موبائل فون، فائدے اورنقصانات
سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دُور کرلینی چاہیے کہ ہم جدید ترین آلہ گفت وشنید کو موبائل کیو ں کہتے ہیں۔ یہ تو ایک آلہ ہے جسے جہاں رکھدیا وہا ںپڑا رہتاہے تاوقتیکہ سے وہا ں سے اٹھانا لیا جائے۔ جیب میں ڈالیں، گھرمیں رکھیں، بازار میں لے جائیں یا مسجد میں، کسی دھوم دھڑکے میں استعمال کریں یا نالہ وشیون پر، اس کی گھنٹی کہیں بھی بج سکتی ہے۔ شادی بیاہ میں، جنازے کوکندھادیتے ہوئے، اداکاری کاکوئی جوہر دکھاتے ہوئے، سر کس میں بیٹھے ہوئے یا کوئی فلم دیکھتے ہوئے، علم حاصل کرتے ہوئے یا ڈاکہ ڈالتے ہوئے۔ اس کی گھنٹی توامام صاحب کے حکم کے باوجودمسجد میں صفیں باندھتے ہوئے بھی بجنے لگ جاتی ہے۔ حیر ت اس بات پرہے کہ اُسے موبائل یعنی گشتی فون کیوں کہاجاتاہے؟ اس موبائل فون کا مالک اُسے اٹھا اٹھا کر گھومتاپھرتارہتاہے اسکے مالک کوکیوں موبائل مالک نہیں کہاجاتا؟ یہ توایک بے جان آلہ ہے نااپنی مرضی سے ہلتا ہے اور نا ہی اپنی مرضی سے اپنا مالک بدلتا ہے۔ یہ بیچارہ مفت میں آوارگی کے الزام میں بدنام ہوگیا ہے جبکہ اس کی اپنی کوئی مرضی ہی نہیں۔ اس کے باوجود یہ اکیسیویں صدی کے انسان کی گردشوں کے لئے ایک ایسی ضرورت بن گیا ہے جس سے چھٹکار ممکن نہیں۔ یہ آلہ خود سے نہیں گھومتا۔ اسے لوگ لئے لئے گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔
نشہ صرف نشہ آورا شیاء کے استعمال تک ہی محدود نہیں رہتا۔ کتاب کا نشہ کارل مارکس کو برٹش میوزم کی لائبریری میں سب سے پہلے داخل ہونے والا اور سب سے آخر میں نکلنے والا بنادیتا ہے لیکن اُسے اپنی ذات کی فکر تک محدود رہنے کی بجائے پوری مخلوق خدا کے لئے اسقدر کامیاب فکر مند انسان بنادیتاہے کہ اس کے نظریات پہلے روس اور پھر چین اور بعد اذاں پوری دنیا کے مختلف علاقوں مین تہلکہ مچائے رکھتے ہیں۔ مطلب؟ مطلب یہ کہ نشے مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔ کسی جواری کا نشہ ہر قوم، ہر ملک، ہرزبان اور ہر مذہب میں حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جواری اس نشے میں غرق ہونے کے بعد بیوی بچوں تک کو جوئے کی بھینٹ چڑھادیتاہے لیکن باز نہیں آتا۔ کتاب کے نشے کی طرح موسیقی کا نشہ بھی کبھی مثبت اور کبھی منفی ہوتا ہے پاکستان کے مایہ ناز موسیقار خورشید انور مرحوم جنہیں نوشاد نے موسیقار اعظم کا خطاب دیا تھا ان کی تعلیمی اورعلمی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان بھر میں انڈین سول سروس کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور اس امتحانی مقابلے میں ڈاکٹر رادھا کرشن جیسے دانشور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا، لیکن موسیقی کے ساتھ شوق اور لگن کے باعث ہرچیز کو لات مارکر اس طرف راغب ہوکر امر ہوگئے۔ موسیقی کے نشے کو سمجھنے کے لئے اس مقام پر نصرت فتح علی کا ذکرنہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ اسے نشے کے منفی پہلو کو دیکھنے کے لئے لکھنو اور اودھ کے نوابوں او ر ریئسوں زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے جو ناچ گانے کی تماش بینی میں اپنا سب کچھ لٹا دینے کے باوجود بعض اوقات آئندہ نواب اور رئیس بننے والی اپنی اولاد نرینہ کو نامی گرامی طوائفوں کے کوٹھے پر اس لئے بھیجتے تھے تاکہ تہذیب وشائئستگی کے آداب سیکھ سکیں۔
جب آدمی شیطانیت کے نشے سے نکل کر اللہ سے لو لگانے کے نشے سے آشنا ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی ہی بدل جاتی ہے۔ وہ جھوٹ کی تاریکیوں سے نکل کر سچ کی روشنی اورسیدھے راستے پر آجاتاہے۔ لوٹنے کی بجائے لٹانے کی عظمت سے واقف ہوجا تا ہے۔ اسباب جمع کرنے کی بجائے ان کی تقسیم کی وسعتوں سے واقف ہوجاتاہے۔ غرور اورتکبر کا شکار رہنے کی بجائے عاجزیوانکساری سے آشنائی حاصل کرلیتاہے۔ یعنی آدمی سے انسان بن جاتاہے۔
ایک اور نشہ ہے جس نے تاریخ انسانی میں اودھم مچائے رکھا ہے وہ اقتدار کا نشہ ہے لوگوں طاقت کے استعمال کا نشہ طاقت کا یہ نشہ اپنی وسعت کے اعتبار سے شوہر اور باپ سے لے کر افسری، جاگیرداری جمہوری اور غیر جمہوری بادشاہت حکومتی ایوانوں تک پھیلا ہواہے۔ رب العزت کا اعلان کہ "انسان خسارے میں ہے" اسی انسانی شرست کو ظاہر کرتاہے آدمی اپنی ہر کرتوت کا الزام دوسروں پرلگانے کے خبط میں مبتلا رہتاہے اور کوئی نہیں ملتا توشیطان پر الزام دھر دیتا ہے۔ ایک شخص نے امام جعفر صادق ؑ سے سوال کیا کہ شیطان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے کیونکہ وہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے آدمی کو فلاح سے روکتاہے جس پر امام نے فرمایا سمتیں چھ ہیں۔ شیطان دوسمتوں سے حملہ آور نہیں ہوسکتا اور وہ ہیں اوپر اور نیچے کی سمیتیں "نیچے کی سمت سجدہ کروہ اور اُوپر کی طرف دعا کے واسطے ہاتھ اٹھائو تو شیطان کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتا "۔ جدید دنیا کا آدمی موبائل کے نشے میں ڈوب چکا ہے۔ یہ وہ نشہ ہے جس کا علاج بھی نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ معالج خود اس کا شکار ہے۔ والدین بچوں کے ہوتے ہوئے بے اولاد ہوچکے ہیں۔ کیوں؟
اس لئے کہ سارے ایک دوسرے سے کٹ کر موبائل فون کے ہوگئے ہیں۔ موبائل ان کا ہے اوروہ موبائل کے ہیں۔ کوئی غور ہی نہیں کررہا کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ بس ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہراٹھہرا کر ایک دوسرے سے اور زیادہ دُور ہوتے جارہے ہیں۔ اب تو شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے پر نظر رکھنے کی بجائے ایک دوسرے کے موبائل پر نظر رکھتے ہیں۔ اعتماد کایہ فقدان طلاقوں کو عام کررہاہے اور مضبوط خاندانی ڈھانچے ریزہ ریزہ ہوتے جارہے ہیں۔ موبائل فون کی آمد نے ایک ایسے طاقتور سوشل میڈیا کوجنم دیاہے جس نے معاشرت کے تمام پہلوئوں کو جن میں سیاست سے لے کر اخلاقیات، عدل ونصاف سے لئے کر صحافت، سارے رشتے ناتوں اور تعلقات اور ہرقسم کی محبتوں اور نفرتوں کو اس طر ح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ روشنی تاریکیوں کے نرغے میں گھر کر رہ گئی ہے۔ آنکھیں چوندھیا چکی ہیں جس کے باعث آدمی بصارت رکھتے ہوئے بصیرت سے محروم ہوچکا ہے۔
ایساکیوں ہوا؟ ایسا ا سلئے ہوا کہ موبائل فون نے مرد عورت جوان، بوڑھے حتی ٰ کہ بچوں تک وہ سارے مواقعے فراہم کردئیے ہیں جن پر معاشی، معاشرتی، نفساتی، مذہبی اور اخلاقی پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ موبائل فون نے یہ ابرآلود مطلع صاف کردیا ہے۔ لوگ آزاد ہوگئے ہیں اور اس آزادی سے بھرپور فائدے اٹھارہے ہیں موبائل کے فائدے اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں اس نے حقائق اور علوم پر پڑھے دبیز پردوں کو ہٹا دیاہے۔ ساری اجارہ داریوں تہس نہس کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شیطان کو اتنا قریب کردیا ہے کہ ہرکوئی اسے گلے لگا رہاہے۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ رحمان کے سائے تلے آتے ہیں یا ابلیس کو گلے لگاتے ہیں۔ ہمارے پاس بچائو کے دوہی راستے ہیں رہ گئے ہیں۔ سجدو ں کے ذریعے تو بہ واستغفار کا نیچے کا راستہ اور دعا کے لئے ہاتھوں کو اُٹھا کر اوپر کا راستہ۔ یقین جانئے یہ کوئی معمولی راستے نہیں ہیں موبائل فو ن کے نقصان کا مقابلہ انہیں دو راستوں پر چل کر کیا جاسکتاہے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین۔