ہم کب سیکھیں گے؟
جب مسلمانوں کے پاس قرآن جیسی کتاب ہے، جس کا دعویٰ ہے اور بالکل صحیح دعویٰ ہے کہ" اسمیں کوئی شک نہیں " پھر اُسے مزید کچھ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا سیکھنے سے مراد دنیا وی طاقت وجلال ہے؟ معاشی عروج ہے؟ سیاسی استحکام ہے؟ حربی ہتھیاروں کی جد ت ہے؟ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری ہے یا ان سے ملتی جلتی کوئی اور قابل رشک وتحسین صورت ہے؟ ان سوالوں کا جواب اکیسویں صدی میں دنیا کی چکاچوند، معلوماتی سیلابوں کے طوفان، ٹیکنالوجی کے حیران کن معجزات اور کائنات کو مسخرکرنے میں کامیابیوں کے پس منظر میں ہی دیا جاسکتاہے۔
جس نسل سے میرا تعلق ہے اُس نسل کے سامنے جس تیزی سے دنیا بدلی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بچے اُن باتوں اور چیزوں کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں جن کی موجودگی میں ہم پلے بڑھے اور اب اپنی آخری منز ل کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ بچے پہلے زمانے میں بھی باپ کو خبطی سمجھتے تھے لیکن آجکل کے بچے اور جوان واقعی اپنے دنیاوی علم و سمجھ کے لحاظ سے بڑے بوڑھوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ موجودہ نسل نے پہلی نسل کو علم اور تجربہ میں بظاہر مات دیدی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص مسلمان کیلئے نفر ت وحقارت اب انھیں صفحہ ہستی سے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ بن چکی ہے۔ لگتا یوں ہے1 2 ویں صدی میں مسلمانوں کے خلاف مخالف قوتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ متحد ہوکر کارروائیوں کا آگاز کر دیا ہے۔ اس کا ثبوت طالبان کے خلاف اٹھائیس ملکوں کی مشترکہ یلغارتھی جو ابھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے۔ بین القوامی سطح پر ایسے مسلمان دشمن اہداف کو شہ دینے کیلئے دانستہ یا نادانستہ طورپر خود مسلمان ممالک بھی مواد فراہم کر تے رہے۔
جیسا کہ آغاز میں عرض کیاگیا کہ مسلمانوں کے پاس وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ کلام اللہ ہے۔ اس کا خالق وہ ہے جس نے لوح وقلم پیدا کیے۔ جس نے انسانوں کو بیان پر قادر کیا اور جس نے پڑھنے اور لکھنے کے لئے موضوعات کو پیدا کیے۔۔ جس نے انسان کو عقل جیسی انمول نعمت سے نوازا جس کے باعث انسان اشرف المخلوقات بن گیا۔ اس عقل سے نوازا جو انسان کو اچھے او ربرے میں تمیز کا اختیار دیتی ہے۔
وہ عقل جو سمجھ کے لئے کسوٹیاں فراہم کرتی ہے۔ اب اس بڑی بدبختی کیا ہوگی کہ مسلمان قرآن جیسی منفرد اور عظیم ترین کتاب پرایمان رکھنے والے اور اس کتاب پر ایمان رکھنے والے اور کیا اس کتاب کے لانے والے پر ایمان رکھنے کے باوجود اُسے پڑھنے سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت قرآن نہیں پڑھتی۔ ہر گھر میں قرآن کی موجودگی کے باوجود اُسے نہ پڑھا جاتا ہے نہ سمجھا جاتا ہے۔۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ مسلمانوں کے اس تساہل کے باوجود اُن کے اندر ایک قابل ذکر تعداد حفاظ قرآن کی موجود رہتی ہے۔
حیات نبیؐ کے زمانے سے لے کر حفاظ قران کی ایک تعداد موجود رہی ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ کیوں؟ اسلئے کہ ایک تو اسکی حفاظت کا ذمہ خود اس کے نازل کرنے والے نے لے رکھا ہے اس لئے یہ دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس آج بھی بلا کسی ترمیم وتبدیلی کے اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں رسول اکرم ؐ اُسے امت کے حوالے کرگئے تھے۔ مسلمانوں کے فرقوں میں بٹ جانے کے باوجود قرآن سب کا وہی ہے جسے سرکار دوعالم ؐ چھوڑ گئے تھے۔ مسلمان ایک نہیں رہے لیکن مسلمانوں کے نبی پاکؐ پر نازل ہونے والا قرآن ایک ہی ہے اور وعدہ حق تعالیٰ کے مطابق قیامت تک ایک ہی رہیگا۔
اب آئیے اس سوال اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ مسلمان کب سیکھے گا؟ اس سوال کو جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سیکھنے کا مطلب کیاہے؟ وہ کون سی بات اور چیز ہے جسکا سیکھنا ضروری ہے؟ وہ کون سی کمی ہے جو مسلمانوں میں رہ گئی ہے اورجس کا سیکھنا یا کرنا اب ضروری ہے؟ کیا ضروری ہے کہ مسلمان غیر مسلموں سے سیکھے؟ اُن سے سیکھے جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں؟ اُن سے سیکھے جنہیں وہ خود پہلے سیکھا چکے ہیں؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمان کو سیکھنے کی سب سے زیادہ ضروت ہے اسلئے نہیں کہ اُس نے عروج کی طرف جانا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔
مسلمان تو عروج سے زوال کی طرف گرا ہے۔ اس نے غریب سے امیر نہیں ہونا کیونکہ وہ امارت دیکھ کر غریب ہوا ہے اُسے اُس کی بداعمالیوں اور کتاب سے دوری نے پیچھے دھکیلا ہے اور نیچے گرایا ہے۔ مسلمان قوت اور عظمت کی اس چاشنی سے آگاہ ہے جس کی وجہ سے وہ آگے آگے تھا اور دنیا پیچھے پیچھے۔ تب مسلمان استاد تھا اور دنیا شاگرد۔ کیوں؟ اسلئے کہ انسان حقیقی اور پائیدار عروج صرف دو باتوں کے تحت ہی حاصل کرسکتاہے۔۔ علم اورکردار۔ قرآن کا اعلان ہے کہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں بجزتقو یٰ کے۔ مسلمان علم اور کردار دونوں میں پیچھے رہ گیا ہے۔ پدرم سلطان بود کے علاوہ اب اس کے پاس کوئی منترنہیں رہ گیا۔
جدید دنیا کا خاصہ یہی وہ اجارہ داریاں ہیں۔ آج وہی آگے ہے جو علم رکھتا ہے اپنے علم کی گواہی اپنے کردار سے دیتا ہے۔ باپ دادا کے کردار سے نہیں، اپنے کردار سے دیتا ہے اوروں کی پکڑیا ں اچھال کر اپنا سر بلند نہیں کرتا۔ دوسرے کے کندھے سے بندوق چلا کر بہادری کا تغمہ حاصل نہیں کرتا وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے بل بوتے پر کرتاہے۔ مسلمان کو قرآن نے یہی بات سمجھائی تھی کہ دنیا اورآخرت میں کامیابی کے لئے اسے دو باتوں کی ضرورت ہے۔۔ ایک ایمان اور دوسرا عمل صالح۔۔ یعنی علم اور کردار۔ اور علم اور کردارکسی قوم، ملک، مذہب وملت کی میراث نہیں ہیں یہ قدرت کے دئیے گئے اصول وضوابط ہیں۔
ان پر جو بھی عمل پیرا ہوگا آگے بڑھے گا۔ جو اِن اصولوں کی پاسداری میں ناکام رہا وہ پیچھے رہ جائے گا۔ آدمی کے عروج وزوال کی کسوٹی تھوڑی بہت کمی پیشی کے ساتھ یہی دو باتیں رہی ہیں جن کی سچائی کو آج تک جھٹلایا نہیں جاسکا۔ قرآن کا اعلان ہے " کیا علم والا اورجاہل برابر ہوسکتے ہیں؟ "۔ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ قیام رکوع اور سجود کے درمیان سیدھے راستے پر رہنے والوں کے نقش قدم پر چلنے اور گمراہوں سے بچنے کی دعا کرتاہے۔
یہ دعا اُسے خود اللہ رب العالمین نے سکھلائی ہے۔ صراط مستقیم علم وکردار کو واضح کردیتا ہے اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے وہ سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں۔ اب جو لوگ مسلمانوں سے آگے ہیں کیا وہ صراط مستقیم پر ہیں؟ ہر گز نہیں، لیکن انہوں نے علم کی برتری اور کردار کی عظمت کو تسلیم کررکھا ہے۔ ملاوٹ جس بات یا چیز میں بھی ہو اُس کے حقیقی اثرات کو زائل کردیتی ہے۔ ہمیں علم و عمل دونوں کے لحاظ سے صراط مستقیم پر چلنا ہوگا۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے یہی بات اب مسلمان کو دوبارہ سیکھنی ہے۔