Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Sanati Dehshat Gardi

Sanati Dehshat Gardi

صنعتی دہشت گردی

وہ مریضوں کے لیے پریشان تھے، وہ کہہ رہے تھے ہم نے اسپتال باقاعدہ اسٹارٹ نہیں کیا لیکن ہمارے پاس روزانہ پانچ چھ سو مریض آ جاتے ہیں، یہ بے چارے بسوں اور ٹریکٹروں پر آتے ہیں اور ہمارے گیٹ کے سامنے لیٹ جاتے ہیں، مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی" میں نے ان سے پوچھا "فیصل آباد میں سب سے زیادہ بیماری کون سی ہے" ان کا کیا جواب تھا؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو اس مکالمے کی بیک گراؤنڈ بتاتا چلوں۔

میں سیلانی ٹرسٹ کی دعوت پر فیصل آباد گیا، مولانا بشیر فاروقی کراچی سے تشریف لائے تھے، سیلانی ٹرسٹ خدمت کی حیران کن داستان ہے، مولانا بشیر فاروقی میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کراچی میں باردانے کا کام کرتے تھے، اللہ تعالیٰ سے لو لگی اور یہ1999ء میں کاروبار سے خدمت میں آ گئے، حضرت خود فرماتے ہیں"میں نے پہلے دن ضرورت مندوں کو ساڑھے تین سو روپے کا کھانا کھلایا۔

آج ہم روزانہ 60 لاکھ روپے کا کھانا کھلا رہے ہیں، ہم کراچی میں روز 700 بکرے ذبح کرتے ہیں"سیلانی پاکستان کا واحد ٹرسٹ ہے جو چندے کی درخواست نہیں کرتا لیکن لوگ انھیں اس کے باوجودروزانہ ایک کروڑ روپے دیتے ہیں، یہ لوگ اس رقم سے درجنوں منصوبے چلا رہے ہیں، دستر خوانوں کی تعداد 100 ہو چکی ہے، یہ وہاں ایک لاکھ 25 ہزار لوگوں کو روزانہ کھانا کھلاتے ہیں۔

مولانا بشیر فاروقی نے چندے کی اپیل نہ کرنے کی ایک عجیب وجہ بیان کی، فرمایا "میں نے خدمت کا کام شروع کیا تو میرے پاس روزانہ سیکڑوں غریب لوگ آتے تھے، میں نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا باری تعالیٰ میں ہاتھ نہیں پھیلا سکتا، آپ اگر غریب بھجواتے ہیں تو آپ مہربانی فرما کر امیر بھی بھیج دیا کریں تاکہ میں غرباء کی خدمت کر سکوں، اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمالی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اللہ تعالیٰ غریبوں کے ساتھ امیر بھی بھجوا دیتا ہے اور ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق وسائل مل جاتے ہیں"۔

سیلانی ٹرسٹ کراچی کے علاوہ ملک کے 8 شہروں میں کام کر رہا ہے، ان شہروں میں فیصل آباد بھی شامل ہے، یہ لوگ نوجوانوں کو کمپیوٹر کی مفت تعلیم بھی دیتے ہیں، اتوار کو فیصل آباد اسٹیڈیم میں ساڑھے تین ہزاربچوں کا ٹیسٹ تھا، یہ بچے سلیکشن کے بعد "موبائل ایپلی کیشنز" کی مفت ٹریننگ لیں گے اور یوں یہ چند ماہ میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے، سیلانی ٹرسٹ فیصل آباد میں صاف پانی کے پلانٹس بھی لگا رہا ہے۔

یہ لوگ 17 پلانٹس لگا چکے ہیں اور یہ مزید بھی لگانا چاہتے ہیں، میں ان لوگوں سے جب بھی ملتا ہوں، مجھے ان کا جذبہ حیران کر دیتا ہے، یہ حقیقتاً وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے، میں فیصل آباد میں بھی اس تحیر کا شکار تھا، ہم اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

فیصل آباد میں ہمارے میزبان ہمیں ایک زیر تکمیل اسپتال میں لے گئے، یہ اسپتال ایمٹیکس (AMTEX) گروپ نے بنایا، گروپ کے بانی حاجی محمد افتخار مرحوم تھے، یہ فیصل آباد کی سوترمنڈی میں بینک منیجر تھے، حاجی صاحب نے نوکری چھوڑی، کاروبار شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور حاجی صاحب کا گروپ ٹاپ فائیو گروپس میں شامل ہوگیا، یہ ملک کے سب سے بڑے ایکسپورٹرز میں بھی آگئے لیکن پھر یہ گروپ بھی پاکستان کے دیگر گروپوں کی طرح زوال کا شکار ہوگیا۔

دنیا کی 90 فیصد کمپنیاں غیرمعمولی ترقی (گروتھ) کی وجہ سے بند ہوتی ہیں، مالکان ترقی کی دوڑ میں اتنے آگے آ جاتے ہیں کہ یونٹس اور ملازمین پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ لوگ اپنی پیداواری صلاحیت سے زیادہ آرڈر بھی لے لیتے ہیں اور یہ غلطی پورے گروپ کو لے کر بیٹھ جاتی ہے، ایمٹیکس کے ساتھ بھی یہی ہوا، گروپ میں بینکوں، تاجروں اور سوترمنڈی کے شیخوں کے اربوں روپے لگے ہوئے تھے۔

سرمائے کا یہ بوجھ پورے گروپ کو لے کر بیٹھ گیا یوں فیکٹریاں بند ہوگئیں، جائیدادیں بک گئیں اور اثاثے منجمد ہو گئے، حاجی افتخار صاحب کے تین صاحبزادے ہیں، یہ تینوں گروپ کے "ری وائیول" کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، ان لوگوں نے جڑانوالہ روڈ پر اپنی پرانی فیکٹری میں ساڑھے پانچ سو بیڈ کا اسپتال اور میڈیکل کالج بنا دیا ہے، حاجی صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے خرم افتخار کا خیال تھا اگر یہ اسپتال اور یہ میڈیکل کالج چل گیا تو یہ ایک سال میں اپنے تمام خسارے پورے کر لیں گے۔

یہ اپنے تمام قرضے بھی ادا کر دیں گے، میں ان کے اس دعوے سے اتفاق کرتا ہوں، فیصل آباد میں اتنی بیماریاں ہیں کہ یہ اسپتال چھ ماہ میں اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا، پوری دنیا میں تعلیم اور صحت بری سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے، دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیاں ارب پتی جاگیرداروں، صنعت کاروں اور تاجروں نے اپنی زمینیں اور فیکٹریاں بیچ کر بنائیں، دنیا میں پرائیویٹ اسپتال بھی مشنری اور مخیر حضرات بناتے ہیں اور یہ ادارے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے سو سو سال لگا دیتے ہیں لیکن آپ پاکستان میں کوئی تعلیمی ادارہ بنائیں۔

آپ کوئی کلینک یا کوئی اسپتال کھول لیں، آپ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی ہو جائیں گے، پاکستان میں میڈیکل کالج سونے کی کان ہیں، آپ میڈیکل کالج بنائیں اور نوٹ گننے کے لیے مشینیں لگا لیں اور آپ اگر سمجھ دار ہیں تو آپ تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور میڈیکل کالجز کی چین بنائیں اور آخر میں ان کی حفاظت کے لیے ایک اخبار اور ایک ٹیلی ویژن چینل بنا لیں، آپ کو کوئی شخص ارب پتی ہونے سے نہیں روک سکے گا۔

میں اب خرم افتخار کے ساتھ مکالمے کی طرف آتا ہوں، میں نے ان سے پوچھا "فیصل آباد میں کون سی بیماری سب سے زیادہ ہے" جواب دیا "ہیپاٹائٹس سی، فیصل آباد کے لاکھوں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہیں" میں نے عرض کیا "بیماری کی وجوہات کیا ہیں" جواب دیا "آلودہ گندہ پانی" میں نے پوچھا "اور پانی کس نے گندہ کیا" وہ چپ ہو گئے، میں نے دوبارہ پوچھا تو وہ بولے "فیصل آباد کے کارخانوں نے" میں نے مسکرا کر عرض کیا "سر پھر آپ بھی اس بحران کے ذمے داروں میں شامل ہوتے ہیں" وہ خاموش رہے۔

میں نے عرض کیا" فیصل آباد میں بارہ سو فیکٹریاں ہیں، یہ فیکٹریاں پچاس سال سے پانی کے ذخائر میں کیمیکل شامل کر رہی ہیں چنانچہ فیصل آباد کے لوگ ہیپاٹائٹس، ٹی بی، جلد اور کینسر کے مریض بن چکے ہیں، فیکٹری مالکان ظالم ہیں، یہ لوگ ڈالر کماتے وقت ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے ملک میں کتنے لوگ اندھے، بہرے اور گونگے ہورہے ہیں، ملک میں کینسر کے کتنے مریض اکٹھے ہو رہے ہیں۔

کتنے لوگ پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر سے محروم ہو چکے ہیں اور کتنے لوگ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں" وہ مسکرا کر بولے "ہم نہیں، حکومت ذمے دار ہے، یہ حکومت کا کام تھا" میں نے عرض کیا "آپ درست فرما رہے ہیں، تعلیم، تربیت، پانی اور اسپتال حکومتوں کی ذمے داریاں ہوتے ہیں لیکن دولت کی حرص نے ملک میں ہیپاٹائٹس سی کے اتنے مریض پیدا کر دیے ہیں کہ ہماری حکومتیں اگر ان کے علاج میں جت جائیں تو ملک کا سارا ترقیاتی بجٹ خرچ ہو جائے گا لیکن مریض بحال نہیں ہو سکیں گے"۔

میں خرم صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر میں فیل ہوگیا، میں دل میں سوچتا رہا ہم لوگ کتنے ظالم ہیں، ہم لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، ہم تھوڑے سے منافع اور اس عارضی زندگی کی چند لگژریز کے لیے کتنی زندگیاں کھا گئے ہیں اور کتنی روزانہ کھا رہے ہیں، میں ایمٹیکس سے باہر نکلا تو مجھے ملتان کے ایک سیٹھ صاحب یاد آ گئے، وہ چمڑے کا کام کرتے تھے، ان کی ٹینری کی وجہ سے دو گاؤں معذور ہو گئے، سیٹھ صاحب کے کاروبار کو زوال آیا تو انھوں نے علاقے میں اسپتال بنا دیا۔

وہ پہلے نوٹ کمانے کے لیے لوگوں کو بیمار کرتے تھے اور وہ بعد ازاں لوگوں کا علاج کرکے نوٹ کماتے رہے لیکن پھر ان کا کیا انجام ہوا؟ وہ خود کینسر کے ہاتھوں مر گئے اور اولاد جائیداد کے لیے لڑ لڑ کرفنا گئی، ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کر دیا، ایک مر گیا، دوسرا کچہریوں میں روز مرتا اور روز جیتا ہے، بیٹی کو طلاق ہوگئی، وہ گھر چلانے کے لیے اب اسکول میں پڑھاتی ہے، پیچھے رہ گئی پراپرٹی تو وہ بینکوں نے ضبط کر لی ہے، سیٹھ صاحب کا اسپتال بھی اب چندے سے چلتا ہے۔

میری حکومت اور چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ملک میں جاری صنعتی دہشتگردی پربھی توجہ دیں، آپ فیکٹریوں کو کم از کم اتنا پابند ضرور کر دیں یہ جب تک ویسٹ مینجمنٹ کا پلانٹ نہ لگا لیں، یہ جب تک فضائی آلودگی کے خاتمے کا بندوبست نہ کر لیں، یہ جب تک پورے علاقے کے لیے صاف پانی کا انتظام نہ کر لیں اور یہ جب تک علاقے کے لیے فری اسپتال نہ بنائیں اس وقت تک انھیں فیکٹریاں لگانے اور چلانے کی اجازت نہ ہو۔

یہ لوگ عوام کو صاف پانی، صاف ہوا اور جسمانی صفائی کی تربیت دینے کے بھی پابندہوں، یہ مزدوروں کو بھی ٹریننگ دیں اور یہ فیکٹری کے دائیں بائیں موجود لوگوں کو بھی اور میری صنعت کاروں سے بھی درخواست ہے آپ بھی خدا خوفی کریں، آپ اگر دنیا میں مریض چھوڑ کر جائیں گے تو یہ مریض حشر تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، ان کی آہیں آپ کی قبروں کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گی چنانچہ آپ مہربانی کریں۔

آپ پیسے کی ہوس میں لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں، آپ ویسٹ ڈسپوزل کا باقاعدہ بندوبست کریں ورنہ دوسروں کے ساتھ ساتھ آپ کے بچے بھی زندہ نہیں رہیں گے کیونکہ جب بیماری آتی ہے تو پھر یہ چھوٹے گھر دیکھتی ہے اور نہ ہی اونچے محل، یہ سب انسانوں کے ساتھ برابرسلوک کرتی ہے لہٰذا آپ خدا کے لیے خدا سے ڈریں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Bechara Mard

By Amirjan Haqqani