1.  Home
  2. Musa Raza Afandi
  3. Darakhton Ki Nemat

Darakhton Ki Nemat

درختوں کی نعمت

گذشتہ دنوں جناب اشرف شریف کا کالم بعنوان "نوآبادیاتی یادگار۔ چھانگا مانگا" پڑھا، جس کے مندرجات سے درختوں کی نعمت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔ میں ان کی طرح تحقیقی مواد پر مبنی کالم نویسی نہیں کرتا۔ میری سوچوں کا محور مشاہداتی کی بجائے تجزیاتی ہوتاہے۔ لیکن اس تحریر نے مجھے اس حد تک متاثرکیا کہ میں اپنے ملک کے بہتر اور خوشحال مستقبل کے لئے درختوں کوایک نئے انداز سے دیکھنے اور اُن سے جڑی نعمتوں کو جاننے سمجھنے او ر ان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے رنگا رنگ پہلو ئوں پر غور کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ہم اپنی زندگی سے چاہیں بھی تو درختوں کو نہیں نکال سکتے۔

ہمارے عقیدے کے مطابق انسان تو زمین پر وارد ہی ایک درخت کا پھل منع کرنے کے باوجود کھانے کی پاداش میں ہواہے۔ اس دینی پس منظر کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی دنیاوی طور پر پاکستان میں دس ارب درخت لگانے کی تحریک نے عالمی سطح پر بھی پاکستا ن کو ایک نئے اچھوتے اوربھارتی پراپیگنڈے کے مطابق دہشت گردی پھیلانے والے ملک کے برعکس دنیا کوماحولیاتی آلودگیوں سے بچانے والا صف اول کا ذمہ دار ملک بنادیا ہے۔ اس لئے کہ پاکستان جس قدر قدرتی حُسن سے مالا مال ہے اُسے جگہ جگہ درختوں کی کاشت چار چاند لگاسکتی ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع کے ساتھ ہمارا ماحول خوبصورت اور مثبت سوچوں کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ ہم نفرتوں کے چنگل سے آزاد ہوکر محبتوں کا داعی بن سکتے ہیں۔

جس طرح پاکستان کے لوگوں نے ضیاالحق کے دور سے 14اگست کوایک باقاعدہ تہوار کی شکل دیدی، مشرف کے دور میں بسنت کو معاشی سرگرمیوں کا ذریعہ بنادیا گیا تھا، اسی طرح عمران حکومت نے پاکستا ن کو سیاحت کی مقامی اور عالمی منزل میں تبدیل کرنے کاجو آغازکیا ہے اسے بھرپور عوامی پذیرائی ملی ہے۔ اس کے تحت گذشتہ عید پر ایک تخمینے کے مطابق ستائس لاکھ مقامی سیاحوں نے ملک کے طول ارض سے صرف صوبہ خیبر پختونخواہ کے سیاحتی مقامات کا دورہ کرکے اربوں روپے کی کاروباری گردشوں کوممکن بنایا۔

کشمیر، شمالی علاقہ جات، چترال، بلوچستان اور پنجاب کے سیاحتی مقامات پر جانے والوں کی تعداد کا باقاعدہ تخمینہ اس کے علاو ہ ہے۔ امیر تو موسم کے علاوہ بھی بہت ساری باتوں اور چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں لیکن غریب تو اچھے ماحول اور فرحت بخش موسم میں صرف بھنی ہوئی چھلی کھا کر بھی خوش ہو جاتاہے۔ جس با ت نے سوچنے پر مجبور کیا وہ یہی بات ہے کہ اگر انگریز آج سے ڈیڑھ سوسال پہلے اپنے نو آبادیاتی مقاصد کے لئے مصنوعی جنگل بناسکتاتھا اور مقامی لوگوں ہی کی محنت اور سرمائے پر ایسا کرسکتا تھا توہم آج ایک آزاد وخودمختار ملک کے باسی ہونے کے ناطے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟

جنگلات کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہم کیا کچھ نہیں کرسکتے؟ کیا ہم اس بات کو بھول سکتے ہیں کہ اگر بائیس کروڑ لوگ ایک ایک پودا بھی لگائیں تو بائیس کروڑ پودے ایک دن میں لگ سکتے ہیں۔ اس کے لئے کسی تخصیص کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عورت، مرد، بوڑھا، جوان اور بچہ، امیر غریب، ا نپڑھ، ، پڑھا لکھا اور دانشور، مزدور، کسان یا کارخانہ دار اور جاگیردار، ہندوسکھ، عیسائی اور مسلمان غرضکہ پاکستان کا ہر شہری اس کا رخیر میں حصہ ڈال سکتاہے کس لئے؟ اپنے لئے، اپنے گھر کے لئے، اپنے گلی محلے کے لئے اپنے خاندان او رمعاشرے کے لئے او ر سب سے بڑھ کر اپنی آئندہ نسلوں کے لئے اس عظیم کام میں حصہ ڈال سکتاہے۔

اس کام کے لئے کسی لمبی چوڑی سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں ہے کوئی بھی عورت اپنے برآمدے یا باروچی خانے میں بھی گھریلواخراجات میں ایک پودے کا خرچہ شامل کرسکتی ہے۔ بچہ اپنے جیب خرچ میں بھی پودا لگا سکتاہے اور تھوڑا یا زیاد ہ کمانے والا کوئی بھی شخص ایک پودا لگانے کے قابل ضرور ہوتاہے۔ سگریٹ پینے والے کی ایک سگریٹ کی قیمت سے بھی کم اور پان کھانے والے کے ایک پان پر اٹھنے والے خرچ سے کم میں ایک پودا لگتاہے۔

اس کے لئے قومی سطح پر ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے دس ارب درخت لگانے کے ہدف کو حاصل کرنے لئے صرف پاکستان کی جانی پہچانی انتظامیہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسے وزارتی یا محکمہ جاتی سطح کا نہیں بلکہ قومی سطح کا مشن بنانا ہوگا۔ سالانہ بنیادوں پرجنگل اگانے کے لئے اس عظیم مشن کے لئے ایک دن مختص کرنا ہوگا۔ وہ عالمی طور پر منایا جانے والا ماحولیاتی دن بھی ہوسکتا ہے اور حکومت ملکی سطح پرکوئی اور دن بھی تجویز کرسکتی ہے۔ ایسا دن جسے سب لوگ پورے جوش وخروش اور ولولہ انگیزی کے ساتھ ملکی سطح پر منائیں جس طرح یوم آزادی پر ملک کے طول وارض میں پاکستان کے جھنڈوں اورجھنڈیوں پر مشتمل قمیضوں، بنیانوں اور کھلونوں تک کا کاروبار ہوتاہے۔

جس سے اربوں روپوں کا لین دین پاکستانی معیشت پر ایک مثبت اثر ڈالتاہے، بالکل اس طرز پر "یوم شجر کاری " بھی متعارف کرایا جاسکتاہے۔ ایک ایسے دن کی طرح ڈالی جاسکتی ہے جو لوگوں کے بہتر مستقبل کیلئے انھیں ایک دوسرے سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جوڑ دے۔ ہر شخص خود کو گہر ی جڑوں اور مضبوط تنے والا درخت سمجھتے ہوئے سب کو اپنے پھیلے ہوئے سایوں تلے لانے کے لئے کوشاں ہو۔ نفرتوں کی تمازت کو پرے کرتے ہوئے محبت امن وسکون کی ماں کی مانند گھنی چھائوں تلے لے آئے حکومت نئے نصاب پر کام کررہی ہے کیوں نا شجرکاری کو ایک قومی ہدف کے طور پر اسے قومی نصاب کا حصہ بنادیا جائے؟

بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہوں، سکولوں کالجوں کھیل کود کے میدانوں اور سرکارکے پاس موجود ہزاروں ایکڑ پر موجود پڑی بنجر زمینوں پر جنگل اگائے جاسکتے ہیں۔ بلوچستان کے وسیع وعریض علاقے میں مقامی پڑھے لکھے اور ہنرمندافراد کو لمبے عرصہ تک زمینیں الاٹ کی جاسکتی ہیں تاکہ وہ انھیں سرسبز وشاداب کریں خود بھی کمائیں اور لوگوں کی ضروریات بھی پوری کریں۔

Check Also

Hamare Ewan Aur Hum

By Qasim Asif Jami