ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان!
وزیراعظم عمران خان کی سیاست میں بہت سے اتارو چڑھاو اور نشیب و فراز دیکھے جا سکتے ہیں۔ 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد کپتان کو وزارت عظمیٰ کا منصب بھی مل گیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جولائی 2018ءکے انتخابات سے پہلے ہی ان کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے اور اب جبکہ انہیں ملک کی باگ ڈورسنبھالے ایک برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو اب انہیں اس بات کی سمجھ بھی آ چکی ہے کہ در حقیقت طاقت کا سرچشمہ کون سی قوتیں ہیں۔ اس راز کو سمجھنے کے بعد کپتان نے بھی قومی سیاست میں داو پیچ استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب وہ انتہائی دیدہ دلیری سے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور اس کا ایک بڑا ثبوت سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد ہے جسے کپتان نے اپنی سیاسی بصیرت بروئے کار لاتے ہوئے ناکام بنا دیا اور صادق سنجرانی بدستور چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر براجمان ہیں۔ بہت ہی کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ کپتان کہاں تک نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ دراصل وہ اپنی اس آئینی مدت کو مکمل کرنے کے بعد اگلے پانچ برس بھی اس ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اسی لیے وہ معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معروضی سیاست پرعمل پیرا ہیں۔
ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان!
حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ہی سے کپتان اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر سابق حکمرانوں کے خلاف ڈٹ کرکھڑے ہو گئے تھے اوروقت کے ساتھ ساتھ وہ اپوزیشن پر مسلسل دباو چڑھا رہے ہیں۔ انہیں احتساب معاملہ کو جاری رکھنے کے لیے کپتان نے اپنی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ اپوزیشن کو بیک فٹ پررکھنے کے لیے تمام حربے استعمال کریں اور ہر حکومتی رکن ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو عوام میں کس طرح غیر موثر کرناہے اوروہ کیا حکمت عملی ہے کہ عوام کو پاکستان کے معاشی بحرانوں اور سیاسی حالات سے چشم پوشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے یہ تمام پینترے وہ اختیار کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی بعض وجوہات کی بناءپر بیک فٹ پر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وہ حکومت اور فیصلہ سازوں سے بیک چینل رابطے رکھے ہوئے ہیں تا کہ کسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری کو ریلیف دلوانے کی کوئی صورت نکل سکے۔ کچھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام کروانے میں حکومت کی خاموش حمایت کر دی ہے۔
ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان!
کپتان وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی ثابت کیاہے کہ ملک کی مقتدر قوتوں کے تعلقات کو کیسے خوشگوار رکھا جاسکتا ہے اور اپوزیشن کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے اسے سیاسی اکھاڑے میں زیر کرنے کے لیے کون کون سی تدابیر کار گرثابت ہو سکتی ہیں۔ اب وہ بہت زیادہ ادراک کر سکتے ہیں کہ اقتدار پر گرفت کیسے مضبوط کی جاتی ہے۔ کپتان سمجھتے ہیں ان کی وزارت عظمیٰ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اس لیے ان کا وزیراعظم برقرار رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ان تمام تر خواہشات کو ذہن میں جگہ دے کر کپتان تلخ حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ جو قوتیں انہیں اقتدار میں لائی ہیں ان کا مقصد پورا ہونے پر وہی انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں گی اورانہیں اس بات سے قطعی طور پر کوئی دلچسپی نہیں کہ عمران خان کا مقصد وزارت عظمیٰ کے محض پانچ سال نہیں بلکہ وہ پورے 10 برس ملک کے وزیراعظم رہنا چاہتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، سنگین ترین معاشی بحران شاید اب کپتان کے لیے زیادہ اہم نہیں رہا ان کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں اب وہ صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ مدت تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہنے کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔
اکتوبر کا مہینہ ملک میں سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کپتان کی منصوبہ بندی اور اپوزیشن کی حکمت عملی سے صورتحال واضح ہو جائے گی۔ برسراقتدار حکومت کے ابتدائی چند ماہ تو عوام نے جیسے کیسے برداشت کیے مگراب جبکہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے اورعوام نے دیکھا کہ اب پانی سر سے بلند ہونا شروع ہوگیاہے تو ان کے صبر کا بند ٹوٹ چکا ہے، عوام کے کھلے چہرے مرجھاچکے ہیں، عوام سمجھنے لگے ہیں کہ اس حکومت نے ہمیں سبزباغ ہی دکھائے ہیں اوران کے تبدیلی کے نعرے محض کھوکھلے نعرے تھے، اس حکومت کی نہ کوئی پائیدار ومستحکم داخلہ وخارجہ پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی معاملہ فہم اور قابل ٹیم ہے، کئی وزراءکے بیانات انتہائی غیر سنجیدہ اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو حکومت کی سال بھر کی کارکردگی عوام کے لیے انتہائی مایوس کن ہے۔ گزشتہ ادوار میں مہنگائی کی چکی میں صرف غریب عوام پستے تھے، اس حکومت کے دور میں غریب وامیر دونوں بری طرح پس رہے ہیں، کئی لوگوں کے کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکے ہیں تو کئی لوگوں کے کاروبار آخری ہچکی پر ہیں، ملکی معیشت کی گاڑی دھکا لگانے سے بھی نہیں چل رہی، حکومتی گاڑی کے پہیے جام ہوچکے ہیں، بیرونی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں، اندرون ملک کا سرمایہ دار بھی غیر یقینی اور مایوس کن صورتحال سے دوچارہے، گاڑیوں کے شورومز کے مالکان، زرگرز، انڈسٹریز مالکان، عام دوکاندار، اساتذہ، طلبا، مزدور اور کسان الغرض ہر طبقہ اس حکومت کی معاشی پالیسوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔
کیا کوئی حکومتی ذمہ دار ادویات ساز کمپنیوں اور در آمد کنندگان سے یہ پوچھنے کی جسارت کرے گا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد سے لے کر اڑھائی سو فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ 50 روپے والی گولی کی قیمت اب 100 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ عوام اتنا حق ضرور کھتے ہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہو اہے؟ کیا خام مال کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں یا حکومت نے بر آمدی خام مال پر ڈیوٹی اور ٹیکس دگنے کر دیئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا مقامی لاگت میں یکا یک کئی گنا اضافہ ہو گیا ہو۔ حکومت نے اچانک مزدوروں کی کم از کم تنخواہ دگنی کر دی ہو۔ کم از کم اتنا تو بتایا جائے کہ وہ کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے جس کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہوا ہے۔ جب تک کوئی اور وجہ سامنے نہیں آتی یا بتائی نہیں جاتی تو مجھ جیسے کم پڑھے لکھے اور حکمران طبقے کے ماہرین سے کم عقل و فہم رکھنے والے لوگ جو کہ سرمایہ دارانہ معیشت کی پیچیدگیوں اور منڈی کے کام کرنے کے طریقوں سے بہت زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ ادویات ساز کمپنیوں اور بر آمدکنندگان کی جانب سے اپنے منافع کو بڑھانے اور عوام کے استحصال میں اضافے کے لیے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ در اصل سرمایہ دارانہ نظام میں پیداواری عمل کیا ہی منافع حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظا م کے ماہرین اور اس سے فائدہ اٹھانے والے سرمایہ دار جتنی چاہے دلیلیں دیں، جواز پیش کریں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ پیداوار کا پورا عمل منافع کے حصول کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات کے لیے اشیاءخریدتے ہیں۔ خوراک، رہائش، لباس، جوتے، ادویات اور دیگر اشیاءکی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جس معاشی نظام میں ہم رہتے ہیں وہاں پر بنیادی اشیائے ضرورت صرف اس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ عام لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان کو بنانے کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ منافع در اصل سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کی قوت محرکہ ہے۔ ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان! مہنگائی، بیروز گاری اورملک کو درپیش معاشی بحران کے دفاع میں، دیکھنا یہ ہے کہ عوام ان کو مزید کتنی مہلت دیتے ہیں یہاں انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے والے اپنا مقصد کتنی مدت میں حاصل کر پاتے ہیں۔