کمائی کے جدید ذرائع
انسان نے کب سے کمانا شروع کیا؟ اس سوال کا تسلّی بخش جواب دینا بہت مشکل ہے۔ اندازہ یہی لگایا جاسکتاہے کہ انسان کی پیشہ وارانہ زندگی اسی وقت سے شروع ہوگئی تھی جب سے انسان نے معاشرتی زندگی کاغاز کیا تھا۔ ابتدائی معاشی جدوجہد لاشعوری طور پر بقائے باہمی کے لئے اجتماعی جدوجہد ہوتی تھی۔ جیسے شکار کرنے کے لئے پتھر کے اوزار بنانا، خود کو گرم رکھنے اور گوشت بھوننے کے لئے پتھر کو رگڑ کر آگ جلانا وغیرہ۔
آدمی پتھر کے زمانے سے نکلا تو بقائے باہمی والی مشترکہ اجتماعی تگ ودو، زور آور کی سرداری اور حاکمیت پر منتج ہوئی اور غلام اور آقا پر مبنی طبقاتی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ زمین کا مالک جاگیر دار اور اس پر کھیتی باڑی کرنے والا کسان جاگیردار کیلئے کمائی کاذریعہ بن گیا۔ جاگیردامعاشرہ نے نئے نئے پیداواری آلات بنائے اور ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ بنایا جس نے غلامی کو ختم کرنے کی بجائے اسے صدیوں تک اپنے اندر ایک اضافی پیداواری عنصر بنائے رکھا جس کا دورانیہ صنعتی انقلاب تک جاری رہا۔
صنعتی انقلاب کے بعد انسانی معاشرے نے استحصالی بنیادوں کو ایک نئی شکل عطا کی اور کارخانے دار اور مزدور کے ایک نئے طبقے کو متعارف کرایا۔ اس نئے طبقاتی نظام میں کارخانہ دار نے جاگیر دار کی جگہ لے لی اور کسان کی جگہ مزدور نے۔ استحصال کی یہ ساری صورتیں ذراسی کمی بیشی کے ساتھ آج بھی موجود ہیں۔ جس طرح کسان کمائی کا ذریعہ بنے تھے اب ان کی جگہ مزدورکمائی کا ذریعہ بن گئے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جاگیردار ی نظام کے بعد سرمایہ دارانہ نظام میں صرف مزدور ہی کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جس سرمایہ دارانہ نظام میں ہم زندگی گذار رہے ہیں اس میں کسی بھی پیشے کی شکل سرمائے کے حصول کیلئے ہوتی ہے، چاہے وہ طب کا پیشہ ہو، تعلیم ہو، کھیل ہو، ابلاغ عامہ ہو، حصول انصاف کا ہو یا جدیدترین ڈیجیٹل مہارت کا ہو، وہ زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ افرادی قوت کی برآمد سے لے کر سڑکوں اور چوراہوں پربھیک مانگنے تک کمائی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
جس معاشرے میں دولت کا حصول ہی اقدار کا پیمانہ بن جائے اُس معاشرے میں عزت ودولت کا معیار بہترین اخلاق وکردار نہیں، بڑے بڑے بنگلے، قیمتی گاڑیاں، بینک بلینس اوردولت کی ریل پیل ہوجاتاہے۔ سب لوگ پوری یکسوئی کے ساتھ اُسی طرف راغب ہوجاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی کسی کی نظر میں ان آسائشیوں کے بغیر گرنا نہیں چاہتا۔ ایسے معاشرے میں پھر نصیحت بھی اس طرح دی جاتی ہے "اگر تمہارے باپ غریب ہے تو تمہیں موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن اگر تمہارا سسر غریب ہے تو بہرحال یہ تمہارا قصور ہوگا " ایسے طبقاتی معاشرے میں صرف ملکی سطح پر نہیں عالمی سطح پر بھی سرمائے کو جاری کرنا یا روکنا انسانی ہمدردی کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے حق میں بدترین استحصال کے لئے ہی کیا جاتا ہے۔
حتیٰ کہ ظالم کے سارے کرتوت بنیادی حقوق کی پاسداری بن جاتے ہیں اورمظلوموں کے فاقے اور بیماریاں بھی ان کے اپنے سرمائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ہم آ ہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
سرمایہ دارنہ نظام کی یہی ریت ہے۔ سرمایہ دارنہ ظالمانہ نظام کے اس مضبوط ڈھانچے کے اندر ہی بڑے بڑے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی جمہورتیں پروان چڑھتی ہیں۔ انہی غیر منصفانہ کسوٹیوں پر جنگیں مسلط کی جاتی ہیں، عالمی پابندیاں عائد ہوتی ہیں، سارے امیرممالک ملکر ہا ر جائیں تو شرم نہیں آتی اور ایک اکیلا ملک جیت جائے تو وہ ہضم نہیں ہوتا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ایک مضحکہ خیز حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر معاشی اور حربی قوت اور ناقابل تسخیرحد تک طاقت ور ہونے کے باوجود یہ ممالک ہر وقت خوفزدہ رہتے ہیں اپنے سے بہت زیادہ کمزور، چھوٹے اور تقریباً نہتے لوگوں کے غریب اور پسماندہ ملکوں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں اس تکبر او رزعم کا خمیازہ ان ملکوں کو دنیا نے افغانستان کے طالبان کے ساتھ بیس سال تک آٹھائیس ترقی یافتہ ممالک کی عالمی پشت پنائی کے ساتھ جنگ میں انھیں ذلت آمیر شکست کی صورت میں دیا ہے۔
مثلا یہ ہے کہ جس طرح ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت بھگوان بن کر بھی سمجھ بوجھ سے عاری ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد سے گذشتہ نصف صدی اورموجودہ چوتھائی صدی تک ہر قابل ذکر جنگ میں شرمناک شکستوں کے باوجود بظاہر ترقی یافتہ ممالک ابھی بھی ا پنے خیال خام پر قائم ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ ان کی توپیں، ان کے ٹینک، جنگی طیارے اور جدیدترین میزائیل اور آبدوزیں سبھی، کچھ عزت ووقار کے نہیں بلکہ کمائی کے ذرائع بن چکے ہیں۔
سرمایہ دارنہ معاشرہ میں کمائی کے نت نئے ذرائع پیدا ہوتے رہتے ہیں جو پہلے صرف نیک نامی اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے واحد مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ شوشل میڈیا نے باتوں کی کمائی کو اور زیادہ وسعت اور ایک نئی جہت عطا کردی ہے جس نے باتو ں سے کمائی کو چار چاند لگادیئے ہیں۔ ایسی ایسی باتیں اب دولت کمانے کا ایک باقاعدہ اور قانوناً جائز ذریعہ بن چکی ہیں جن باتوں کا اب سے چند دہائیاں پہلے تک ماں بہنوں کی موجودگی میں بولنا تو کیا سننا بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
جسے کہتے ہیں "مختاریا گل ود گئی اے" بالکل اسی طرح اب لوگوں کی لوگو ں پر باتیں کرنا بہت بڑھ گیا ہے۔ اب علم ودانش کی بجائے بات سے بات نکالنا ہی ذہانت اور قابلت کا معیار بن گیا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا پہلو باقی نہیں رہ گیا ہے جس پر بات کرنے کے پیسے نہ ملتے ہوں۔ یہی حال بعض لکھاریوں کا بھی ہے۔ لکھنے والا ہمیشہ اپنے ضمیر کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی کہتا اور لکھتا ہے۔
جب زروجواہر کا حصول ہی زندگی کا مقصد بن جائے تو اخلاق اخلاق نہیں رہتا، جرم جرم نہیں رہتا، عزت عزت نہیں رہتی، انصاف انصاف نہیں رہتا اور عبادت عبادت نہیں رہتی۔ پھر اس دیوانگی سے کیسے نکلا جائے؟ اللہ کا حکم ہے "اچھی باتیں کرو اور سیدھی باتیں کرو" اللہ کا حکم ماننے سے بری باتوں سے نجات مل سکتی ہے۔ ہمیں لوگوں کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے اللہ اور رسول کی باتوں پر توجہ دینی چاہئے۔