تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

چند دن قبل میں اپنی جم خانہ کی کچھ فرینڈیز کے ساتھ گپ شپ کر رہی تھی کہ گفتگو کے دوران "ٹینشن" کا موضوع آ گیا۔ ہر دسواں بندہ ٹینشن کا شکار ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسی کیا چیز ہے ہماری زندگیوں میں جو ہمیں ٹینشن کی طرف لے جاتی ہے ہمارے اندر کچھ ایسی "کمیاں" رہ جاتی ہیں جن کو ہم جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنے مرض کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔
میں خود چھوٹی چھوٹی باتوں کی بہت ٹینشن لیتی ہوں، لیکن میں "ٹینشن" کا مریض ہونے سے شاید اس لئے بچ گئی کہ میں اس کتاب کی طرف رجوع کرتی ہوں جو رب نے پوری نوعِ انسانی پر اُتاری ہے اور دوسری وجہ میری بہنیں اور بچیاں ہیں جو مجھے ہر وقت گفتگو کے زریعے "relax" کرتی رہتی ہیں۔
دورِ حاضر میں سائیکالوجی کے علم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ ابتداء تو اس کی انسویں صدی میں ہوگئی تھی۔ ماہرِ نفسیات کہتے ہیں کہ نفسِ انسانی کے اندر امراض ہوتے ہیں، چودہ سو سال پہلے کسی انسان کے زہین میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ "نفسِ انسانی بھی کوئی چیز ہے جب قرآن نے کہا تھا "فی قُلوبِھِم مّرٰٰض" ان کے دلوں کے اندر روگ ہے اور قرآن کا دعویٰ ہے کہ "شفاء لِمّا فِی صدُورِ" دل کے روگوں کا علاج کرنے والا ہے اللہ!
تحتِ شعور کے اندر کوئی چبھن ہوتی ہے، تمنائیں ہوتیں ہیں، آرزوئیں ہوتیں ہیں، توقعات ہوتی ہیں، نا کردہ گناہوں کی سزائیں ہوتیں ہیں۔ پھر ہوتا کیا ہے؟
انسان کے اندر جو صلاحیتیں ہوتیں ہیں ان کا توازن بگڑ جاتا ہے، ماہرِ نفسیات اس توازن کو اپنی جگہ لا کر اس کا علاج کرتے ہیں۔
حضور ﷺ کی شخصیت جو ہمارے لئے عملی نمونہ ہے، وہ کیا ہے؟ قرآن نے ان کے متعلق فرمایا فاّستوٰی 53: 6 حضور ﷺ کی ذات میں پورا پورا توازن پیدا کر دیا اور آپ ﷺ پا کیزگی کی انتہا تک پہنچ گئے۔
انسان اس نظامِ زندگی یا اس مذہب کی تلاش میں ہے جو اسیے نوعِ انسانی کے تمام مسائل کا حل دے دے۔ یورپ میں humanism تحریک کا ایک رکن Julian huxley ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی ایک کتاب religion without revelation میں اس نے ایک دعویٰ کیا کہ میں ایسے مذہب کی تلاش میں ہوں اس کے الفاظ میں "جو ایک طرف ایسا سلیس اور سادہ ہو کہ عام سطح کے انسان بھی اس سے نفع اندوز ہو سکیں اور دوسری طرف اس قدر عمیق اور پر معنی کے بلند پایہ مفکر بھی اس سے مطمئن ہو جائے"۔
یہ دونوں خصوصیات قرآن میں موجود ہیں۔ چودہ سو سال پہلے کی عرب سر زمین میں جہاں نوشت و خواند تک بھی لوگ محدود تعداد میں تھے، وہ عرب جو اس دنیا کی پست ترین قوم تھے، وہی قرآن کریم کے اولین مخاطب ووم تھی۔
Man in the modern world، ہکسلے کی دوسری کتاب جس میں وہ ان سب مذاہب سے تنگ آ چکا ہے۔ اس کتاب میں وہ کہتا ہے کہ "میرا عقیدہ ہے کہ انسان کے تمام فرائض کو ان چند الفاظ میں سمٹایا جا سکتا ہے، یعنی بہت زیادہ زندگی جتنی اپنے لئے، اتنی ہی اپنے ہمسائے کے لئے۔ میرا یقین ہے کہ مشقت پریشانیوں اور تکالیف کے ساتھ ہی سہی، انسان اس قابل ضرور ہے کہ وہ ایسا کر سکے۔
22 اگست 1956 میں نیو یارک میں ایک تقریر کے دوران اس نے ان خیالات کا اظہار کیا جو نیو یارک ٹائمز میں بھی چھپے تھے۔
انسان وحی کے بغیر یہ زندگی نہیں پا سکتا۔ کاش ہم مسلمان اس قابل ہوتے کہ ان کا یہ نظام قائم کرکے دیکھا سکتے لیکن ہماری تو اپنی حالت قابلِ رحم ہے!
حضور ﷺ دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

