر کا بجلی کا بل دیکھتے ہیں۔ باقی وزار کو اندازہ ہے، بجلی کے بل کہاں پہنچ گئے ہیں۔ کابینہ میں یہ معاملہ کیوں زیر بحث نہیں آتا۔ مقتدر حلقے اس ظلم پرکیوں خاموش ہیں؟ کیا ان کے گھر بجلی کا بل نہیں آرہا۔ اس وقت ملک میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ وہ تواس پر شور مچا ہی نہیں سکتی، اپوزیشن کے کسی رہنما میں اتنی جرات ہی نہیں ہے کہ بجلی کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں لے جا کر بات کر سکے۔ باقی کو مقدمات سے فرصت نہیں ہے، ان کی جان شکنجے میں ہے۔ اس لیے عوام پر ظلم کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اور ظلم جاری ہے۔