راستو ں کا چنائو
چنائو اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب بہت ساری چیزوں میں سے کسی ایک کو چننا ہو۔ اسے انتخاب بھی کہتے ہیں۔ چنائو صرف عام انتخابات میں ہی نہیں ہوتا جس میں آپ اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ کے ذریعہ منتخب کرتے ہیں۔ انتخاب کا مرحلہ زندگی کے ہر موڑ پر آتا ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں آدمی کو انگنت مقامات اور مرحلوں پر انتخاب یا چنائو کرنا ہوتاہے زندگی کے صرف چند ہی پہلوایسے ہوتے ہیں جن میں چنائو کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
باقی ساری زندگی کو بڑی آسانی کے ساتھ ایک انتخابی عمل کا نام دیا جاسکتاہے جن باتوں یا چیزوں میں چنائو کا کوئی عمل دخل نہیں ان میں پیدائش اُس کا وقت اور مقام ماں باپ، شکل وصورت، رنگ ونسل، بہن بھائی، عزیز واقارب اور قوم اور ملک اور زبان وغیرہ کے علاوہ حادثات اور موت شامل ہیں۔ نہ تو آدمی اپنا کوئی حادثہ چنتا ہے اور نہ ہی اپنی موت کا وقت اور مقام۔ جو لوگ خود کشی کرتے ہیں وہ یہ امر مجبوری کرتے ہیں خوشی سے نہیں۔
راستے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ زمینی، بحری اور فضائی راستے۔ شروع میں بنی آدم نے صرف زمینی راستوں پر چلنا شروع کیا لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ پیدل، گدھے، گھوڑے، خچر، او نٹ یا بیل گاڑی سے سفر کرنے کے بعد آدمی نے جدید سواریوں کے ذریعے آمدورفت شروع کی۔ ترقی کے مزید منازل طے ہونے پر آدمی نے بحری راستوں پر چلنا بھی شروع کیا اور پہلے جنگ وجدل اورقزاقی کے مدراج طے کرنے کے بعد وسیع پمانے پر تجارتی نقل وحمل کے لئے اسقدر عظیم بحری جہاز استعمال ہونے لگے کہ جن پر شہروں کا گمان ہوتاہے اب تو بحری بیڑوں کی وسعت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ان پر جدید ترین ہوائی جہاز اترتے چڑھتے ہیں۔
یہ بحری بیڑے مہینوں تک سمندروں میں رہتے ہیں آدمی نے مزید ترقی کی تو فضائی راستوں سے بھی آشنائی حاصل کرلی اور اب ناصرف لاتعداد مسافر حضرات وخواتین بلکہ منوں ٹنوں کے حساب سے سامان تجارت، اسلحہ اور گولہ بارود ہوائی جہازوں کے ذریعے فضائی راستوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتاہے۔ ذرا ساغور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مادی راستوں سے زیادہ آدمی کو غیر مادی راستوں، جن میں سیاسی، قبائلی، نسلی، مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سب سے زیادہ غیر اخلاقی راستوں کی بھر مار سے واسطہ پڑتا ہے۔ جگہ جگہ اور لمحہ لمحہ آدمی کو رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ایسے موقعوں پر ہر آدمی اپنی سمجھ، استعداد اور صلاحیت کے مطابق فیصلے کرتاہے اور اپنی مرضی کے انتخا ب سے اچھے یا برے نتائج کا سامنا کرتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی زندگی میں جو بھی چنے اور جس بھی بات چیز یا شخص کا انتخاب کرے اُسے اس کے نتائج بھگتنا ایک لازمی امر ہے بلکہ یہ قدرت کا اصول ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ چنائو یا انتخاب ہی آدمی کا امتحان ہوتا ہے۔ اس امتحان سے آدمی کو زندگی بھر گذرنا پڑتا ہے ایسے امتحانوں میں کامیابی یا ناکامی ہی آدمی کے رتبے، عزت یارسوائی کا تعین کرتاہے۔ مختلف مواقع اور مراحل پر طرح طرح کے امتحان ہی آدمی کی اچھی یا بری پہچان کراتے ہیں۔ ایسا ہر میدان میں ہوتاہے۔
آدمی کسی میدان میں کامیاب اور کسی میں ناکام ہو تاہے۔ کسی میدان میں آگے بڑھ جاتا ہے اور کسی میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہر میدان میں کامیابی یاناکامی کے اپنے اپنے راستے ہوتے ہیں اور ان راستوں کا تعین ان میدانوں کے ماہرین کرتا دھرتا لوگ ہوتے ہیں جن کے پیچھے پیچھے چلنا کامیابی کی ضمانت اور جن کی مخالفت ناکامیوں پرمنتج ہوتی ہے۔
اسی طرح ہر میدان کے کچھ بنیادی افکار، نظریا ت یا اصول ہو تے ہیں جن پر یقین اور پھرعمل اُس میدان میں کامیابی کی ضمانت اور ان کی مخالفت ناکامیوں کا نشان عبرت بنتی ہے۔ ہر میدان کے کرتا دھرتا بہت تھوڑے اور ان کے ماننے والے یا انکاری بھی تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ رہنماکم اور پیروکار بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ رہنمائوں کو عظمت کی مثال اور ان کے مخالفین کو قابل گردن زدنی سمجھا جاتاہے۔ ان انسانی رویوں کا مشاہدہ کسی ایک قوم، ملک یا معاشرہ تک محدود نہیں ہے۔ یہ ساری انسانیت کا اجتماعی ورثہ ہے۔ ہر چنائو کسی راستے کی نشاندہی کرتاہے جو بھی کسی دوسرے کو اپنی طرف مائل کرتا ہے چاہے وہ تقریر، تحریر، تصویر یا ووٹ کے ذریعے ہو۔
وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس راستے کو دیگر سب راستوں کی نسبت صحیح اور کامیابی کا حامل راستہ سمجھتا ہے اب کیسے پتہ چلے گا کہ بہت سارے راستوں میں سے کسی ایک راستے کی نشاندہی او ر پھر اس جانب مائل کرنے والا صحیح راستے کی طرف راغب کررہاہے یا غلط راستے کی طرف۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے تو بہت غوروخوض کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے کہ مجھے اگر کوئی شخص اپنی رہ اختیار کرنے کی دعوت دے گاتو میرا فرض بنتا ہے کہ پہلے میں اُس کی دعوت، درخواست یا تشہیر کو سمجھوں کہ اس میں مجھ سے پہلے اُس کا کیا فائدہ ہے؟ کیوں؟ اسلئے کہ کوئی بھی شخص اپنے فائدے کے بغیر میرا فائدہ کیوں سوچے گا؟
کیونکہ فائدوں کے لئے راستوں کے انتخاب کو سمجھ کر بات کی جائے توبہتر ہوگا۔ مثلاً بیمار ہونے کی صورت میں ہم کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ بیمار ی کی تشخص اور علاج کے لئے فیس لیتا ہے یعنی ہمارے علاج میں اس کا فائدہ ہو تاہے اسی طرح اپنے کسی مقدمے کے لئے جب ہم کسی وکیل کے پاس جاتے ہیں تو وہ فیس لیتا ہے یعنی ہمارا مقدمہ لڑنے میں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جو بھی شخص زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنی مہارت، ہنرمندی، علم اور شہرت کو انتخاب کے لئے پیش کرتاہے وہ اپنے فائدے کے لئے کرتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت ضرورت اس میں ہمارا بھی فائدہ ہوتاہے۔
ڈاکٹر صحت یاب ہونے کے لئے دوا اور پرہیز کا راستہ بتاتا ہے، وکیل مقدمہ جتنے کیلئے مختلف زاویوں سے کیس کو مضبوط کرنے کا راستہ بتاتاہے۔ سیاستدان اپنی تشیہر کے ذریعے جھوٹے سچے وعدوں کا راستہ دکھاتا ہے۔ ان طرح طرح کے راستوں پر چلنے کے لئے کہیں کہیں سمجھ کا فقدان اور نیت کا فتور شامل ہوتاہے جس کی وجہ سے آدمی جگہ جگہ گرتا پھسلتا اور سنبھلتا رہتاہے۔ یہاں پر آکر یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ راستے کے چنائو کے لئے فائدے نقصان کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کسی بھی کام یا مقصد کے لئے اس راستے کا چنائو کیا جائے جس میں فائدہ تو صاف صاف نظر آتا ہو لیکن نقصان کا احتمال نہ ہو۔ اس کے لئے دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سا راستہ دیکھنے والے عظیم لوگ ہوتے ہیں جو بہترین راستہ دکھانے کے باوجود کسی قسم کی اجرت نہیں لیتے۔ ایسا راستہ کون سا راستہ ہوسکتاہے؟
ایسا راستہ دکھانے والا کس کے فائدے اور نقصان کے تحت راستہ دکھاتا ہے؟ انہی دو بنیادی باتوں کو اگرکسوٹی بنایا جائے تو اُس راستے کی تشخیص ہو سکتی جس پر چل کر آدمی ہر نقصان سے بچ سکتاہے اور ہر طرح کا فائدہ حاصل کرسکتاہے۔ زندگی کے بہت سارے ٹیڑھے راستوں میں وہی ایک سیدھا راستہ ہوسکتا ہے جو آدمی کو ہر طرح کے خوف اورغم سے آزاد کرسکتاہے۔ کیوں نا ہر بات میں سیدھے راستے پر چلا جائے؟