سوال یہ ہے
اسلام آباد پولیس سے سوال یہ نہیں کہ دو کمسن بچوں سے جنسی تشدد کرنے والے سب انسپکٹر گرفتار کر لیا ہے بات یہ بھی نہیں کہ ڈی آئی جی سید علی رضا کی انکوائری کے مطا بق بچوں کے طبی سے معائنہ ثابت ہوگیا کہ مصوم بچوں سے واقعی جنسی زیا دتی ہوئی اور جلد ہی اسلام آباد اس درندہ صفت سب انسپکٹر کو ملازمت سے فارغ کر دیا جا ئے گا، سوال اصل میں یہ ہے کہ شمس کالونی پولیس اسٹیشن جہاں وہ ان دو کمسن بچوں کو لے کر گیا اس تھانے کا ایس ایچ اور محرر سمیت دوسرے تمام اہلکار اس بات سے بے خبر رہے کہ دو دن اور دو راتیں یہ راسکل ان دو کمسن بچوں کے ساتھ کمرے میں بند رہ کر کیا کر تا رہا ہے؟
کیا شمس کالونی تھانے کا تمام عملہ بہرہ تھا یا ان سب نے اپنے کانوں میں کوئی سیسہ ڈال رکھا تھا جس نے ان کی قوت سماعت اس حد تک مفلوج کر دی کہ انہیں رات کے اندھیرے میں جب کہیں سے اٹھنے والی ہلکی سی آواز بھی سب کو چونکا دیتی ہے ان کمسن اور معصوم بچوں کی درد اور تکلیف سے گونجنے والی چیخیں کسی ایک کو بھی سنائی ہی نہ دیں۔
یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دس اور بارہ سال عمر کے ان بچوں کی طرح اسلام آباد پولیس کے افسران کے اپنے بچے نہ ہوں ان بچوں کی جگہ خدا نخواستہ اگر حکمرانوں کے بچے ہوتے تو یہ پھر کیا ہوتا؟ اگر یہ جرم کسی مدرسے یا کسی مولوی سے سر زد ہوا ہوتا، کسی استاد نے یہ حرکت کی ہوتی تو اب تک ایک قیامت برپا ہو جانی تھی لیکن یہ چونکہ لاوارث بچے تھے اور اسلام آباد پولیس کو ویسے ہی آج کل ایک سیاسی جماعت کو ناکوں چنے چبوانے کے علا وہ اور کوئی ڈیوٹی دی ہی نہیں جا رہی اور اس فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، اس لئے اس مفتوح قوم سے مال غنیمت سمیٹنا ان کا اولین حق بن چکا ہے۔
اسلام آباد کے داخلی راستوں پر لگائے جانے والے تیس سے زائد ناکے اس وقت ماہانہ کروڑوں تک پہنچ چکے ہیں اور ظاہر ہے کہ مال غنیمت اکیلے تو کھایا ہی نہیں جا سکتا اور نہ ہی کوئی کھانے دیتا ہے۔ اگر میڈیا کو اجازت دی جاتی تو اسلام آباد پولیس سے پہلا سوال یہ پوچھا جاتا کیا کسی بھی پولیس اہلکار اور ساتھی افسران کو اپنے ساتھ کام کرنے والے اس سب ا نسپکٹر کے کیریکٹر اور قبیح عادت کا پہلے سے علم نہیں تھا؟
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ساتھیوں کو اس کی اس مکروہ عادات کا علم نہ ہو کیونکہ جو کچھ اس سب انسپکٹر معصوم بچوں کے ساتھ اڑتالیس گھنٹے تک کرتا رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے گھنائونے جرائم اور مکروہ اور شرمناک عمل کا بد ترین عادی تھا جب اس کے ساتھی پولیس اہلکار اور تھانے کے محرر سمیت ایس ایچ او کو اس کی مکروہ عادت اور ذہنیت کا پتہ تھا تو محرر جسے تھانے کی ماں کہا جاتا ہے اس سے یہ کیسے پوشیدہ رہا کہ یہ شیطان صفت انسان ان بچوں کو دو دن اور دو راتیں اپنے کمرے میں بند کئے ہوئے رہ رہا ہے؟ کیا اس سب انسپکٹر نے محرر کو بتایا نہیں تھا کہ وہ ان بچوں کو کس جرم یا کس شک میں لے کر آیا ہے؟
کیا ان بچوں کی تھانے میں آمد کی کوئی رپٹ درج نہیں کی گئی تھانے کے روزنامچے میں ان بچوں کا اندراج کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا اسلام آباد جیسے حساس علا قے میں تعینات پولیس افسران بارے سپیشل برانچ یا ڈسٹرکٹ سکیورٹی سمیت کسی بھی ادارے کے پاس اس سب انسپکٹر جیسے ذہنی مریضوں بارے کوئی اطلاع نہیں ہوتی؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ان بچوں کو دیکھنے کے بعد اس کے اندر کا شیطان یک دم جاگ اٹھا ہو بلکہ اس کی اس حرکت سے لگتا ہے کہ یہ جہاں جہاں بھی تعینات رہا اب تک نہ جانے کتنے بچوں سے اس مکروہ اور گھٹیا ترین جرم کاارتکاب کر چکا ہوگا۔ اس " کے ساتھی سب کچھ جانتے بوجھتے اس کے گندے اور مکروہ عمل پر پردہ ڈالتے رہے؟
آئی جی سے لے کر وزیر داخلہ تک اور چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا چیف کمشنر جو ایک انتہائی نیک نام اورانسان دوست چوہدری محمد رشید رندھاوا کے فرزند ہیں، وہ احکامات جاری کیوں نہیں کر رہے کہ اسلام آباد پولیس میں اس سب انسپکٹر جیسی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کیلئے ان کے طرز عمل اور اخلاقی حیثیت کی جانچ پڑتال کی جائے۔ صرف یہی ایک بد کردار سب انسپکٹر نہیں بلکہ اس جیسی نہ جانے کتنی کالی بھیڑیں پولیس فورس میں موجود ہیں۔ کراچی کمپنی سے بھیک مانگتے ہوئے ان بچوں کو اگر پکڑا گیاتھا تو بظاہر یہ ایک ا چھا عمل تھا چاہئے تو یہ تھا کہ ان بچوں کے ذریعے انہیں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ کر جانے والے سر پرستوں پر ہاتھ ڈالا جاتا اگر کوئی گروہ تھا تو ان کو پکڑنے کی بجائے ان بچوں کو درندگی اور گندی ذہنیت کی عیا شی کیلئے دو دن اور دو راتیں جنسی تشدد کیا جاتا رہا اور بھی پولیس اسٹیشن کے اندر۔
اسلام آباد پولیس کے نئے سربراہ علی ناصر رضوی جب قصور پولیس کے ضلعی سربراہ تھے تو ہم نے تو ان کا وہی چہرہ ہی دیکھ رکھا تھا جسے قصور کی عوام اور میڈیا آج بھی یاد کرتا ہے وہ علی ناصر جس کے متعلق ڈی آئی جی کیپٹن احمد مبین شہید کہا کرتے تھے کہ علی ناصر ہماری پولیس کا ہیرا ہے وہ ہیرا نہ جانے اب کہاں گم ہے؟