ت سے تکّبر اور ت سے تاجر
دونوں کو قید کر دیا گیاایک دبلا پتلا تھا۔ دن میں ایک وقت کھانا کھانے والا۔ دوسرا فربہ تھا۔ پیٹو! سب کا خیال تھا کہ یہ جو دبلا پتلا سوکھا سڑا ہے زنداں نہیں برداشت کر پائے گا مگر معاملہ الٹ ہوا۔ موٹے تازے آدمی کا جیل کے نپے تُلے کھانے پر گزارہ نہ ہو سکا، چل بسا۔ صحت مند وہ نہیں ہوتا جو بسیار خور ہو! اوپر گوشت اور اندر چربی کی تہیں ہوں۔ جسم غبارے کی طرح پھولا ہوا ہو۔ صحت مند وہ ہوتا ہے جس کا بدن چھریرا ہو۔ سریع الحرکت ہو۔ وزن اٹھا سکے۔ بات بات پر سانس نہ پھول جائے۔ کوئی ایک ملک ایسا، اس دنیا کے نقشے پر، دکھا دیجیے جس میں ٹیکس چوری کیا جا رہا ہو۔ قانون کو پائوں کے نیچے روندا جا رہا ہو، حکمرانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہوں۔ سمگلنگ زوروں پر ہو اور اسے ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہو؟ یہ ملک ایک عرصہ سے وینٹی لیٹر پر ہے۔ موٹا تازہ فربہی کے شکار۔ قرضوں پر چلنے والا ٹیکس چوروں سے بھرا ہوا۔ آصف علی زرداری سے لے کر نواز شریف اور شہباز شریف تک سب حکمرانوں کے کارخانے، رہائش گاہیں، محلات، کاروبار، کمپنیاں، یہاں تک کہ اولاد بھی ملک سے باہر! بھارت سے لے کر سنگا پور اور کوریا تک۔ کینیڈا سے لے کر نیوزی لینڈ تک۔ کس ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں؟ کس ملک میں ٹیکس چوروں کا معیشت پر قبضہ ہے؟ ان حکمرانوں کی ذہنی حالت کا اندازہ نواز شریف کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب میں انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا تو پاکستان میں کیوں لیا جائے؟ محدود وژن! دور اندیشی سے عاری! سوچنے کا کام معدے سے لینے والے حکمران! بیٹیوں کو شہزادیاں اور بیٹوں کو ولی عہد بنانے والے حکمران! آصف زرداری نے اس قوم کے رخسار پر طمانچہ مارا ہے، یہ کہہ کر کہ مستقبل بلاول اور مریم کا ہے! کسی کی غیرت نہ جاگی کہ للکارتا! کسی سیاست دان، کسی حکمران، کسی دانش ور نے اس اعلان پر نوحہ خوانی نہیں کی! ہاں!مستقبل مریم اور بلاول کا ہے! کیوں کہ ان کے علاوہ جو بھی ہیں، کمی کمین ہیں! ان کا کوئی حق نہیں! یہ ملک بلاول اور مریم کو وارثت میں ملا ہے۔ جیسے بادشاہ مرنے سے پہلے ملک کو اولاد میں بانٹ جاتے تھے! جمہوریت جمہوریت کا وِرد کرنے والے نام نہاد سفید سر، پارٹی ارکان، ہاتھ باندھ کر بلاول اور مریم کے سامنے کھڑے ہیں۔ عمریں گزر گئیں خواجہ آصف جیسے لوگوں کو کوچہ سیاست میں خاک اڑاتے، مگر مائک مریم کے سامنے ہوتا ہے اور یہ برف جیسے بال سروں پر لادے آمنا و صدقنا کہہ رہے ہوتے ہیں!حبیب جالب کے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ؎تم سے پہلے وہ جواک شخص یہاں تخت نشیں تھااس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھاکوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائووہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھانصرت بھٹو نے تکبر کے آسمان سے نیچے دیکھتے ہوئے، نخوت سے کہا تھاBhutto are born to ruleبھٹو خاندان کے چشم چراغ پیدا ہی حکمرانی کے لئے ہوتے ہیں! آج کسی بھٹو کا وجود ہی نہیں نظر آتا۔ آصف زرداری بھٹو ہے نہ فریال تالپور صاحبہ بھٹو ہیں نہ ہی بلاول! لاکھ بھٹو کا لاحقہ استعمال کریں، بلاول بھٹو نہیں ہو سکتا! وہ نصرت بھٹو کا پوتا نہیں! حاکم علی زرداری کا پوتا ہے! نصرت بھٹو جب اعلان کر رہی تھیں کہ حکمرانی بھٹو خاندان کے لئے مخصوص ہے تو آسمانوں پر فرشتے مسکرا رہے تھے عما درچہ خیالیم و فلک درچہ خیالہم کچھ اور سوچتے ہیں اور فلک کی گردش نے کچھ اور ٹھان رکھی ہوتی ہے!برامکہ میں سے جعفر برمکی تھا یا یحییٰ، ایسا محل بنوایا کہ خلیفہ نے بھی نہ سوچا ہو گا!دولت مند تو ہم پرست اور ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ نجومیوں سے پوچھا اور زائچے بنوائے کہ کب منتقل ہو۔ پھر ایک "نیک ساعت" متعین ہوئی۔ آدھی رات کو نئے محل میں اترا۔ عین اسی وقت گلی میں سے کوئی یہ شعر پڑھتے ہوئے گزرا:تد بر بالنجوم ولست تدریو رب النجم یفعل مایشاء"تو ستاروں کی مدد سے تدبیریں کرتا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں جانتا! جس نے ستاروں کو پیدا کیا ہے۔ وہ تو سب کچھ اپنی مرضی سے کرتا ہے!"تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ بساط الٹ گئی۔ معمر قذافی سے لے کر حسنی مبارک تک سب نے کیا کیا نہ کوششیں کیں کہ ان کے بعد ان کے بیٹے تخت نشین ہوں۔ کوئی قتل ہوا کوئی پنجروں میں قید!کس نے سوچا تھا کہ محمد بن سلمان حکمران ہو گا اور صرف زمانے کی گردش کو معلوم ہے کہ کل محمد بن سلمان کہاں ہو گا۔ مریم صفدر آج کل اس زعم میں ہیں کہ دنیا ان کے سامنے ہیچ ہے اور کرہ ارض پر ان کے سوا اور ان کے والد کے سوا کسی کی کوئی اہمیت نہیں! ٹول ٹیکس لینے والے اہلکاروں کو حقارت سے دیکھ کر، ملک کے قوانین پائے غرور کے نیچے روندتی ہیں! دولت بے پناہ ہے۔ بے حساب! ہر روز سونے کے نوالے کھائیں پھر بھی نسلوں تک چلے، سکیورٹی کے حصار اندر حصار ہیں! نہایت خلوص سے سمجھتی ہیں کہ یہ ملک ان کی جاگیر ہے، فیکٹری ہے۔ آئے دن اعلان کرتی ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے! کوئی اتنی بڑی بڑ بھی ہانک سکتا ہے؟ گویا میاں صاحب کو صرف اسی لئے دنیا میں بھیجا گیا کہ اس بھوکے ننگے مقروض، ناخواندہ، غریب ملک پر بار بار، بار بار، حکمرانی کریں۔ بنو عباس نے امویوں کی لاشوں پر قالینیں بچھائیں اور مرغن کھانے اڑائے۔ اس پروردگار کی قسم! جو عزت داروں کو ذلیل کرتا ہے اور بِھک منگوں کو سلطنتیں عطا کرتا ہے’ شریف خاندان کا بس چلے تو اس ملک کے آئین میں اپنے کم سن بچوں کے نام حکمرانوں کے طور پر داخل کر دیں! اب تو ان لوگوں نے کھلم کھلا یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ فلاں ملک میں بھی کرپشن ہے اور فلاں ملک میں بھی! کوئی ان سے پوچھے کہ تم لوگوں نے اپنے اپنے لئے جو وطن چنے ہیں، دبئی اور برطانیہ، امریکہ اور فرانس۔ کیا وہاں بھی کرپشن ہے؟ حکومت تاجروں سے ٹیکس لینا چاہتی ہے۔ قانون یہی کہتا ہے مگر تاجر مان کر نہیں دیتے۔ یہ کالم نگار ایک مدت سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے تاجر خدا سے ڈرتے ہیں نہ خلق خدا سے!مذہب کو بھی کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔ کوئی ہے جو انکار کرے کہ اس ملک میں ملاوٹ زوروں پر ہے؟ کم تولا جاتا ہے کم ماپا جاتا ہے۔ ایک بار پھر سن لیجیے پاکستانی تاجر کمال بے حیائی سے، بھر پور ڈھٹائی سے سات خوفناک جرائم کا ارتکاب کر رہاہے، رات دن کر رہا ہے اور ڈنکے کی چوٹ کر رہا ہے۔ اول۔ شے بیچتے وقت نقص نہیں بتاتا بلکہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے۔ دوم ٹیکس نہیں دیتا اور ٹیکس اہلکاروں کو کرپٹ کرتا ہے۔ سوم۔ وعدہ خلاف ہے۔ وقت پر مال سپلائی کرتا ہے نہ گاہکوں کو پھیرے لگوانے میں شرم محسوس کرتا ہے!چہارم۔ تجارت کا کم و بیش، یہی گنہگار ہے۔ فٹ پاتھ، دکانوں کے آگے سرکاری زمین، آدھی آدھی سڑکیں، گلی کوچے، سب اس کے ناجائز قبضے میں ہیں۔ آمدنی اس تجاوزات گردی سے اس کی مشکوک ہے۔ پنجم اوقات کار میں مکمل ملک دشمنی پر تلا ہے! ظہر کے وقت بازار کھلتے ہیں اور آدھی رات تک توانائی ضائع ہوتی ہے۔ ششم!کوئی ایک تاجر مجرم ہونے کی بنا پر پکڑا جائے تو اس کی حمایت میں کووں کی طرح یک جان ہو کر قانون کو پائوں تلے روندتے ہیں اور ہفتم! سب سے بڑا جرم یہ کہ مذہب کو تجارت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مذہب فروشوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ نیک بن کر خلق خدا کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ملک جھوٹ، ٹیکس چوری، بدمعاشی، ملاوٹ، چور بازار اور قانون شکنی سے اٹا پڑا ہو حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہوں ایسے میں ڈالر روپے کے برابر بھی ہو جائے تو ملک ترقی یافتہ ہو سکتا ہے نہ قوموں کی برادری میں معزز!