Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Maryam Arshad
  3. Masla Sara Iqtisadi Hai

Masla Sara Iqtisadi Hai

مسئلہ سارا اقتصادی ہے

پاکستان کے سارے مسائل اقتصادی اور معاشی ہیں۔ اگر اقتصادی استحکام ہوتا تو یہ مشکلیں قدرے کم ہوتیں۔ اِن دنوں موسم اور سیاسی گرما گرمی دونوں عروج پر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاسی بارش رْکتی نہیں۔ 1935 کے زمانے میں مصطفیٰ کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی اْبھر رہے تھے۔ اس دور میں دونوں نے مغربی مداخلتوں کو کم کیا۔ اسی دور میں ہندوستان میں بہت سے مسلمان کانگریس کے ہمدرد تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہی مسلمانوں میں یہ احساس بھی پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا کہ کانگریس دراصل اْن سے کام تو لینا چاہتی ہے مگر اْن کے حقوق سے غافل بھی ہے۔

ترکیہ اور ایران والے بہت پہلے ہی مغرب کی چالوں کو سمجھ گئے تھے۔ ان کی سیاست کے پردے میں چھپی ہوئی عیاریوں کو جان چکے تھے۔ حتیٰ کہ مغرب والے خود بھی حیرت زدہ تھے کہ ان کی چالبازیوں کو سمجھنے کا شعور کیسے پیدا ہوگیا۔ اس کے بعد کا زمانہ تبدیلیوں سے گزرا۔ پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے۔ آج کے دور میں مغربی سیاست کی مکاریاں تو عیاں ہو چکیں۔

چین اور بھارت بیدار ہو چکا۔ لیکن پاکستان ابھی تک منتشر ہے۔ قوم کو زندہ رکھنے کے عشق کی وہ آگ بْجھ چکی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ قوموں کی تاریخ دیکھیں تو سخت محنت کے بغیر کبھی خوب صورت نقش نہیں اْبھرے۔ کسی نغمے یا گیت ہی کو دیکھ لیجیے۔ جب تک فن کار کے خون جگر کی آمیزش نہیں ہوتی تو اچھی دْھنیں تخلیق نہیں ہوتیں۔ مصور بھی جب تک اپنی دن رات کی محنت کو اپنے کینوس پر نہیں بکھیر لیتا شاہکار تخلیق نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب تک قوم انتہائی جذبے اور لگن سے کام نہیں کرتی تو وہ آئیڈیل معاشرہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔

آج ہم دن اور رات کے چکر میں کچھ اس طرح سے جکڑے ہوئے ہیں کہ مادی زندگی سے ہٹ کر کسی اور چیز کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ "روٹی بندہ کھا جاندی اے" کے مترادف بحیثیت مجموعی سیاسی اور معاشی ابتری کے دور میں اکثر دل میں خیال آتا ہے کہ خدا سے پوچھوں یا اللہ! یہ تیرے پْر اسرار بندوں کا راز کیا ہے؟ کیا حقیقت میں تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا کسی اور کی؟ ہم مشرق میں بسنے والے مغرب کے گوروں کے پجاری ہیں۔ اس طرح تو ہم اپنی اپنی غرض کے بندے ہوئے ناں۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا نے بھی علم و ہْنر کا ایک طوفان بپا کیا ہوا ہے۔ اس کا بہت سارا امواد تو مادیت اور دکھاوے پر استوار ہے۔ یہ دکھاوا لوگوں کو ایک ایسی کشمکش میں مْبتلا کر دیتا ہے جہاں کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ زندگی ایک گھن چکر بن کر رہ گئی ہے۔ مغرب والے تو مادی آسائشوں، سونا، چاندی اور دولت کو پوجتے ہیں۔ ٹیلی فونز پر فرضی خریدو فروخت ہونے کی وجہ سے اچانک کئی لوگ بہت سے پیسے کما لیتے ہیں اور بہت سوں کا پیسہ ڈوب جاتا ہے۔

قانون کی بالا دستی کہیں نہیں ہے۔ مغرب کے سرمایہ دار اپنی مکاری سے غریب ملکوں کو رْسوا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ (یا خْدا! تیرے یہ بندے جو اس ملک میں بستے ہیں تیرے نام لیوا ہیں۔) افسوس! وطنِ عزیز میں بھی ایسا ہی نظام جاری ہے۔ پلاٹوں کی خرید کاری کاغذوں سے شروع ہوتی ہے اور بتدریج ویلیو بڑھنے کے ساتھ پیسہ بھی بڑھتا ہے۔ مگر اس دوران کاغذی کارروائی سے منجمد شدہ پیسہ پلاٹوں کے مافیاز کے زیرِ استعمال رہتا ہے۔ ہر طرف سرمایہ دار چھائے ہوئے ہیں۔

محنت مزدوری کرکے روزی کمانے والے لوگ تلخ زندگی گزارتے ہیں اور سرمایہ دار ان کی محنت سے دولت کماتے ہیں۔ نجانے یہ نظام کب غرق ہوگا؟ کب مزدوروں او رکسانوں کی آواز سْنی جائے گی؟ کب عدل کا وہ نظام قائم ہوگا کہ سرمایہ دار کو اس کے ظلم کا حساب دینا پڑے گا؟ امیر لوگ تو محلوں میں رہتے ہیں۔ غریب گلی کْوچوں میں روٹی کے لیے رْل رہا ہے۔ یعنی بدستور اشرافیہ ہر چیز پر قابض ہے اور عام غریب لوگ خوار ہوئے جاتے ہیں۔

موجودہ حالات میں پاکستان کی حالت اس تاریک رات کی طرح جس میں دور دور تک ستارے نظر نہیں آتے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے متضاد نظریات اور افکار نے عوام کو پریشان حال بنا رکھا ہے۔ اس نظریاتی تاریکی سے باہر نکلنے کا تا حال کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ سْرخ گلابوں کے اس موسم میں گلاب کالے نظر آتے ہیں۔ اس تاریک رات میں کوئی بجلی کا کوندا بھی نہیں لپک رہا کہ جس سے لوگوں کو اندھیرے سے نکلنے کا راستہ سْجھائی دے۔ جن نظریاتی گمراہیوں کا ہم شکار ہیں کون اْن سے باہر نکالے گا؟ جس جمہوریت کے ہم آج تک خواب دیکھتے آئے ہیں وہ تو کہیں ظلمتوں میں ڈوبی پڑی ہے۔ اس وقت تو شامِ غم لمبی بھی ہوگئی ہے۔

25 کروڑ عوام کو جمہوریت کی ونجلی کی مٹھری تانوں میں سے اب بغاوت کی تانیں سنائی دینے لگی ہیں۔ اب تو لگتا ہے ہمارے دامن میں صرف دعائیں بچی ہیں۔ اے خدا! تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو عدل کرتا ہے۔ لیکن تیری دنیا میں انصاف دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقی انقلاب اسی وقت آئے گا جب سرمایہ دارانہ نظام ختم ہوگا۔ مگر ایسا لیکن کب ہوگا؟ کسان سخت محنت کرکے فصل اْگاتا ہے۔ مگر اس کی محنت کا سارا پھل جاگیردار اْٹھا لے جاتا ہے۔

آج کے جدید دور میں بھی ہم اپنے کسانوں کو جدید زرعی تعلیم اور ہتھیار فراہم نہیں کر سکے۔ کوئی مردِ آفاقی کب آئے گا؟ در اصل ہمارا سارا مسئلہ اقتصادیات اور معاشیات کا ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ہم انہیں بھول بھلیوں میں گھومتے رہیں گے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

شام کا ذکر نہ کر شام کہاں ہوتی ہے

اب تو احباب کی آہوں کا دْھواں ہوتی ہے

کیوں نہ ہو عام زمانے میں اثر کا رونا

دل میں جو بات ہے وہ لب پہ کہاں ہوتی ہے

غم یہاں پر وہاں شادی ہے

مسئلہ سارا اقتصادی ہے

Check Also

Imran Ko Kon Bacha Sakta Hai?

By Najam Wali Khan