ذرا سیاست سے ہٹ کر
سیاست کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا۔ اقتدار کے جھگڑے چلتے رہیں گے۔ اچھے بُرے حکمران آتے رہیں گے۔ کسی کی داستان طویل ہو گی کسی کی مختصر ! اپنی اپنی سنا کر سب خاموش ہو جائیں گے۔ مگر اس تخت و تاج کی دنیا میں، اس مال و زر کے جہان میں۔ ایک اور دنیا بھی آباد ہے محبت کی، جذبات کی، آنسوئوں کی، اُس مسرت کی جو اندر سے پھوٹتی ہےاسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بنی ہیںروش سے سیڑھیاں مر مر کی پانی میں گئی ہیںان آنسوئوں کو اور ان مسرتوں کو اظہار کے لئے ہمیشہ شاعری کی ضرورت رہے گی۔ جذبات ظاہر کرنے کے لئے فنکار مصوری کرتے رہیں گے۔ ناول لکھیں گے، کہانیاں تصنیف کریں گے۔ ادب اورفنون لطیفہ ہمیشہ لوگوں کی دستگیری کرتے رہیں گے۔ بہت لوگ پوچھتے ہیں کمپیوٹر کے اس دور میں شاعری کا کیا مستقبل ہے۔ یہ سوال ہوائی جہاز، ٹرین اور ٹیلی ویژن ایجاد ہونے کے بعد بھی پوچھا گیا۔ سوال کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کا، جب تک انسان زندہ ہے وہ ہنسے گا اور روئے گا۔ اس کے پیارے اسے داغ مفارقت دیں گے تو غم کا اظہار کرنے کے لئے اسے شاعری کرنا پڑے گی۔ اقبال کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں اس دنیا کی آخری نظم نہیں ہے۔ بال جبریل کی نظم "مسجد قرطبہ" کو اردو شاعری کا معجزہ کہا جاتا ہے مگر یہ معجزہ آخری نہیں! یہ معجزے برپا ہوتے رہیں گے۔ ہاں اگر کوئی ایسا وقت آیا کہ انسان مٹ جائیں گے اور صرف روبوٹ رہ جائیں گے تو اس وقت شاعری ضرور ختم ہو جائے گی۔ نہ جانے کیوں آج گم شدہ شاعر شبیر شاہد یاد آ رہا ہے۔ یہ ستر کی دہائی کا آغاز تھا ! میں سول سروس اکیڈمی میں زیر تربیت تھا یارِ دیرینہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اورنٹیل کالج میں پڑھ رہے تھے۔ انہی کے ذریعے اس قادر الکلام شاعر شبیر شاہد کا تذکرہ پہلی بار سنا۔ ایک بار پاک ٹی ہائوس میں حلقہ کے اجلاس میں اسے غزل سناتے دیکھا۔ اس غزل کا ایک شعر شاید کچھ اس طرح تھا ؎اڑنے تک تو یاد ہے پھر کچھ یاد نہیںاُڑتے اُڑتے بھول کہیں پرواز کہیںپھر شبیر شاہد گم ہو گیا۔ جنگلوں کو نکل گیا یا کسی نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم! اس کی شاعری کی مقدار قلیل ہے مگر یہ قلت بہت سے شعری مجموعوں کو مات کرتی ہے۔ قارئین سے اس کی شاعری کے کچھ حصے شیئر کئے جا رہے ہیں ؎میٔ فراغت کا آخری دور چل رہا تھا/سُبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھافراق کا گیت گا رہا تھا۔ مغنّیٔ شب/فلک پہ صبحِ سفر کا تارا نکل رہا تھاوہ سانس کی لَے کہ ناچتا تھا لہو رگوں میں/وہ حدّتِ مے کہ لمحہ لمحہ پگھل رہا تھافضا میں لہرا رہے تھے افسردگی کے سائے/عجب گھڑی تھی کہ وقت بھی ہاتھ مل رہا تھانگاہیں دعوت کی میز سے دورکھو گئی تھیں/تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھاہوائے غربت کی لہر انفاس میں رواں تھی/نئے سفر کا چراغ سینوں میں جل رہا تھابھڑک رہی تھی دلوں میں حسرت کی پیاس لیکن/وہیں نئی آرزو کا چشمہ ابل رہا تھابدن پہ طاری تھا خوف گہرے سمندروں کا/رگوں میں شوق شناوری بھی مچل رہا تھانہ جانے کیسا تھا انقلابِ سحر کا عالم/بدل رہی تھی نظر کہ منظر بدل رہا تھا٭٭٭٭٭سدا رہے گی یہی روانی، رواں ہے پانی/بہائو اس کا ہے جاودانی، رواں ہے پانیبہائو میں بہہ رہے ہیں موسم نگاہ منظر/بہائے جاتا ہے سب کو پانی، رواں ہے پانیزمین، آدم، شجر، حجر، پھول اور ستارے/تمام آنی تمام فانی، رواں ہے پانیکبھی تھے ان راستوں میں قریے مکان چہرے/یہ داستاں ہے مگر پرانی، رواں ہے پانینہ اب وہ ساحل نہ اب وہ بستی نہ وہ فصیلیں/نہ اس زمیں کی کوئی نشانی، رواں ہے پانییہاں میں دُہرا رہا ہوں پہلے سفر کی باتیں/مگر کہاں اب وہ شادمانی، رواں ہے پانیوہ محفلیں ہیں نہ اب وہ ساتھی رہے ہیں باقی/نہ اب وہ بچپن نہ وہ جوانی، رواں ہے پانی٭٭٭٭٭ابھی وہ نقشِ کمال بُھولا نہیں ہے مجھ کو/وہ ساحلِ بے مثال بھولا نہیں ہے مجھ کووہ ریگِ ساحل سے چاندنی میں لپٹتی لہریں/وہ بحروبر کا وصال، بُھولا نہیں ہے مجھ کووہ آسمانوں کی جھوک وہ کھاڑیوں کا پانی/وہ اس میں تاروں کا جال، بُھولا نہیں ہے مجھ کوفضائے ساحل کی اوٹ سے جھانکتا جھلکتا/وہ شہرِ حسن و جمال، بھولا نہیں ہے مجھ کوفصیل کی برجیوں پہ جھکتے ہوئے ستارے/وہ منظرِ لازوال، بُھولا نہیں ہے مجھ کونگاہ میں ہے شکوہ اس کی عمارتوں کا/وہ معبدوں کا جلال، بھولا نہیں ہے مجھ کونفس میں آباد ہیں ابھی رس بھری ہوائیں/وہ موسمِ برشگال، بھولا نہیں ہے مجھ کو٭٭٭٭٭سفر نے دھندلا دیے ہیں ماضی کے عکس لیکنوطن سے رخصت کا سال، بھولا نہیں ہے مجھ کووہ بوئے شامِ نشاط اب بھی دماغ میں ہےوہ رنگِ صبح ملال، بھولا نہیں ہے مجھ کو٭٭٭٭٭سب تیرے لیے!/کیا پربت، وادی، دشت، سمندرشہر، بیاباں، منزل رستے گھر/کیا در دیوار، چھتیں، آنگن، کیا گل گلزار شجرہر موسم ہر منظر/اے روح مکاں ! اے روحِ زماں!سب تیرے لئےہر معنی، صورت، ہر پیکرسب نام تعارف، حسب نسب مرنا جینااول آخر سب تیرے لئے/یہ رنگ مہک، یہ روپ چمکیہ ہونی سے انہونی تک نیرنگِ فلک/جادو اُن کا خوشبو جن کیہر سو بے نام فضائوں میں صحرائوں میں/یہ نامعلوم سمندر کو جانے والے دریائوں میں/نایاب گہر، پانی کے یوسف لاثانییہ ناموجودکے آئینے، موجود کی ساری حیرانی/سب تیرے لئے!ہر روز ابھرتے سورج کی تابانی میں اے لافانی!نورانی رستوں پر منظر منظر ہونے کی آزادی/ اور اپنا فانی پیار لئےدریا دریا ساحل ساحل وادی وادی/سب تیرے لئے!یہ مشرق، مغرب، ارض و سما، یہ دیرو حرم/یہ مسجد، گنبد، محرابیںیہ روشن خواب عبادت کے/یہ سجدوں والی پیشانییہ نورانی صبحوں کی فضا/یہ دست دعامیں اور مرا دل، مرا بدن، /یہ تن من جن میں تیرے لئےہر صبح عبادت کے سورجہر شام عبادت کے تارےاے روح زماں!اے روح مکاں!مرا ہونا ہونے کی خوبیمرا جینا جینے کی خواہشیہ روح و بدن کی آرائش/ہر درد و الم، ہر آسائشسب تیرے لئے/اور میرے لئےاے دائم، قائم لافانیاک فانی پیار کی حیرانی