بے شعور ذہانت!
دس ہزار سال قبل شروع ہونے والے زرعی انقلاب سے اب تک انسانی تاریخ تین بڑے شعبوں کے گرد گھومتی ہے، زراعت، صنعت اور خدمات۔ زرعی شعبے کا دورانیہ سب سے طویل رہا ہے، یہ دور اٹھارویں صدی کے اختتام تک باقی رہا، اٹھارویں صدی کے اختتا م پر یورپ میں صنعتی انقلاب نے پر پرزے نکالنے شروع کیے، یہ دور بیسویں صدی کے اختتام تک اپنے عروج پر تھا، بیسویں صدی کے آخر میں خدمات کے نام سے ایک نیا شعبہ انگڑائیاں لے رہا تھا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اس نے دوسرے دونوں شعبوں کو پیچھے چھوڑ دیا، آج خدمات کا شعبہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت کم لوگ زراعت و صنعت کے شعبوں سے وابستہ ہیں، ا ن کی اکثریت خدمات کے میدان میں کام کر رہی ہے اور آنے والی دہائیوں میں یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہو جائے گا، اس کے بعد کیا ہوگا، کروڑوں اربوں انسان جن کا روزگار خدمات کے شعبے سے وابستہ ہے ان کا مستقبل کیا ہوگا، یہ بہت خطرناک اور الارمنگ سوال ہے مگر فی الحال ہم اس سوال کی طرف نہیں جائیں گے۔ یہ سب کیسے ممکن ہو گا اور لاکھوں کروڑوں انسان کیسے بے روزگا ہوجائیں گے؟ اس کا سادہ سا جواب ذہانت اور شعور کی علیحدگی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک ذہانت اور شعور دونوں مل کر کام کر رہے تھے، ذہین اور باشعور افراد ہی اہم کام سرانجام دے سکتے تھے، تدریس کر سکتے تھے، ڈاکٹر بن سکتے تھے، بیماری کی تشخیص کر سکتے تھے، جج اور وکیل بن سکتے تھے، ڈرائیور بن سکتے تھے اور ہوائی جہاز اڑا سکتے تھے مگر اکسیویں صدی کے آغاز اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی ایجاد سے مصنوعی ذہانت نے یہ کام انسانوں سے بہتر طور پر سرانجام دینے شروع کر دیے۔ فلسفیانہ حد تک یہ بحث ہو سکتی ہے کہ ذہانت اور شعور میں سے کون زیادہ اہم ہے مگر عملی طور پر یہ بحث اب لاتعلق ہو چکی ہے۔ ایک انسان، ہو سکتا ہے بہت اچھا ڈرائیور ہو، ذہانت اور شعور دونوں رکھتا ہو، دوران سفر آپ کا دل بہلا سکتا ہو اور آپ کے ساتھ سفر میں اچھی گپ شپ کر سکتا ہو مگرآج انسانیت اس باشعور اور ذہین ڈرائیور کی بجائے ایسے ڈرائیور کو ترجیح دے گی جو اسے بروقت، تیزی سے اور انتہائی سستی قیمت پر منزل مقصود تک پہنچا دے اور یہ کام مصنوعی ذہانت خو د کار گاڑیوں کے ذریعے بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ باشعور اور ذہین ڈرائیور آپ کو کسی حادثے کا شکار کر دے اورآپ جان سے چلے جائیں مگر بے شعور مصنوعی ذہانت آپ کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گی، اگر آج کمپیوٹر الگوردھم کے ذریعے تمام گاڑیوں کو ایک نیٹ ورک کے ساتھ مربوط کر دیا جائے تو ٹریفک حادثات کے امکانات بالکل معدوم ہو سکتے ہیں۔
ایسا ایک تجربہ گوگل 2015میں کر چکا ہے، 2015 میں گوگل نے ایک خود کار گاڑی تجربے کے لیے روڈ پر چلائی، جب یہ گاڑی ایک اشارے پر پہنچی تو اس نے سڑک عبور کر نے والے مسافروں کو دیکھ کر بریک لگا دی، اسی لمحے پیچھے سے آنے والی ایک گاڑی نے اسے زور سے ٹکر ماری جس کاباشعور اور ذہین ڈرائیور اپنی ہی دنیا میں مست اور سامنے والی گاڑی سے بے خبر تھا، یہاں اگر دونوں گاڑیوں کو کمپیوٹر الگوردھم کے ذریعے مربوط کر دیا جاتا تو یہ حادثہ ہرگز پیش نہ آتا۔ اگر مستقبل میں ایسا ہوتا ہے اور بے شعور مصنوعی ذہانت بہترین طریقے سے ڈرائیونگ کی خدمات سر انجام دے سکتی ہے تو ایک لمحے کے لیے سوچیں دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ڈرائیورز کا مستقبل کیا ہو گا۔ آپ بے شعور مصنوعی ذہانت کو دوسرے شعبوں کے تناظر میں دیکھ لیں، 23 اپریل 2013 کو چند ہیکروں نے مشہور نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ہیک کر کے ایک بج کر سات منٹ پر یہ خبر چلا دی کہ وائٹ ہاؤس میزائل حملوں کی زد میں ہے اور صدر اوبامہ زخمی ہو چکے ہیں، تجارتی الگوردھم جو خبروں پر مامور تھیں انہوں نے فوری طور پرعمل ظاہر کیا اور دھڑا دھڑ حصص فروخت ہو نے لگے، صرف ساٹھ سیکنڈ میں ڈاؤ جونز کو ایک سو چھتیس ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا، صرف تین منٹ بعد ایک بج کر دس منٹ پر ایسو سی ایٹڈ پریس نے تصحیح کی کہ خبر جھوٹی ہے اوریہ ہیکرز کا کام تھا، صرف تین منٹ میں ڈاؤ جونز اپنا سارا نقصان پورا کر چکا تھا۔ چھ مئی دو ہزار دس کو ڈاؤجونز کو اس سے بھی زیادہ تقریباً ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوا اور اگلے ہی لمحے صرف تین منٹ میں وہ کھویاہوا سارا سرمایہ واپس آ گیا۔ یہ سب کیا ہے، یہ بے شعور ذہانت کا کیا دھرا ہے اور آنے والے زمانے میں یہ بے شعور ذہانت انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے کار کر دے گی۔
جو ذہانت ڈرائیوروں اور اسٹاک ایکسچینج کے شعبوں میں اپنا اثر دکھا رہی ہے وہ دوسرے شعبوں سے کیسے اجتناب کر سکتی ہے، مثلاً میں بیمار ہوتا ہوں اور علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، ڈاکٹر میرے مرض کی تشخیص کے لیے پہلے ٹیسٹ کرے گا، ہو سکتا ہے مجھے ملیریا، ڈینگی، اسہال، معدے کا کوئی مرض، ہیضہ یا کینسر ہو مگر ڈاکٹر کو یہ تشخیص کرنے میں کافی وقت لگے گا، وہ مجھ سے مرض کے بارے میں سوال کرے گا، میری پچھلی طبی ہسٹری دیکھے گا اور مختلف علامات اور شواہد کی بنا پر کسی ایک بیماری کی تشخیص کر دے گا، پھر بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے درست تشخیص کی۔ جبکہ بے شعور ذہانت کمپیوٹر الگوردھم کی مدد سے میرے مرض کی درست تشخیص اوربہترین علاج چند سیکنڈ میں سر انجام دے سکتی ہے، ڈاکٹر بیک وقت تمام بیماریوں اور ان کی دواؤں سے واقف نہیں، اس کے پاس میری طبی ہسٹری اور ٹیسٹوں کا ریکارڈ بھی موجود نہیں، اس کے ساتھ اسے انسانی عوارض مثلا بھوک پیاس، خوشی غم بھی لاحق ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ درست تشخیص نہیں کر سکتا۔
سوچیں اگر مستقبل میں طب کے شعبے میں یہ انقلا ب برپا ہوتا ہے تو لاکھوں روپے لگا کر، نوے فیصد سے زائد نمبر، انٹری ٹیسٹ کے بکھیڑوں اور زندگی کے بہترین چھ سال لگا کر جو ڈاکٹر بنے ہیں ان کا کیا بنے گا۔ جو ذہانت طب کے شعبے میں تہلکہ مچا سکتی ہے وہ عدالتوں کو کیوں متاثر نہیں کرے گی، آج اکثروکیل اپنا سارا دن ایسی فائلوں کی تلاش میں کھپا دیتے ہیں جس میں کسی کیس کے ثبوت درکار ہوتے ہیں، کسی قاتل کی سابقہ ہسٹری ڈھونڈنی ہوتی ہے یا کسی ایسے معاہدے کی تلاش ہوتی ہے جس میں ان کے مؤکل کو فائدہ پہنچ رہا ہومگرجب بے شعور ذہانت کمپیوٹر الگوردھم کی مدد سے سارا کام چند لمحوں میں کر دے گی تو وکیلوں کے چکر میں کون پڑے گا۔ جب ماہرین دماغی اسکین کا بٹن دبا کرفورا جھوٹ اور سچ کا پتا لگا لیں گے تو عدالتوں میں کون جائے گا۔ جو ذہانت جیل اور عدالتوں کو متاثر کر سکتی ہے وہ تعلیم کے شعبے کو کیسے متاثر نہیں کرے گی، مغرب میں کچھ کمپنیاں ایسے الگوردھم بنا رہی ہیں جو مختلف سبجیکٹ انسانوں سے زیادہ بہتر انداز میں پڑھا سکیں گے، وہ یہ تک محسوس کر لیں گے کہ کس سبجیکٹ میں میری دلچسپی برقرار ہے اور کس سبجیکٹ میں میری آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ اگر میں سورہاہوں تو یہ پڑھانا بند کر دیں گے اور میرے مزاج کے مطابق پڑھائیں گے، یہ مجھ پر چیخیں چلائیں گے اور نہ ہی مجھ پر غصہ کریں گے۔ جو ذہانت تعلیم جیسے اہم شعبے کو متاثر کر سکتی ہے تو وہ دوسرے غیر اہم شعبوں کو کیسے چھوڑے گی اور جب یہ سب ہوگا تو انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا، یہ اکیسویں صدی کا سب سے اہم سوال ہے۔