پاکستان اور میڈیا کی آزادی
پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو، نیب کی روایتی خود سری کے حوالے سے دیکھنا شاید مناسب نہ ہو۔ اس واقعے کو پاکستان میں آزادی صحافت کی عمومی صورتحال سے الگ تھلگ کر کے دیکھنا بھی درست نہیں۔ صحافت اور صحافیوں پر مشکلات کی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا تعلق صرف موجودہ حکومت سے نہیں۔ پاکستان میں آنے والی مختلف حکومتوں نے آزادی صحافت کے کوئی اعلیٰ اور قابل قدر معیار قائم نہیں کئے لیکن اس موضوع پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور صحافت اور صحافیوں کے لئے مشکل تریں دور ہے۔ کوئی سات آٹھ ماہ قبل پاکستان کے معروف کالم نگار اور دانشور عرفان صدیقی کو جس طرح گرفتار کیا گیا اور ایک مضحکہ خیز الزام میں ہتھکڑی ڈال کر جیل بھیج دیا گیا، وہ لوگوں کو نہیں بھولا۔ اب میر شکیل الرحمن کی ایک چونتیس سالہ پرانے پرائیویٹ معاملے میں گرفتاری نے ایک بار پھر اس تاثر کو ابھارا ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تونہ صرف جمہوری فضا کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہو گی جو پہلے ہی کوئی زیادہ اچھی نہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا، کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ اس پر تنقید ہو۔ اس کی خامیاں سامنے آئیں۔ اس کی غلطیاں یا کمزوریاں عوام پر واضح ہوں۔ اسکی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔ مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان، صحت عامہ یا حکمرانی جیسے معاملات کو اجاگر کیا جائے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ حکومتوں کی خواہش ہو تی ہے کہ ان کی تعریف کی جائے، ان کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔ وزیر اعظم، وزراء یا صوبائی حکومت کے اقدامات کو انقلابی قرار دیا جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا یا اس کی کوئی گنجائش صحافیوں کو نظرنہیں آتی تو حکومتیں ناراض ہو جاتی ہیں۔ اس ناراضگی کا اظہار وہ کئی طریقوں سے کرتی ہیں جن میں سب سے پرانا طریقہ اشتہارات کی بندش ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ادارے کی معیشت پر ضرب سب سے کارگر ہوتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے تو " گستاخ" صحافیوں کو اداروں سے نکلوانے اور بے روزگار کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہائی سخت قسم کی سینسر شپ نے بھی آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال میں صحافیوں کی گرفتاریاں، صورتحال کو مزید تشویشناک بنا رہی ہیں۔
آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ مثلا یہ کہ ایک اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے کچھ ایسے آئینی، معاشرتی، سماجی اور سب سے بڑھ کر مذہبی تقاضے ہیں جن کا خیال رکھنا میڈیا پر از خود واجب ہے۔ میڈیا بڑی حد تک ان حدور کا خیال رکھتا ہے لیکن ذرا سی اونچ نیچ سنگین مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ معاملہ صرف پیمرا یا حکومت کی طرف سے اقدامات تک محدود نہیں رہتا، مختلف عناصر اپنے طور پر متحرک ہو جاتے اور میڈیا پر دباو ڈالتے ہیں۔ یہ عناصر مختلف پریشر گروپس کی شکل اختیار کر لیتے اور میڈیا کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ جائز آئینی اور مذہبی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنا کردار ادا نہ کرئے۔ مذہب کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی بھی یہاں ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنے دفاع اور سلامتی کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت جیسے پڑوسی نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ہم ان مسائل سے غافل نہ ہوں۔ مذہبی اقدار ہی کی طرح پاکستانی میڈیا ازخود قومی سلامتی کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قومی سلامتی یا دفاع وطن کے نام پر میڈیا کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی مسلسل دباو میں رہتی ہے اور مذہب ہی کی طرح قومی سلامتی کی حساسیت نے بھی میڈیا کی آزادی کو بہت محدود کر دیا ہے۔ ان دونوں معاملات کے حوالے سے میڈیا رضا کارانہ یا ازخود سنسر شپ(self censorship) میں بھی بہت سرگرم رہتا ہے۔ ایک اور اہم فیکٹر میڈیا مالکان کا اپنا طرز عمل ہے۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد میڈیا بھی ایک صنعت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری کرنے والے صرف خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ایسا نہیں کرتے۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتے کہ ان کی یہ سرمایہ کاری ما لی خسارے کا سبب بنے۔ نتیجہ یہ کہ جوں ہی وہ حکومت کی طرف سے دباو ¿کا شکار ہوتے، ان کے اشتہارات پر ضرب لگتی ہے یا انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی کر لیتے ہیں اور یہ تبدیلی میڈیا آزادی کی قیمت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح دباو¿ میں آکر مالکان حکومت کے نا پسندیدہ صحافیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیتے ہیں۔ باقی رہ جانے والے از خود محتاط ہو جاتے ہیں۔ ملک میں تیس سال سے زائد عرصے تک آمریت کا راج رہا۔ کسی بھی آمر کے لئے سب سے نا پسندیدہ بات یہ ہوتی ہے کہ حق اور سچ سامنے آئے لہٰذا آمرانہ اقدامات کا سلسلہ میڈیا پر سخت قسم کے کنٹرول سے شروع ہوتا ہے۔ شدید سنسر شپ بڑی حد تک میڈیا کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے۔
نتیجہ یہ کہ نہ صرف آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں میڈیا زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے بلکہ بعد میں آنے والی جمہوری یا نیم جمہوری حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ انہیں وہی میڈیا ملے جو آمروں کو ملا تھا۔ لہٰذا جمہوریت کا لیبل رکھتے ہوئے بھی یہ حکومتیں، میڈیا کو قابو رکھنے کے لئے وہی اقدامات شروع کر دیتی ہیں جو آمروں نے کئے ہوتے ہیں۔ پاکستان تقریبا دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی پاکستانی میڈیا کے لئے بڑا خطرہ بنی رہی۔ درجنوں صحافی اس کی نذر ہو گئے اور خوف کی لہر نے میڈیا کو آزادی سے اپنا کردار ادا نہ کرنے دیا۔
پاکستان کے بارے میں دنیا کا تاثر یہ ہے کہ ہم ایک بند سوسائٹی ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری اقدار بھی کمزور ہیں۔ ہم تحمل اور برداشت سے بھی محروم ہیں۔ ہم آئین اور قانون کے بجائے اپنے زور بازو یا ہلے گلے سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے عدالتی عمل پر بھی عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں اپنے معاملات خود اپنے طور پر حل کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو جمہوری ریاستوں کی فہرست میں بہت نیچے دھکیل دیا ہے۔ دنیا کی قابل اعتبار ایجنسیوں یا اداروں کی مرتب کردہ رپورٹس پر نظر ڈالیں تو ہم تعلیم، صحت، گورننس، خواتین کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار جیسے معاملات میں آخری دس ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آج کی دنیا میں عزت پانے کے معیارات یہی ہیں۔ چونکہ ہم ان پیمانوں کے مطابق انتہائی پست ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی ہمارا درجہ سب سے نیچے ہے اس لئے ہمیں ہر محاذ پر دنیا کی تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ہمارا پاسپورٹ حقیر خیال کیا جاتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جہاں زبردست گھٹن ہے اور جہاں جمہوری اقدار ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکیں۔
ہمیں ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی ساری دنیا کے سامنے ہے۔ متعصب مودی حکومت کی مسلم کش پالیسیوں نے بائیس کروڑ مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ اب مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے بھارت میں پھیل گیا ہے۔ ہم بجا طوربھارت کی اس غیر جمہوری روش کو تنقید کا نشانہ بناتے اور توقع رکھتے ہیں کہ دنیا ہمارا ساتھ دے۔ لیکن جب خود ہمارے ہاں سے اس طرح کی خبریں سامنے آتی ہیں کہ میڈیا شدید سنسر شپ کی زد میں ہے، نا پسندیدہ صحافیوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے، ڈرانے دھمکانے کے لئے صحافیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور آزادی اظہار رائے کو بری طرح کچلا جا رہا ہے تو بھارت کے خلاف ہمارے جائز اور درست مقدمے کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
میڈیا پر دباو¿، آزادی اظہار رائے پر قدغنیں، صحافیوں کی پکڑدھکڑ اور شدید قسم کی سنسر شپ کسی طرح بھی حکومتوں کے حق میں نہیں ہوتی۔ اس سے گھٹن پیدا ہوتی ہے اور "پریشر ککر" جیسی یہ فضا جب کسی بڑے دھماکے میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اس سے حکومتوں کا ہی نہیں، قوموں اور معاشروں کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔