قابل ستائش مقابلہ
سارے مقابلے قابل ستائش نہیں ہوتے۔ دنیا کے حالات پر اگر نظر ڈالی جائے تو آدمی محسوس کرتاہے کہ آج کل زیادہ تر مقابلے بُری باتوں پر ہی ہورہے ہیں۔ اس لئے کہ اچھائیوں کی نسبت برائیاں بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا "پاکستان کیوں بنا تھا؟ " جوابدیا: "پاکستان اس لئے بناتھا کہ تقسیم ہند سے پہلے دوڑ کے مقابلے میں جیتتا مسلمان تھا لیکن پہلا انعام ہندو کو ملتا تھا" پاکستان بنانے کی ایک عام فہم وجہ ان صاحب نے اپنے انداز میں بتائی جس سے ثابت ہوتاہے کہ ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کو اس کے جائز حقوق دینے کے لئے بھی تیار نہ تھی۔
ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی تقسیم سے پہلے کی روایات پر اُسی طرح عمل ہوتا رہا جس طرح پہلے ہوتاتھا۔ مقابلے اچھائیوں میں ہونے کی بجائے برائیوں میں ہی ہونے لگے۔ اس کا نیتجہ یہ ہواکہ ایک صاف ستھرا معاشرہ ایک مضحکہ خیز معاشرے میں بد ل کر رہ گیا۔ اب کسی بھی سطح پر نہ اچھے لوگ برداشت ہوتے ہیں اورنہ ہی اچھی باتیں ہضم ہوتی ہیں۔ جوسول انتظامیہ اپنی فرض شناسی اور دیا نتداری کے لئے تقسیم ہند سے پہلے مشہور تھی وہ زوال پذیر ہوتے ہوتے پہلے تو اپنے مفادات کے تحت سیاسی وفاداریوں پر مجبور ہوئی اور بعدازاں اس حد تک گرگئی کہ نامی گرامی اعلیٰ افسروں کے بارے میں سب جان گئے کہ کون کس پارٹی کا منظور نظرہے، کس کا وفادار ہے۔
نوکر شاہی نے پستی کی آخری حدوں کو اُس وقت چُھو لیا جب وہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، فارن سروسس گروپ، پولیس گروپ اور دیگر سروس گروپس کے ساتھ ساتھ اتفاق سروس گروپ اورزرداری سروس گروپ میں بھی بٹ گئی۔ یہ درجہ بندی صرف سول انتظامیہ تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے اپنے نرغے میں صحافت، عدالت اور وکالت کو بھی لے لیا جن سے وابستہ لوگ اپنے عروج کے دور میں غریب ونا دار ہونے کے باوجود حق بات کہنے کے باعث لوگوں کی نظر میں قابل احترام اور عزت دارسمجھے جاتے تھے۔
یہ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے قو می ترجیحات اور یک جہتی کو ماضی کی غلطیاں دہرانے پر مقدم رکھا اور فوج کو سول انتظامیہ اور دیگر اداروں کی صف میں کھڑا ہونے سے بچالیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ دہشت گردی کے عفریت پر مکمل قابو پانے کے بعد اور اپنا عزم وہمت اور جذبہ قربانی صرف پاکستان کے لئے قائم رکھنے کے باعث، پھرسے اپنا کھویا ہو مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
اس پس منظر میں اب بات کرتے ہیں اُس قابل ستائش مقابلے کی جو وزیراعظم عمران خان کے احکامات کے تحت اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے وزارتوں کووفاقی سطح پرپیش کرنے کے لئے کروایا گیا۔ مقابلے کے صاف شفاف انعقاد کے لئے ایک نقطہ وار طریقہ وضع کیا گیا تھا تاکہ مقابلہ میں پیچھے رہ جانے والوں کوشکایت کا کوئی موقع نہ ملے۔ وفاقی وزارتوں کے درمیان اس صحت مندانہ مقابلے پر جو طوفانِ اٹھا اس سے اور کچھ ثابت ہوایا نہیں البتہ یہ بات ضرور ثابت ہو گئی کہ لوگ بظاہر کتنے ہی عقلمند، جہان دیدہ، معزز، چالاک اور ہوشیارر بن جائیں اپنی اصلیت اور ظرف کبھی بھی نہیں چھپا سکتے۔ تبھی تو چوتھے خلفیہ نے فرمایاتھا " عزت، شہرت اور دولت آدمی کو تبدیل نہیں کرتی، اُسے بے نقاب کردیتی ہے"۔
اس موقعے پر ہمیں وہ پرانی کہاوت یادآگئی جس کے مطابق " چھاننی لوٹے پر طنز کرتی ہے کہ اُس میں ایک سوراخ ہیــ" جنکا اندھاپن اب پوری دنیا پر آشکار ہوچکا ہے وہ بھی وزیراعظم کو لتاڑنے سے نہیں چوک رہے جن کے پاس دوآنکھوں والی بصارت توضرور ہے لیکن وہ بصیر ت سے قطعی محروم ہیں وہ بھی اپنی جملہ بازیوں سے اپنے مکمل اندھے پن کااعلان باقاعدہ اعتماد کے ساتھ کرتے نظر آئے۔
ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ اجتماعی سطح پر بھرموں کے ٹوٹنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ دعووں کی ریت پیروں کے نیچے سے نکلنے کا وقت سرپر آن پہنچا ہے، چھپاہوا سچ سامنے آنے لگا ہے۔ منافقت واضح ہوگئی ہے۔ جعلی شان اورجھوٹی آن قائم نہیں رہ سک رہی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان پر فوج سے پہلے نوکر شاہی نے قبضہ کیا تھا۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ کے بہت بعد تک بھی حقیقی اقتدار نوکر شاہی کے پا س تھا۔
اپنے قریب ترین ساتھی لفیٹنٹ جنرل بختیار رانا کو فیلڈ مارشل ایوب خان نوکرشاہی میں جو سب سے بڑا عہدہ دے سکا تھا وہ مغربی پاکستان کے انڈسٹریل ڈیویلمنیٹ بورڈ کے چیئر مین کا منصب تھا۔ جو مغربی پاکستان کے سیکرٹری انڈسٹریزکے ماتحت بہت سارے عہدوں میں سے ایک عہدہ تھا۔ سابق سیکرٹری داخلہ روئیداد خان کے مطابق فیلڈمارشل ایوب خان اپنے ایک قریبی عزیز کو بھی اُن کے ذریعے جب وہ کراچی کے کمیشنرتھے، سینما گھر کے لئے حکومتی زمین الاٹ کرانے میں ناکام رہا تھا۔
اس وقت کی سول انتظامیہ اپنی قابلیت، دیانت اور ایمانداری کی وجہ سے فوج سمیت ملک کے ہر ادارے اور شعبے پر اپنی دھاک بٹھائے ہوئے تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب چینی وزیراعظم چواین لائی جیسا عظیم اور عالمی طور پر مانا ہوا عظیم رہنما پاکستان کے غلام اسحاق خان جیسے اعلیٰ سرکاری افسرکی قابلیت کامعترف تھا۔ پاکستان کی سول انتظامیہ ہی کے باعث گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی تک پاکستان ایشیا کے ان چار جناتی طور پر ترقی کرنے والے ممالک شامل تھا جن میں پاکستان کے علاوہ چین، جاپان اور ہندوستان گنے جاتے تھے۔
اس وقت اپنی کارکردگیوں کی بنیاد پر ہی اعلیٰ افسران جانے پہچانے جاتے تھے، کاسہ لیسوں کی وجہ سے نہیں۔ کارکردگیوں پر انحصار کے مقابلے کا اجراء پاکستان کو پھر وہی ایک قابل رشک ترقی یافتہ ملک بنا سکتاہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سرکاری نااہلوں کی موجیں خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہیں یہ شور وغوغا ویسے تو نہیں ہے۔ ساغر صدیقی کا ایک شعر اس موجودہ صورت حال کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغبان ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
بغض، عناد، حسد، نفرتیں اور تکبر آدمی کو اندھا کردیتے ہیں۔ یہ خصلتیں علم اورکردار دونوں پر بھاری ہیں۔ پاکستان کی سول انتظامیہ اگر سیاسی غلامی سے آزاد ہوجائے تو پاکستان بھی ایک آزاد اور خود مختارریاست بن سکتاہے۔ ہر ادارے کے افسران بالا کو اپنے مقصد کا غلام ہونا چاہئے ناکہ انفرادی طور پر اپنے اپنے مفادات کا۔ کارکردگی دکھانے کے صاف شفاف مقابلے وزارتوں میں جاری رہنے چاہیئں۔ اس میں پوری قوم کا فائد ہہے۔ خداہماراحامی وناصر ہو۔ آمین۔