پولیس مقابلوں کی کہانی
وہاڑی پولیس نے ڈکیتی کے چار ملزم پار کردئیے ہیں، یہ چاروں جن کو پولیس نے ماردیا ہے، یہ بکری چوری کے الزام میں گرفتار تھے۔ جیساکہ رپورٹ ہوا ہے کہ دو ملزم ابھی تک پولیس کی زیرحراست ہیں، ان کی درازعمر کیلئے دعاکی جاسکتی ہے۔ اس بات کے تو سب حق میں ہیں کہ جرم کی سزا ملنی چاہیے لیکن اتنی جتنی قانون اجازت دیتا ہے۔ یاد رہے کہ جو کام عدالتوں کا ہے، وہ عدالتوں کو کرنے دیاجائے۔ پولیس کے ہاتھوں پار کیے جانیوالے ملزموں کے ورثاء کے الزام کے مطابق ایک ہفتہ قبل تھانہ سٹی وہاڑی کے اے ایس آئی بابر سعید اور رئوف گجر نے سی آئی اے نے بکریاں چوری کے الزام میں ہمارے بچوں 25 سالہ محمد شیخ جوکہ ویلڈنگ کا کام کرتا تھا، 17 سالہ اسلام مغل جو بھٹہ پر مزدوری کرتاتھا، ارسلان ایک دوکان پر ملازمت کرتاتھا اور ان کے ایک دوست چھبا کو نجی ٹارچر سیل میں رکھ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ پولیس کا موقف وہی ہے جوکہ ہوتا ہے کہ ان پار ہونیوالے ملزمان کیساتھ پولیس کا آمنا سامنا ہوا تو فائرنگ کے تبادلے کے نتیجہ میں چاروں ڈاکو مارے گئے۔ پولیس کی طرف سے آمنے سامنے کی کہانی پہلی بار سامنے نہیں آرہی ہے بلکہ مختلف ادوار میں خاص طورپر نواز لیگی دور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے دور میں تو پولیس مقابلہ مطلب آمنے سامنے کی کہانی کچھ زیادہ پڑھنے کو ملتی تھی اور پھر کوئی دو چار انسانی جانیں پار کردی جاتیں تھیں۔ مطلب عدالتوں میں کیس پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کی جانب سے مقابلے کی عدالت لگا کر سزا سنادی جاتی تھی جوکہ زندگی جیسے تحفہ کے چھننے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ شہبازشریف کا دور تو خداخدا کرکے اپنے انجام کو پہنچا ہے لیکن آمنے سامنے کی کہانی نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں بھی سراٹھایا ہوا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ پولیس کی طرف سے پار کرنے کی کہانیاں اتنی تعداد میں دیکھنے کو مل رہی ہیں جتنی کہ شہباز شریف کے دور حکومت میں تھیں لیکن پولیس کے آمنے سامنے کا سلسلہ جاری ہے جوکہ رکنا چاہیے۔
لیہ میں ایک واقعہ ہوا، پولیس نے ایک جواں سالہ صغیر عباس بلوچ کو اٹھایا اور پھر اس کے سرکی کھوپڑی پولیس حراست میں ٹوٹ ہوئی ملی، لیہ سے ملتان تک ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود اس کی زندگی نہیں بچائی جاسکی، اہم نقطہ یہ ہے کہ صغیر عباس بلوچ کو رات گئے پولیس نے گھر کی چارپائی سے تو زندہ اٹھایا تھا، لیکن پھر اس کے گھر والوں کو اس کی کفن میں لپٹی ہوئی لاش ملی۔ ادھر لیہ پولیس کی وہی اپنی کہانی تھی جوکہ پنجاب پولیس کی ہوتی ہے۔ وہ ایک شاعر نے کہاہے تھا کہ:
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
کہ مقتول خود گرا خنجر کی نوک پر
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے کے بعدتسلسل کیساتھ اس بات پر بضد ہیں کہ وہ مہنگائی کیخلاف اقدامات اٹھارہے ہیں لیکن بات وہیں پر ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواءکی۔ پچھلے نواز دور کی طرح تبدیلی حکومت نے بھی ایوان میں تسلیم کیا ہے کہ حکومت پٹرول پر35 روپے اور ڈیزل پر45 روپے ٹیکس وصول کررہی ہے۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر بھی حکومت کی طرف سے خاصا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اس طرح پٹرول اور ڈیزل پر حکومت کی طرف سے ٹیکس کی اتنی بڑی وصولی عوام کیلئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں جیسے ہی بڑھتی ہیں، ادھر مہنگائی کا سیلاب عوام کا منتظر ہوتا ہے۔ اپوزیشن میں تو وزیراعظم عمران خان اس طرح پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے پر کچھ اور فرماتے تھے لیکن اب اپنی حکومت میں اور کہانی بیان کرتے ہیں جوکہ عوام قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی تنخواہ کا تو پتہ ہے کہ وہ کم ہے۔ اور کہتے ہیں کہ دن رات محنت کررہاہوں لیکن دنیا کے دیگر وزرائے اعظم سے میری تنخواہ کم ہے۔ ہمارے خیال میں بحیثیت ریاست مدینہ کے حکمران ان کو اس بات کی طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ آئے روز بڑھتی مہنگائی میں عام مزدور یا پھر تنخواہ دار طبقہ کیساتھ کیا ہورہا ہے جووزیراعظم سے کہیں کم تنخواہ لے رہا ہے اور زندگی کے دن بمشکل پورے کررہا ہے۔ ادھر گندم، آٹا اور چینی کے بحران میں بمطابق وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام نہیں ہے تو پھر کون ہے جو کہ حکومت کو ماموں بنا گیا ہے۔ اس بات کا جواب تو وزیراعظم عمران خان کو دینا چاہیے کہ آخر وہ کونسا مافیا ہے جوکہ اتنی دیدہ دلیری کیساتھ گندم اور آٹا کا بحران پیدا کرکے مال بنا گیا ہے اور جہانگیر ترین سمیت وزیراعظم عمران خان کو پتہ نہیں چلا ہے۔ اور اب بھی اس پیدا بحران کی وجہ سے عوام کو آٹا اور گندم اسی ملتے جلتے ریٹ پر مل رہاہے جس پر نامعلوم مافیا لیکر گیا تھا۔
مظفرگڑھ کے بارے میں عاشق ظفر بھٹی نے اپنے انداز میں مظفر گڑھ جیسے تاریخی ضلع کا مقدمہ یوں بیان کیا کہ 1797ءمیں بننے والا یہ ضلع ابھی تک بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، وجہ صرف نااہل نمائندے ہیں جبکہ مظفرگڑھ کی آبادی ملتان کے برابر ہے۔ پر ہائر ایجوکیشن کی طرف سے ایک بھی یونیورسٹی یا یونیورسٹی کیمپس نہیں ہے۔ ادھر سردار کوڑے خان جتوئی کی 86000 کنال وقف کیا ہوا رقبہ موجود ہے، بات تو سمجھ آتی ہے کہ اتنے وقف کردہ رقبہ پر آخر یونیورسٹی بنانے سے حکومت گھبرا کیوں رہی ہے۔ بھٹی صاحب بحیثیت مظفرگڑھ کے شہری تھل کے ضلع مظفرگڑھ کیساتھ امتیازی سلوک کو اٹھارہے جوکہ قابل تعریف ہے لیکن عوامی نمائندوں پر ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خاموشی توڑیں اور مظفرگڑھ کے حوالے سے ایوان میں بات کریں کہ آخر یونیورسٹی کے قیام میں کونسی رکاوٹ ہے جوکہ 72 سال سے دور نہیں ہورہی ہے۔ ویسے یونیورسٹی کے کیمپس کی کہانی تھل کے ضلع مظفرگڑھ تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ آگے اور اضلاع میں بھی بڑھتاہے مطلب وہاں پر بھی یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز نہیں ہیں۔