ایک صُوفی سے ملاقات
ہم محبتوں کے مارے لوگ بس راستے کی اداسیوں اور اُتار چڑھاؤ پر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں تا کہ اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے راستے کو خوب صورت بنایا جائے کیونکہ میرے خیال میں راستہ ہی منزل ہے۔ در اصل ہم سب کہیں نہ کہیں صرف خوشیوں اور کامیابیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ خوشی اور سکون کو پا لینے کے لیے بہت سی مشقیں کی جاتیں ہیں۔ کہیں مراقبہ تو کہیں واک اور کہیں خود کو کھوجنے کی تلاش میں در بدر پھرنا۔
کبھی ہم صُوفی اِزم اور کبھی معرفت کی روایتوں کا احاطہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر کسی چیز کو روایتی اور کسی غیر روایتی قرارد دیتے ہیں۔ ویسے تو خدا کی نشانیاں نفس و آفاق میں ہر دم رواں دواں ہیں۔ جس طرح جنگل میں گُلِ لالہ تنہا کھلتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی تنہا ہے۔ دونوں ہی اپنی شناخت کو منوانا چاہتے ہیں۔ مگر گُلِ لالہ کے مقابلے میں انسان کہیں زیادہ پیچید ہ واقع ہوا ہے۔
کامیابیاں اور اپنی شناخت حاصل کرنے کے لیے کبھی انسان معرفت کے رستے پر چلتا ہے تو کبھی صوفیانہ رستے پر لیکن اس راہ میں آنے والی کانٹے دار جھاڑیاں ہیں جس سے انسان کا دامن اُلجھتا ہی رہتا ہے۔ اس رستے کے متلاشیوں کو اپنے ہی اندر کے خوف کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ میں بھی اسی راستے کی وہ مُسافر ہوں جس کی آنکھیں کبھی زیادہ روشنی سے چُندھیا جاتی ہیں تو کبھی پیروں میں کانٹے چُھبتے ہیں۔
چند برس پہلے میں نے ایک کتاب خریدی تھی جس کا نام تھا "روحانیت، دانش اور حقیقتیں" مصنف کا نام قمر اقبال صوفی تھا۔ مصنف کا تعلق ضلع چکوال سے ہے۔ صوفی صاحب کی اس کتاب پر ان کا رابطہ نمبر بھی تھا۔ میں گاہے گاہے اپنی روحانی جُستجو کی پیاس بُجھانے اور چھوٹے موٹے مسائل ان سے فون پر پُوچھتی رہتی تھی۔ ملاقات کی خواہش برسوں دل میں رہی مگر کبھی اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ لیکن میرا یقین ہے کہ جب بھی اللہ کو منظور ہوتا ہے تبھی وہ کام ہوتا ہے۔ یہ کُن فیکون کے معاملات ہیں۔
چند دن پہلے ایم ایم عالم روڈ پر Subwayپر سینئر صحافی فرح ہاشمی اور چند اور علم دوست خواتین کے ساتھ قمر اقبال صوفی کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ انہیں بچپنے ہی سے مختلف علوم جیسے علم ابجد، علمِ نجوم، ہپناٹزم وغیرہ کا نہ صرف شوق تھا بلکہ پہلے انہوں نے بائبل (عہد نامہ قدیم و جدید) مثنوی روم، بھگوت گیتا مشرق و مغرب کی فلاسفی، نفسیات، مائنڈ سائنس اور روحانیت جیسے اہم ترین موضوعات پر گہرا مطالعہ کیا۔
صُوفی صاحب ایک نرم گفتار شخصیت ہیں۔ چہرے پر طمانیت کا راج تھا۔ کندھوں پر گھنگریالے بالوں میں بہت سے چاندی کے تار تھے۔ سب خواتین نے مختلف سوال کیے جن کے انہوں نے تفصیلی جواب دیے۔ صُوفی صاحب کا کہنا ہے کہ برسوں کی ریاضت کے بعد انہیں جو علم و دانش جہاں سے بھی ملی وہ بے غرضی سے سچائی کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ قمر اقبال صوفی صاحب نے اپنی اس ملاقت میں تشویش، فکر، مایوسی سے چھٹکارا پانے کے لیے چند اہم نکات بتائے جو میں اپنے قارئین کے لیے شیئر کر رہی ہوں:
دنیا وہ امتحان گاہ ہے جہاں ہم اچھا اور بُرا چُننے کے لیے آزاد ہیں۔ ہر نیک کام کی جزا اور سزا دنیا میں بھی ملتی ہے ورنہ آخرت میں تو ضرور ملے گی۔
جہالت اوربھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دلی سکون کبھی قناعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ •صبر کا مطلب مشکلات یا ظلم کو بے جا برداشت کرنا نہیں ہوتا بلکہ صبر کے معنی دل نہ چھوڑنا اور پُر امید رہنا۔ قرآن پاک میں صبر کا مطلب جمے رہنا ہے۔
اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو پسند کرتا ہے۔ ہر روز ہر کام ہر مسئلے میں اللہ کا شکر ادا کریں تو اللہ ہر چیز میں ترقی دیتا چلا جائے گا۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم صرف سچ سوچیں سچ بولیں اور سچ پر ہی عمل کریں۔ نبی کریم ﷺ نے بھی قریش مکہ کو پہلے صادق اور امین بن کر دکھایا پھر عملی پیغام شروع کیا۔ جھوٹا بندہ یا جھوٹی قوم کچھ بھی ہو دلیر نہیں ہو سکتی۔
زندگی میں مایوسی پیدا کرنے والی سب سے منفی چیز ڈر اور خوف ہے۔ ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے۔ پھر مختلف خوف انسان کے ساتھ پلتے چلے جاتے ہیں۔ ڈر و خوف کو ختم کرنا زندگی اور روحانیت کا اہم ترین سبق ہے۔ بزدل سو بار مرتا ہے، دلیر ایک بار مرتا ہے۔
قرآنِ پاک اور دینِ اسلام میں تزکیہ نفس کا حکم ہے۔ نفس کی تین قسمیں ہیں۔ نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ اور نفسِ مطمئنہ۔ نفسِ امارہ ہمیں ہر برائی کی طرف راغب کرتا ہے جیسے لالچ، حسد، فراڈ، دھوکہ اور جسمانی لذتیں۔ نفسِ لوامہ انسان کو غلط کام کرنے پر لعن طعن کرتا ہے تو انسان ندامت کا شکار رہتا ہے۔ نیک انسان نفس امارہ پر قابو پا کر آخر کار نفسِ مطمئنہ پا لیتا ہے۔
یاد رکھیں! ہر وہ کام جس میں معاشرے کو نقصان پہنچے گناہ ہے اور جس کام سے فائدہ پہنچے ثواب ہے۔
پانچوں نمازوں کی اپنے وقت پر حفاظت کرنی چاہیئے اور نفس کی بلندی سے بچنا چاہیئے۔
ضرورت سے زیادہ حساسیت سے بچیں اور گلے شکوے کو دلوں سے نکال دیں۔
کوشش کریں کہ سب کے لیے اچھی سوچ رکھیں اور کسی کو بد دعا نہ دیں۔
حلال و حرام کی تمیز ہونی چاہیئے کیونکہ انسان کا ہر اچھا یا برا عمل اس کی طرف لازمی پلٹتا ہے۔ "روحانیت، دانش اور حقیقت" کے بارے میں صُوفی صاحب کہتے ہیں اسے پڑھتے ہوئے کاغذ قلم رکھیں۔ اگر کوئی نکتہ سمجھ نہ آئے تو لکھ لیں انشااللہ آگے کتاب میں اس کا جواب مل جائے گا۔ یہ کتاب روحانیت کے متوالوں کے لیے ایسی نئی کھڑکیاں کھولے گی صبر، سچ، یقینِ کامل اور خود اعتمادی جیسی چیزیں پختہ ہو جائیں گی۔ میں چاہوں گی اس راہ کے مسافر اس کتاب کو ضرور خریدیں، مطالعہ کریں اور خوب فائدہ اُٹھائیں۔