تاجروں کا بائیکاٹ کیجیے
ترقی یافتہ (اور بہت سے ترقی پذیر ملکوں) کے تاجر ریاست کو پورا پورا ٹیکس دیتے ہیں۔ گاہک کا احترام کرتے ہیں اور گاہک کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ پاکستانی تاجر ریاست کو ٹیکس دینے سے بچنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ساتھ ساتھ گاہک کے حقوق پر رات دن ڈاکہ بھی ڈالتا ہے۔ ناروا تجاوزات اور ملاوٹ، جھوٹ اور وعدہ خلافی کی اس وقت بات نہیں کر رہے۔ گاہک کے صرف ایک حق کا ذکر کرلیتے ہیں۔ خریدا ہوا مال واپس کر کے اپنی رقم تاجر سے واپس لینا گاہک کا بنیادی حق ہے۔ ظاہر ہے مال واپس کرتے وقت رسید دکھانی چاہیے۔ سامان خراب اور استعمال شدہ نہ ہو۔ مگر پاکستانی تاجر گاہک کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں! روزنامہ 92نیوزنے مشہور اور کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے برانڈز اور کمپنیوں کا گزشتہ ہفتے سروے کیا۔ ایک ایک سے پوچھا کہ ری فنڈ(یعنی مال واپس لے کر رقم لوٹانے کی)پالیسی کیا ہے؟ اس مقصد کے لئے گیارہ معروف تجارتی کمپنیاں چُنی گئیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کی مصنوعات رات دن، ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ مڈل کلاس تو مڈل کلاس ہے، زیریں طبقے کے افراد بھی(خاص طور پر خواتین) پیسہ پیسہ جوڑ کر، پیٹ کاٹ کر، ان کمپنیوں کی مصنوعات خریدتی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک برانڈ کی ملک بھر میں پچاس، پچاس، ستر، ستر اور سو، سو برانچیں ہیں۔ ہر مشہور بازار میں، ہر معروف مارکیٹ میں ان کے سٹور کھلے ہیں۔ ان گیارہ میں سے صرف دو کمپنیاں گاہک سے خریدا ہوا مال واپس لیتی ہیں۔ ایک کمپنی غیر ملکی ہے جو چودہ دن کے اندر صارف کو یہ سہولت دے رہی ہے کہ رسید دکھا کر سودا واپس کر دے اور رقم لے لے۔ دوسری پاکستانی ہے اور شاید یہ واحد پاکستانی کمپنی ہے جو اپنی فروخت شدہ مصنوعات واپس لے کر رقم لوٹا دیتی ہے۔ روزنامہ 92نیوز نے یہ سروے وفاقی دارالحکومت میں واقع برانچوں کے حوالے سے کیا۔ سیکٹر ایف ٹین میںایک عظیم الشان برانچ میں عرفان صاحب سے پوچھا کہ آپ کی ری فنڈ پالیسی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خریدی ہوئی شے واپس نہیں کرتے، ہاں اس کے بدلے میں کوئی اور شے لے سکتے ہیں۔ رقم کسی صورت میں نہیں لوٹائی جائے گی۔ گیگا مال میںایک برانچ پر اویس صاحب سے بات ہوئی۔ مشہور زمانہ اور مقبول خاص و عام کمپنی کی راولپنڈی صدر کی برانچ میں عمران صاحب تشریف فرما تھے۔ ایک کمپنی کی برانچ سنتارس مال میں ہے۔ وہاں محسن صاحب نے اٹنڈ کیا۔ ایک اور مشہور کمپنی کی برانچ سنتارس مال میں واقع ہے وہاں قاسم صاحب بیٹھے تھے۔ گیگا مال برانچ میں آفتاب صاحب ایک کمپنی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ گیگا مال برانچ میں حمزہ صاحب سے بات ہوئی۔ مذہبی حلقوں میں بے حد مقبول ایک کمپنی ہے۔ اس کی بیرون ملک بھی کئی شاخیں ہیں۔ گیگا مال والی برانچ میں عاقل نامی ایک عقل مند صاحب نے سوالوں کے جواب دیے۔ برانچ واقع سنتارس میں ملک منظور صاحب بیٹھے تھے۔ ایم ایم عالم روڈ پرایک برانچ پر ذیشان صاحب سے بات ہوئی۔ ایک برانچ جو صفا گولڈ مال جناح سپر مارکیٹ میں واقع ہے وہاں مسٹر اسامہ نے معلومات فراہم کیں۔ یہ گیارہ عظیم الشان عظیم الجثہ قوی ہیکل کمپنیاں بھابھڑا بازار یا بھائی پھیرو کی پیداوار نہیں۔ یہ حد درجہ ثروت مند اور کروڑوں میں منافع کمانے والی کمپنیاں ہیں۔ ان کی مصنوعات بیرون ملک فروخت ہوتی ہیں یا ملک سے لے جائی جاتی ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ یہ کپڑا تھان سے پھاڑ کر دیں۔ ان کے سوٹ یا کمبی نیشن الگ الگ ہوتے ہیں جو بآسانی واپس لیے جا سکتے ہیں۔ گیارہ میں سے نو نے صاف صاف بتایا کہ ہماری پالیسی میں ری فنڈ نہیں ہے یعنی خریدار ہوا مال واپس نہیں ہو سکتا۔ صرف ایک غیر ملکی برانڈ جودو ہفتے کے اندر اور ایک پاکستانی کمپنی ایک ہفتے کے اندر خریدی ہوئی مصنوعات واپس لے کر رقم گاہک کے حوالے کر دیتی ہے! ان نو کمپنیوں پر قیاس کیجیے کہ پاکستانی منڈی میں گاہک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جوتے، ادویات، الیکٹرانکس، کھلونے اور دیگر ضروریات زندگی فروخت کرنے والے، گاہک کا یہ حق کس طرح مار رہے ہوں گے۔ یہ صرف ایک ظلم ہے جو تاجر روا رکھے ہوئے ہیں۔ کروڑوں مربع فٹ سرکاری فٹ پاتھوں اور شاہراہوں پر قبضہ کر کے ان ظالموں نے اپنا مال سجایا ہوا ہے۔ ناقص اشیا کی فروخت اس کے علاوہ ہے۔ خوراک، ادویات یہاں تک کہ بچوں کے دودھ میں بھی ملاوٹ کر رہے ہیں۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا تیل خراب بیچ رہے ہیں۔ اوقات کار ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ!ظہر کے وقت دکانیں کھولتے ہیں اور رات ڈھلتی ہے تو بند کرتے ہیں۔ صارفین کو ان کا بائی کاٹ کرنا ہو گا۔ مصنوعات خریدتے وقت پوچھیے کہ کیا خریدا ہوا مال بعد میں واپس ہو جائے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو مت خریدیے۔ ایک ماہ۔ صرف ایک ماہ۔ یہ بائیکاٹ کیا جائے تو اِس قومِ شعیبؑ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ کیا عدالت عظمیٰ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ صارفین کو یہ بنیادی حق دلائے؟ کیا یہ مسئلہ از خود نوٹس کا مستحق نہیں؟ مہذب ملکوں میں صارف ایک بہت بڑی قوت ہے۔ اس کے رویے سے بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں سرنگوں ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ میں ایک بڑے فاسٹ فوڈ کی گرم کافی سے ایک گاہک کا جسم جلا تو گاہک نے لاکھوں ڈالر تلافی کے وصول کئے۔ یہاں کھانا کھا کر پانچ سو گاہک ہسپتال پہنچ جائیں تو فروخت کرنے والا مونچھ مروڑ کر، گھر، آرام سے سو جاتا ہے! کچھ عرصہ سے رمضان کے دوران پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ نتیجہ نہیں معلوم کہ اصلاح کی طرف راستہ کھلا ہے یا نہیں! ہم عجیب لوگ ہیں، ایک ایک ٹماٹر، ایک ایک لیموں، سو سو روپے کا بھی فروخت ہو تو خریدنے کے لئے تیارہیں حالانکہ آج تک کوئی شخص دنیا میں اس لئے نہیں مرا کہ اس نے ٹماٹر، لیموں، پیاز یا گوشت نہیں کھایا تھا۔ تاجر ہڑتال کر رہے ہیں کہ ان کی دھاندلی پر روک ٹوک نہ ہو۔ آپ صارف ہیں۔ آپ بھی ان کے ظالمانہ رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیجیے۔