Saturday, 26 October 2024
  1.  Home
  2. Mazhar Lashari
  3. Agha Shorish Kashmiri, Aik Ehad Ka Naam

Agha Shorish Kashmiri, Aik Ehad Ka Naam

آغا شورش کاشمیری، ایک عہد کا نام

غالباً 1974 کے اولین ایام تھے کہ لاہور میں اُس زمانے کے انتہائی با رعب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں ایک بڑا سیمینار منعقد ہو رہا تھا آپ کو معلوم ہے کہ سابق ڈکٹیٹر اورملک میں پہلا مارشل لاء لگانے والے سابق صدر ایوب خان تھے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے انتہائی ذہین اور زیرک سیاست دان ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے سر شاہ نواز خان بھٹو جو ریاست جو نا گڑھ کے تمام امور کے نگران اعلیٰ رہ چکے تھے وہٰ ذوالفقار علی بھٹو کے والد گرامی تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو سیاست ورثے میں ملی تھی اپنے دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا اور پھر 1965ئ؁ کی جنگ کے بعد روس میں معاہدہ تا شقفدہ کے بعد ایوب خان کی کابینہ سے وزارت خارجہ سے مستعفی ہو کر بھٹو نے میدان سیاست کا رُخ کیا اور وہ آیا اور "وہ چھا گیا "تو یہ مثال ذوالفقار علی بھٹو پر سچی ثابت ہوئی لیکن ایوب خان کے خلاف اُس وقت صرف دو بڑے صحافیوں نے بھٹو کا ساتھ دیا اُن میں خطیب پاکستان حریت فکر اور ختم نبوت کے مجاہد جناب آغا شورش کاشمیری اور نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ جناب مجید نظامی شامل تھے۔

آغا شورش کاشمیری چونکہ ایک بہت بڑے خطیب اور شاعر بھی تھے اس لیے اُنہوں نے اپنے انداز میں بھٹو کا ساتھ دیا لیکن افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بعد میں اپنے دور اقتدار میں آغا شورش کاشمیری پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور اُن کو نظر بند بھی کیا گیا لیکن اِس مرد مجاہد نے اپنی للکار طاغوتی طاقتوں کے خلاف جاری رکھی یہاں تک کہ 1974 کے دوران علماء کرام اور دینی جماعتوں نے قادنیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے بھٹو حکومت پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔

اِس طرح کا ایک واقعہ کچھ اس طرح سے رونما ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے شورش کاشمیری کے بعد خطاب شروع کیا تو اِس دوران اچانک مجاہد ختم نبوت شورش کاشمیری سٹیج سے اُٹھے اور اپنی ٹوپی اُتار کر بھٹو کے قدموں میں رکھ دی یہ دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر چھوڑ دی اور آغا شورش کاشمیری کی ٹوپی اوپر اُٹھا لی اور بڑے پریشان ہو کر کہا کہ آغا صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں کہ شورش کاشمیری نے یکدم اپنی جھولی پھیلا دی اور آبدید ہو کر کہا کہ بھٹو صاحب میں آپ سے اور کچھ نہیں مانگتا یہ سر اور ٹوپی آج تک حکومت برطانیہ سے لے کر وقت کے کسی بھی جابر سلطان کے سامنے نہیں جھکا آج میں آپ سے صرف اس لیے یہ التجا کر رہا ہوں کہ میرے آقا، جناب رسالت مآب ﷺ کی ختم نبوت کے منکرین کو اقلیت قرار دو۔

یہ بات حضرت آغا شورش کاشمیری نے ایسی تڑپ اور پر جوش جذبہ ایمانی کے ساتھ بھٹو کو مخاطب ہو کر کہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو خود بھی تڑپ اُٹھا اور بعد میں اپنے خاص دوستوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے بتایا تھا کہ آغا شورش نے مجھ جیسے سیاہ کار اور گنہگار شخص کو جب یہ بات کہی تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اور میں نے اُس دن تہیہ کر لیا تھا کہ اب پورے دلائل کے بعد قادنیوں کا فیصلہ ہونا چاہیے اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ 7 ستمبر 1974 کوذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قادنیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تھا۔

یہ بڑے نصیب کے ہیں فیصلے اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے یہ کام آغا شورش کاشمیری، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمد اسحاق امر تسری، امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری اور حضرت انور شاہ کاشمیری جیسے عظیم ترین انسانوں اور علماء کرام سے لینا تھا اور پھر اِس عظیم کام میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے حصے کی شمع روشن کر دی۔

یہ تھے حضرت آغا شورش کاشمیری کہ جن کے دل میں حضور اقدس ﷺ کی محبت اور عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں کہ آغا شورش کاشمیری کو اللہ تعالیٰ نے جو جرأت اور بہادری دی تھی تو یہ صرف اور صرف عشق رسول ﷺ کی برکت سے تھی اُن کو اِس دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نے بڑا مقام عطا کر دیا تھا تو یہ بھی صرف اور صرف ختم نبوت کی وجہ سے تھا وگرنہ حضرت شورش کاشمیری کے زمانے میں اور کتنے بڑے بڑے خطیب، ادیب اور صحافی موجود تھے لیکن شورش کی ایک للکار بڑے بڑے لوگوں پر تجلی کو ہِ توربن کر گرتی اور وہ وہی جل کر راکھ ہو جایا کرتے تھے۔

1935 میں مسجد شہید گنج کے مسئلہ پر بادشاہی مسجد میں حکومت برطانیہ کے خلاف تقریر کرنے والا نوجوان عبدالکریم الفت سے شورش کاشمیری بنا اور پھر اُس شورش کاشمیری نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے ہی آگے طوفان کی طرح بڑھتا گیا اور چٹان کی طرح ہر ضرب سہتا گیا یہاں تک ایک جبرا اسقداد کے خلاف ایک ایسی چٹان ثابت ہوا کہ اپنے اخبار کو بھی صحیح معنوں میں چٹان ہی بناکر دم لیا سب کو حیران و پریشان کر دیا۔

شورش کاشمیری ایک عہد کا نام ہے ایک تحریک کا نام ہے اور مجاہد ختم نبوت کا نام ہے آج 25 اکتوبر کو اُن کی 49 برسی منائی جا رہی ہے۔ حکومتیں ویسے شورش سے گھبرا جایا کرتی تھیں اب کون شورش کی برسی پہ سیمینار کرائے گا اور ویسے بھی ایسے نا بالغہ روز گار لوگوں کو حکومتی سیمینار کی کوئی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور ہم تو ویسے ہی محسن کُش ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی ختم نبوت کے صدقے شورش کو پہلے کی طرح زندہ رکھا ہوا ہے اور پھربلھے شاہ نے تو اُسے اپنے سمیت شورش جیسے درویش صفت لوگوں کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور

Check Also

Market First Ka Advantage

By Maaz Bin Mahmood