سورج کے ساتھ ساتھ عابد علی بھی ڈوب گیا
ابھی ایک دو برس پیشتر مجھے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں پاکستان ٹیلی ویژن لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے وہاں قبرستان ایسی خاموشی محسوس ہوئی حالانکہ رونق بہت تھی۔ چہل پہل تھی لیکن میرے کانوں میں ایک سناٹا اترتا تھا۔ لاہور ٹیلی ویژن کی راہداریاں سنسان پڑی تھیں۔ مجھے وہاں شائبے سے ہوتے تھے کہ یہ کون تھا جو میرے قریب سے گزر گیا اور مجھ سے ملنے کے لئے ٹھہرا بھی نہیں۔ سلام دعا تک نہیں کی۔ خیام سرحدی، شفیع محمد، جمیل فخری، ظل سبحان، فاروق ضمیر، محبوب عالم، بدیع الزماں، ایوب خان، ایم شریف کون تھا۔ اگر یہ طاہرہ نقوی تھی تو مسکرائے بغیر کیوں چلی گئی کہ میں اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے منی مدھوبالا کہا کرتا تھا۔ ٹیلی ویژن کی راہداریوں میں پرچھائیاں ظاہر ہوتی تھیں اور تحلیل ہو جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ڈرامہ پروڈیوسرز کے کمرے بھی ویران پڑے تھے۔ جانے یہ سب لوگ کہاں چلے گئے تھے یا ایک ہی روز چھٹی کر گئے تھے۔ کہاں ہے ہمارا گیسو دراز نایاب محمد نثار حسین۔ ہمارا چن جی یاور حیات اور کنور آفتاب، تینوں اپنے اپنے انداز کے موجد اور منفرد تخلیق کار، کہاں گئے؟۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اتنے عرصے کے بعد لاہور ٹیلی ویژن کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہئے تھا کہ میں جس بستی میں شب و روز بسر کرتا تھا وہ تو اجڑ چکی۔ میرے دوست اور شناسا تو کب کے یہاں سے منتقل ہو چکے۔ جانے کہاں کہاں کن شہروں کی مٹی میں مٹی ہو چکے۔
آج سویرے میری بیٹی عینی نے ہسپتال روانہ ہونے سے پیشتر آزردہ ہو کر کہا "ابو وہ عابد علی بھی مر گیا۔ اچھا انسان تھا۔ جب کبھی ہمارے گھر آتا تھا تو کتنی محبت سے ملتا تھا"مجھے اس کی موت پر ایک دھچکا سا لگا لیکن میں سنبھل گیا کہ ان دنوں مجھے ایسے دھچکے لگتے ہی رہتے ہیں اور میں ان کا عادی ہو چلا ہوں۔ لاہور ٹیلی ویژن کی راہداریوں میں ابھی عابد علی کھلے گلے کی قمیض میں دکھائی دے رہا تھا اور ابھی وہ بھی دیگر پرچھائیوں میں شامل ہو کر ایک اور پرچھائیں ہو کر اوجھل ہو گیا۔ عابد علی جب پہلے پہل لاہور ٹیلی ویژن کی راہداریوں میں دکھائی دیا تو ان زمانوں میں میں نے اپنے آپ کو صرف اداکاری کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ فل ٹائم ایکٹر تھا اور ابھی میزبانی اور ڈرامہ نگاری کی جانب ملتفت نہ ہوا تھا۔ انور سجاد، اشفاق احمد، محمد نثار حسین اور یاور حیات مجھ پر مہربان تھے اور میرے حصے میں چند یادگار کردار آ گئے۔ اگرچہ کچھ حضرات کا خیال تھا کہ میں صرف اپنی شکل کی کھٹی کھاتا ہوں اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا لیکن مجھے میرے قدرتی اور نارمل انداز کی وجہ سے ڈراموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔ اس لئے بھی کہ میں نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت کہیں سے حاصل نہ کی۔ نہ ریڈیو کا رُخ کیا اور نہ سٹیج کا۔ میں صرف ٹیلی ویژن کیمروں کا پروردہ تھا۔ بقول شاہ حسین، شاہ حسین جولاہا، جو آہا سو آہا۔ یعنی میں بھی ایک جولاہا تھا لیکن جیسا تھا بس ویسا ہی تھا۔ عابد علی ایک پروجاہت نوجوان تھا۔ ناک نقشے میں مردانگی تھی۔ قدآور تھااور ہمیشہ قمیض کے گلے کے اوپر ولے دو بٹن کھول کر اپنے سینے کے سیاہ بال نمایاں کرتا تھا۔ ہم نے سنا کہ وہ کوئٹہ سے آیا ہے اور بنیادی طور پر ریڈیو صداکار ہے۔ وہ جمیل ملک کے بہت قریب تھا ملک صاحب نہایت بنے ٹھنے رہتے ہیں۔ ریڈیو پر پروڈیوسر تھے۔ ڈرامے لکھتے اور کبھی کبھی اداکاری سے بھی شغف فرماتے۔ نہایت تھیٹریکل شخص تھے۔ علاوہ ازیں عابد علی کی نصرت ٹھاکر اور عظمیٰ گیلانی سے بھی بہت دوستی تھی۔ ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے کے بعد وہ اپنی صلاحیت اور شخصیت کی وجہ سے ٹیلی ویژن کے نمایاں اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔ وہ ہمارے بیشتر اداکاروں کی مانند پھنے خاں نہیں تھا کہ ہر وقت ڈینگیں مارتا رہتا کہ میں نے فلاں ڈرامے میں نصیرالدین شاہ کو مات کر دیا۔ تاریخ رقم کر دی وغیرہ۔ اس میں انکسار بہت تھا۔ وہ خود نہیں لوگ اس کی اداکاری کی بے پناہ توصیف کرتے تھے۔
ہم دونوں نے اکٹھے بہت سے ڈراموں میں اداکاری کی جن میں "ایک حقیقت سو افسانے" سرفہرست ہے لیکن ہم دونوں قریب ان زمانوں میں آئے جب اس نے میرے لکھے ہوئے سیریل"ہزاروں راستے" میں ایک کروڑ پتی کا مرکزی کردار ادا کیا۔ اسے راشد ڈار نے پروڈیوس کیا تھا۔ میں اپنے ڈراموں اور سیریلز کی ایک دو ابتدائی ریہرسلیں خود لیتا تھا تاکہ اداکاروں کو سمجھا سکوں کہ مجھے کیسا کردار درکار ہے۔ "ہزاروں راستے " کا آغاز ان زمانوں کے مطابق نہایت شاہانہ تھا یعنی عابد علی اپنے ذاتی جہاز میں سفر کر رہا ہے۔ جہاز لینڈ کرتا ہے تو اس کا سیکرٹری اورنگزیب لغاری ایک سیاہ لیموزین کے ساتھ اس کے استقبال کے لئے موجود ہے اور اس کا بیٹا فردوس جمال غائب ہے۔ ریہرسل کے آغاز میں عابد علی کہنے لگا"تارڑ صاحب۔ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں کہ میں یہ کردار کس طورکروں" تو میں نے کہا عابد تم اس سیریل میں ایک کروڑ پتی اور لالچی شخص ہو جس کا موٹو ہے"پیسے کی کوئی سرحد نہیں۔ دولت کا کوئی پرچم نہیں" تو فی الحال تم اپنی قمیض کے اوپر والے بٹن بند کرنا شروع کر دو یعنی معزز ہوجائو۔ علاوہ ازیں اپنی تھیٹریکل آوازکو قابو میں رکھتے ہوئے قدرتی انداز اختیار کرو، عابد علی نے وہ کردار اتنے موثر انداز میں ادا کیا کہ اس برس اسے "ہزاروں راستے" پر پہلی بار ٹیلی ویژن کے بہترین اداکار کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس سیریل کے لئے بہترین ڈرامہ نگار کے طور پر میری نامزدگی بھی ہوئی۔ اسی طور جب میں نے "سورج کے ساتھ ساتھ" تحریر کیا تو اس میں بھی عابد علی کو ایک اہم کردار کے لئے منتخب کیا اور اس نے حق ادا کر دیا۔ اگرچہ سورج کے ساتھ ساتھ پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی وجہ سے مجھے کچھ مسائل درپیش ہوئے لیکن ہم سب سنبھل گئے اور یہ سیریل اب بھی لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سورج کے ساتھ ساتھ میں موچی کا کردار ادا کرنے پر خیام سرحدی کو پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا اور وہ ایسا جذباتی شخص تھا کہ فون پر رونے لگا کہ یہ ایوارڈ آپ کو پہلے ملنا چاہئے تھا۔ آپ میرے استاد ہیں۔ میں انکار کردوں گا۔ بہرحال بڑی مشکل سے اسے سمجھایا۔ ایک دو برس بعد جب مجھے یہ صدارتی ایوارڈ ملا تو پہلا فون خیام سرحدی کی جانب سے آیا اور وہ پھرجذباتی ہو رہا تھا۔ اس کی موت کا سبب بھی شائد اس کی شدید جذباتی خصلت تھی۔ انہیں دنوں جب عابد علی عروج پر تھا، لاہور ٹیلی ویژن کی راہداریوں میں ایک نہایت چلبلی، خوش شکل اور سوہنی آنکھوں والی لڑکی حمیرہ چودھری دکھائی دینے لگی۔ وہ نہ صرف گلو کارہ تھی بلکہ اداکاری بھی کمال کی کرتی تھی۔ اشفاق احمد کے ڈرامے "غریب شہر" میں وہ میرے ساتھ کاسٹ ہوئی۔ اس میں شرارت بہت تھی۔ عابد علی اس کی عشوہ طرازیوں کی تاب نہ لا سکا اور اس کے ساتھ شادی کر لی اور اسے ایک گھریلو خاتون میں ڈھال دیا۔
میرے پاس لاہورمیں ماضی کے کچھ نقش تصویروں کی صورت میں کہیں نہ کہیں موجود ہوں گے اور ان میں عابد علی ہو گا لیکن میں اس کی تصویریں تلاش نہیںکروں گا کیونکہ وہ ان میں زندہ ہے۔ میں اگر اس کی کسی تصویر کو دریافت کرکے دیکھوں گا تو وہ مرجائے گا۔
عجیب بات ہے اسے لحد میں اتار کر اس کے کفن کے بندکھولے گئے ہوں گے جیسے وہ اپنی قمیض کے اوپر والے بٹن کھولے رکھتا تھا۔ عابد علی بھی سورج کے ساتھ ساتھ چلتا بالآخر اس کے ساتھ ہی ڈوب گیا۔