بٹوا صرف میری جیب میں رہے گا
یادش بخیر!کل شہباز شریف بہت یاد آئے!اپنے وقت کے شیر شاہ سوری!آہ! اصل شیر شاہ سوری کو وہ دریا دل لکھاری نہ نصیب ہوئے جو تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے! شہباز شریف قسمت کے دھنی تھے۔ عاقصائے چیں سے تابہ سوادِ طرابلسان کی پنجاب سپیڈ کے چرچے ہوئے۔ تصویر یہ پیش کی گئی کہ پورا پنجاب ترقی کے آسمان پر چڑھ کر کہکشائوں میں شامل ہو گیا ہے۔ یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ جس طرف سے بھی صوبے میں داخل ہوں حیران کن ترقی نظر آتی ہے!کل پنڈی بھٹیاں سے چنیوٹ جانا پڑا اور چودہ طبق روشن ہو گئے۔ 35کلو میٹر کا یہ فاصلہ ثابت کرتا ہے کہ منظم تشہیر کس طرح سیاہ کو سفید بنا کر پیش کرتی ہے اور پھر مسلسل اصرارکس طرح لوگوں کو قائل کر دیتا ہے کہ سیاہ ہی سفید ہے۔ یعنی جھوٹ بولو اور اس قدر تسلسل سے بولو کہ سچ بن جائے۔ مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ شاہراہ جسے شاہراہ، کہنا لغت میں شاہراہ کا معنی تبدیل کرنے کی واردات ہو گی، شیر شاہ سوری صاحب کے 2008ء میں تخت نشین ہونے کے بعد "بنائی" گئی کچھ عرصہ بعد یہ بہہ گئی تب سے آج تک عوام اس پر دھکے کھا رہے ہیں۔ گاڑیوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہو رہے ہیں۔ دوران سفر پسلیاں پھیپھڑوں کی اور پھیپھڑے انتڑیوں کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے آگے کا حال بدتر ہے۔ چنیوٹ سے سرگودھا جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ شیر شاہ سوری سہسرام میں واقع اپنے مقبرے سے اٹھا لاہور آیا اور پھر لاہور ہی رہا۔ لاہور سے باہر نہیں نکلا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ فردِ واحد پورے ملک کے اور پورے صوبے کے کام کر سکتا ہے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک صوبوں میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟ صوبے ڈویژنوں، ڈویژن ضلعوں، ضلعے تحصیلوں اور تحصیلیں یونین کونسلوں میں کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں؟ اس لیے کہ فرد واحد پورا ملک نہیں چلا سکتا، فرد واحد صوبے کا وزیر اعلیٰ تو بن سکتا ہے مگر پورے صوبے کا انتظام و انصرام نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ایک ڈویژن بھی فرد واحد(یعنی کمشنر) پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس ڈویژن کو بھی اضلاع میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ ہر ضلع ایک والی کے سپرد کیا جاتا ہے اسے ڈپٹی کمشنر کہیے یا ضلع ناظم! پھر اس ضلع کو مزید اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے! یہ کامن سینس کی بات ہے اس نکتے کو سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ ہارورڈ سے ایم بی اے کرنے کی نہ کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے کی۔ فرض کیجئے پنجاب کے ہر ضلع میں شہباز شریف صاحب کی ایک فیکٹری ہے۔ یوں 36اضلاع میں ان کی 36فیکٹریاں ہوئیں! آپ کا کیا خیال ہے یہ فیکٹریاں وہ کس طرح چلائیں گے؟ جیسے صوبہ چلاتے رہے ہیں؟ کیا وہ ہر فیکٹری کو ایک مقامی ڈائریکٹر یا منیجر کے حوالے نہیں کریں گے؟ کیا اسے فیکٹری چلانے کا اختیار نہیں دیں گے؟ کیا منیجر کو ایک ایک روپے کے لئے ایک ایک مزدور کو بھرتی کرنے یا نکالنے کے لئے ایک ایک مشین کی مرمت کے لئے، ایک ایک شیڈ ایک ایک برآمدے، ایک ایک کمرے میں سوئچ تبدیل کرنے کے لئے لاہور سے پوچھنا پڑے گا؟ نہیں !شہباز شریف، یا کوئی بھی صنعت کار اچھی طرح جانتا ہے کہ اس طرح فیکٹریاں نہیں چل سکتیں چلیں بھی تو ان کے چلنے کی رفتار ایک بے بضاعت کیڑے کی رفتار سے زیادہ نہیں ہو گی! فیکٹری کے مقامی سربراہ کو اختیارات دینے پڑیں گے پھر اس سے حساب لینا ہو گا کہ ان اختیارات کا استعمال اس نے کیسے کیا؟ پھر وہ ہر ماہ یا ہر پندرہ دن بعد، یا ممکن ہے ہر ہفتے 36کی 36فیکٹریوں کے سربراہوں سے میٹنگ کریں گے۔ پچھلے ہفتے کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ کسی کو سرزنش کریں گے، کسی کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے مگر یہ طے ہے کہ طاقت کے ارتکاز سے نہیں، اختیارات کی تفویض سے صنعت چل سکے گی!یہ جودنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹس)کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتے تو یہ نتیجہ صدیوں کے تجربے کے بعد نکالا گیا۔ میونسپل خود مختاری جدید نظام حکومت کا مرکزی ستون ہے۔ یہ جو ترقی پاکستان میں لولی لنگڑی اور اندھی نکلتی ہے تو اس کی وجہ مقامی حکومتوں کا بے دست و پا ہونا ہے۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور میں شاہراہیں بن جاتی ہیں مگر صوابی، مانسہرہ، پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ، دادو اور تھرپارکر میں نہیں بنتیں اس لیے نہیں بنتیں کہ اختیارات اور وسائل اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور کے آہنی ہاتھوں میں مرکوز ہیں۔ وہ جو دادو، تھرپارکر، صوابی، مانسہرہ، پنڈی بھٹیاں اور چنیوٹ میں بیٹھے ہیں، انہیں ہر سانس لینے کے لئے پانی کا ہر گھونٹ بھرنے کے لئے اور ہر قدم اٹھانے کے لئے کراچی، لاہور اور پشاور کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ وہاں سے ابرو کا اشارہ ہو یا انگلی کا اشارہ لازم ہے۔ یہ اشارہ کبھی ہاں میں ہوتا کبھی نہ میں!شہباز شریف صاحب کو تاریخ کا ادراک ہوتا تو کابینہ اور اسمبلی کو عضوِ معطل میں تبدیل نہ کرتے۔ طاقت ور مقامی حکومتیں تشکیل کرتے۔ انہیں ٹارگٹ دیتے پھر یہ ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے اختیارات دیتے۔ ان مقامی حکومتوں کے پاس وسائل ہوتے۔ پھر ٹارگٹ حاصل نہ ہوتے تو سزائیں دیتے۔ صوبے کی حالت بدل جاتی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک وزیر اعلیٰ 36اضلاع میں اور سینکڑوں تحصیلوں میں ترقیاتی کام کروا سکتا! وسائل کے ارتکاز ہی کا نتیجہ ہے کہ آج لاہور کی شاہراہیں قابل رشک ہیں۔ جب کہ صوبے کے باقی اضلاع کی سڑکیں گڑھوں، کھڈوں، نالیوں، کھنڈرات اور پیوند کاری پر مشتمل ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں عموماً، تین اقسام کی حکومتیں ہیں۔ مرکزی، صوبائی، اور مقامی (جسے امریکہ میں کائونٹی کہتے ہیں )۔ ان تینوں حکومتوں کے فرائض وضاحت سے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی ابہام ہوتا ہے نہ غلط فہمی! صوبہ مقامی حکومتوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتا اور مرکز صوبوں کے مسئلوں میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ یہی حال وسائل کی تقسیم کا ہے۔ یہاں یہ حال ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کراچی اور لاہور نے کرنا ہے! مقامی حکومتوں کے انتخابات تک میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں!ان حکومتوں کی تشکیل ہو جائے تو ایک ایک روپے کے لئے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے! اتنی مضحکہ خیز صورت حال میں اضلاع، ڈویژن اور تحصیلوں کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ناممکنات میں سے ہے!سو سوالوں کا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اور بزدار صاحب ماضی سے سبق سیکھ کر اختیار کے ارتکاز سے جان چھڑائیں گے؟ یا تخت لاہور، تخت لاہور ہی رہے گا اور صرف تخت پر بیٹھنے والے کا نام تبدیل ہو گا؟