سرکلر ریلوے اب شاید چل پڑے
کراچی سرکلر ریلوے کے بارے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کام شروع ہوگیا ہے۔ ریلوے انتظامیہ، حکومت سندھ اور سٹی گورنمنٹ بھی حرکت میں آگئی ہے۔ اب وفاقی حکومت نے رواں سال کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے گرانٹ دی ہے اس بجٹ سے ٹریک کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں 10کروڑ کے لگ بھگ کے ٹینڈر جاری کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ سرکلر ریلوے کا ٹریک کراچی سٹی تا ڈرگ روڈ کالونی تک 43.5 کلو میٹر پر مشتمل ہے جب کہ اب تک 30 کلو میٹر تک یعنی اورنگی ریلوے اسٹیشن تک کام شروع ہو گیا ہے پہلے پہل ٹریک کو مکمل ٹھیک کرنا اور نئی ریل کی پٹریاں بچھانا، ریلوے اسٹیشنوں اور پلیٹ فارم کی مرمت کرنا، بکنگ آفس کو دوبارہ فعال کرنا، الیکٹرک اور سگنل سسٹم کو ٹھیک اور بہتر بنانا ہوگا اور یہ کام تین ماہ میں مکمل ہو جائے گا اس کے بعد اگلے مرحلے میں اورنگی تا ڈپو ہل تا ڈرگ روڈ یا ڈرگ کالونی تک 13 کلو میٹر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
میرا چونکہ ریلوے سے گہرا تعلق رہا ہے اور اب تک ہے میرے سامنے کراچی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ لوکل ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ یہ منصوبہ ایوب خان کے دور یعنی 1958 میں شروع ہوا۔ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے مہاجرین تقریباً آچکے تھے ان کی آبادکاری کا مسئلہ تھا۔ ایوب خان کے ایک جنرل اعظم ہوتے تھے انھوں نے یہ کام شروع کروایا اور پھر ان کی آبادکاری کے لیے ڈرگ کالونی، ملیر، ماڈل کالونی اور لانڈھی تک مکانات بنوائے اور لوکل ٹرینیں بھی چلا دیں۔
یہ لوکل ٹرینیں 1958 سے چلنا شروع ہوگئی تھیں چونکہ منصوبہ 10سال کا تھا اور اس کو مزید آگے بڑھانے کے لیے سرکلر ریلوے بھی چلانا تھی تاکہ پورا شہر کراچی میں ریلوے کا جال بچھا دیا جائے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ایوب خان نے مارشل لا پروگرام کے تحت کراچی کو انڈسٹریل زون بنانا تھا بندرگاہ بھی موجود تھی پھر انھوں نے (پی آئی ڈی سی) پاکستان انڈسٹریل ایریا کے تحت لانڈھی، کورنگی اور سائٹ میں ملیں اور کارخانے لگائے تاکہ عام محنت کش اپنے گھروں سے لوکل ٹرینوں کے ذریعے ملوں اور کارخانوں تک آ اور جا سکیں قصہ مختصر یہ کہ منصوبہ 1968 میں وزیر مینشن تک مکمل ہو گیا تھا۔
اب بعد میں اس کو کراچی اسٹیشن تک لانا تھا اس طرح وزیر مینشن کے بعد راستے میں KPTکا اسٹیشن بنانا تھا اور اس کے بعد کراچی سٹی بنانا تھا۔ چونکہ کراچی سٹی اسٹیشن کے چار پلیٹ فارم تھے اس کے بعد الیکٹرک آفس اور دیگر دفاتر کی وجہ سے جگہ خالی نہ تھی سو اس طرح نیشنل بینک کے برابر پلیٹ فارم نمبر 5-6 بنایا گیا اور 1969 میں مکمل تیار ہو گیا۔ اس طرح جنوری 1970 میں پورا کراچی شہر سرکلر ریلوے کی زد میں آگیا۔
مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میں نے سرکلر ریلوے کا پہلا ٹکٹ جاری کیا اس وقت پی ٹی وی تھا اور Q میں کھڑے ہوکر وائس چیئرمین D.S کراچی سمیت دیگر افسران اور مسافروں نے ٹکٹ خریدے جوکہ اس وقت 25 پیسے کا ٹکٹ تھا اس طرح آپ صرف 25 پیسے کے خرچ پر کراچی شہر گھوم سکتے تھے۔
پہلے کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر کی 28 لوکل ٹرینیں اپ میں جاتی تھیں اور اسی طرح 28 ٹرینیں واپس آتی تھیں صبح 6 بجے تا رات ساڑھے بارہ بجے آخری ٹرین چلتی تھی اور کل 56 لوکل ٹرینیں لانڈھی، ملیر کینٹ جاتی تھیں اس طرح کراچی سرکلر ٹرین پلیٹ فارم نمبر 5-6، 13 ٹرینیں اپ میں 13 ڈاؤن میں آتی اور جاتی تھیں یعنی کل ملا کر 82 لوکل ٹرینیں چلتی تھیں اگر میں تفصیل میں جاکر ان اسٹیشن کے نام درج کردوں جوکہ سرکلر ٹرینیں تھیں، کراچی سٹی، کے پی ٹی اسٹیشن پھر وزیر مینشن، لیاری، بلدیہ، سائٹ، منگھو پیر، اورنگی، ناظم آباد، لیاقت آباد، کراچی یونیورسٹی اب گیلانی، اردو کالج، ڈپوہل ہوتی ہوئی، ڈرگ یا پھر ڈرگ کالونی سے لانڈھی اور پھر ملیر کینٹ تک جاتی تھیں اور لاکھوں مسافر صبح شام اور رات تک سفر کرسکتے تھے۔
یہ لوکل ٹرینیں 1995 تک کامیاب رہیں۔ رفتہ رفتہ یہ کم ہونا شروع ہوئیں لوگ بلا ٹکٹ سفر کرنے لگے۔ پھر لوکل ٹرینیں لیٹ ہونا شروع ہوگئیں۔ نئی ٹرانسپورٹ آگئیں، بسیں کوچز اور ویگنیں چل پڑیں اور ریلوے کی آمدنی گھٹ گئی، خسارہ ہونے لگا، مگر لانڈھی، ملیر کینٹ کی لوکل ٹرینیں چلتی رہیں۔ اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کا مارشل لا آگیا، اس دور میں کراچی سرکلر ریلوے کی لوکل ٹرینیں بند کردی گئیں۔ یہ دسمبر 1999 سے آج تک بند ہیں۔
لوگوں نے اسٹیشن سمیت بکنگ آفسز پر قبضہ کرلیا۔ ریلوے لائنوں پر مارکیٹ بنا لی۔ ریلوے لائن چوری ہوگئیں اور کچھ زمین میں دھنس گئیں اب اورنگی تک راستہ صاف ہے نیا ٹریک بچھایا جا رہا ہے پلیٹ فارم اور بکنگ آفسز ٹھیک کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح ریلوے سگنلز سسٹم، الیکٹرک کا کام ریلوے پھاٹک یا ریلوے گیٹ پہلے بھی تھے اب بھی ٹوٹے پھوٹے موجود ہیں جلد ہی ٹھیک کر لیے جائیں گے۔ دیکھیں شاید اس سال ہی سرکلر ریلوے چل پڑے مگر میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک سرکلر ریلوے چلے اس سے قبل مین لائن پر چلنے والی مسافر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ مال گاڑیاں بھی چل رہی ہیں تو پھر کراچی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ کی لوکل ٹرینیں بھی ریلوے افسران اور سندھ حکومت چلوا سکتی ہے۔
اس میں کسی قسم کی بھی رکاوٹ نہیں ہے ٹریک بھی ٹھیک ہے اسٹیشن بھی موجود ہیں پھر کیوں نہیں لوکل ٹرینیں چلائی جا رہیں حالانکہ پوری میل لائن کلیئر ہے۔ خیر کراچی سرکلر ریلوے اب چل پڑے گی اور سی پیک میں بھی اس منصوبے کو شامل کیا ہے۔ فی الحال سنگل ٹریک پر ہی اس کو بحال کردیا جائے اور پھر بعد میں سی پیک کے تحت چین اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔ دیکھیں کب چلے گی ہم انتظار کرتے ہیں۔