سینٹ کیتھرائن اور رسول اللہ ﷺ کا عہد نامہ
آپ اگر قاہرہ سے بائی روڈ شرم الشیخ کی طرف سفر کریں تو آپ کو بحیرہ احمر کے پار ایک وسیع صحرا ملے گا، صحرا کی ایک سائیڈ آخر میں بحیرہ روم، دوسری نہر سویز، تیسری بحیرہ احمر اور چوتھی اسرائیل سے جا ملتی ہے۔
یہ صحرا سینا یا سنائی کہلاتا ہے، سینا میں مختلف سائز کی لاتعداد پہاڑیاں ہیں، جنوبی حصے میں موجود بلند ترین پہاڑ کوہ طورکہلاتا ہے، یہ پہاڑ ساڑھے سات ہزار فٹ بلند ہے، تیرہ سو قبل مسیح میں حضرت موسیٰ ؑ اپنی اہلیہ حضرت صفورا اور بچوں کے ساتھ کوہ طور کے قریب سے گزرے، سردی تھی، آپؑ کو پہاڑ پر آگ نظر آئی، آپؑ آگ کی تلاش میں پہاڑ پر تشریف لے گئے۔
حضرت موسیٰ ؑ کو طور کے دامن میں جلتی ہوئی جھاڑی نظر ٰآئی، آپؑ قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا جلوہ نظر آ یا اورآپؑ کو نبوت مل گئی، یہودیوں نے جھاڑی کے گرد عبادت گاہ بنا دی، حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو یہ علاقہ عیسائی بادشاہوں کے قبضے میں آ گیا، رومن بادشاہ قسطنطین نے 365 میں یہاں ایک چھوٹا سا چرچ (چیپل) بنا دیا، یہ چیپل سکندریہ کی ایک نیک خاتون کیتھرائن کی وجہ سے سینٹ کیتھرائن کہلانے لگا، 565 میں رومن بادشاہ سیزر جسٹینین نے یہاں ایک بڑی خانقاہ تعمیر کر دی، یہ آج تک سلامت ہے۔
حضرت موسیٰ ؑسے منسوب جھاڑی بھی اسی خانقاہ میں موجود ہے، یہ مقام برننگ بش کہلاتا ہے، سینٹ کیتھرائن میں ایک لائبریری بھی ہے، یہ لائبریری دنیا کی دوسری قدیم ترین لائبریری ہے، اس میں دنیا کی قدیم معتبردستاویز موجود ہیں، یہ دستاویز ڈاکومنٹس کہلاتے ہیں، ان ڈاکومنٹس میں نبی اکرمؐ سے منسوب ایک خط مبارک بھی موجود ہے، خط پر آپؐ کے دست مبارک کا نشان ہے، عیسائی اس خط کو نبی اکرمؐ کا Testament Covenant جب کہ مسلمان عہد نامہ کہتے ہیں۔
یہ دنیا میں ایسی واحد دستاویز ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کا نشان ہے۔ یہ مقام تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خلفاء کے قبضے میں رہا لیکن خلفاء راشدین ہوں، بنو امیہ کا دور ہو، عباسیوں اور فاطمیوں کا عہد ہو، سلطان صلاح الدین ایوبی کا زمانہ ہو یا پھر خلافت عثمانی ہو، یہ چرچ بھی محفوظ رہا اور یہ عہد نامہ بھی، مسلمان حکمران بدلتے رہے لیکن ہر حکمران نے اس عہد نامے کا احترام کیا، یہ معاہدہ "تاریخ سینا القدیم" جیسی معتبر کتاب میں بھی موجو دہے۔
عثمانی خلیفہ سلیم اول نے 1516 میں مصر فتح کیا، سلیم اول نہ صرف خود سینٹ کیتھرائن پہنچا بلکہ اس نے اس عہدنامے کی تصدیق بھی کی، عثمانیوں کے دور میں گورنر مصر (پاشا آف مصر) عہد نامے کی تصدیق کے لیے ہر سال سینٹ کیتھرائن جاتا تھا، وہ عہد نامے کو چومتا تھا اور تصدیق نامہ جاری کرتا تھا، یہ تصدیق نامے بھی آج تک چرچ کی لائبریری میں موجود ہیں، میں 92 ہم خیالوں کے ساتھ دوسری مرتبہ سینٹ کیتھرائن پہنچا اور اپنی گناہ گار آنکھوں سے عہد نامے کی زیارت کی۔
یہ عہد نامہ کیا ہے اور یہ کیوں کیا گیا؟ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں، ایک روایت کے مطابق سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے، نبی اکرمؐ نے ان کی میزبانی فرمائی، متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا، ہمیں خطرہ ہے جب مسلمان طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے، آپؐ نے جواب دیا، آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے، متولیوں نے عرض کیا، ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں۔
آپؐ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں تا کہ ہم مستقبل میں آپؐ کے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں، آپؐ نے تحریر لکھوائی، تصدیق کے لیے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہد نامہ ان کے حوالے کر دیا، وہ لوگ واپس آئے اور معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا، مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے، فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا اور واپس لوٹ گئے، سینٹ کیتھرائن اسلامی دنیا کا واحد مقام ہے جو اس عہد نامے کی وجہ سے آج تک کسی مسلمان بادشاہ کے زیرقبضہ نہیں رہا، یہ خانقاہ ہر دور میں آزاد رہی، یہ آج بھی آزاد ہے، وہ عہد نامہ کیا تھا، میں دوسری بار اس کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔
"یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا جنھیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمایندہ بنا کر بھیجا گیا تا کہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو، بے شک اللہ قادر مطلق اور دانا ہے، یہ خط اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے ہے، یہ معاہدہ ہمارے اوردور و نزدیک، عربی اور عجمی، شناسا اور اجنبی اور عیسائیوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکاروں کے درمیان ہے، یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ کفر کرے گا، وہ اس حکم سے روگردانی کا راستہ اختیار کرے گا، معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خدا اور اس کے حکم کا نافرمان ہو گا، اس (خط ) حکم کی نافرمانی کرنے والا بادشاہ یا عام آدمی خدا کے قہر کا حق دار ہو گا، جب کبھی عیسائی عبادت گزار اور راہب ایک جگہ جمع ہوں، چاہے وہ کوئی پہاڑ ہو یا وادی، غار ہو یا کھلا میدان، کلیساء ہو یا گھر میں تعمیر شدہ عبادت گاہ ہو تو بے شک ہم (مسلمان) ان کی حفاظت کے لیے ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے، میں، میرے دوست اور میرے پیروکار ان لوگوں کی جائیدادوں اور ان کی رسوم کی حفاظت کریں گے، یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں، ان پر ہر طرح کا جزیہ ساقط ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں، انھیں کسی طرح مجبور، خوف زدہ، پریشان یا دبائو میں نہیں لایا جائے گا، ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں، کسی کو حق نہیں یہ ان کو لوٹے، ان کی عبادت گاہوں اور کلیسائوں کو تباہ کرے اور ان (عمارتوں ) میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے، جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا، ان کے قاضی، راہب اور عبادت گاہوں کے رکھوالوں پر بھی جزیہ نہیں، ان سے کسی قسم کا جرمانہ یا ناجائز ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، بے شک میں ان سے وعدے کی پاس داری کروں گا، چاہے یہ زمین میں ہیں یا سمندر میں، مشرق میں ہیں یا مغرب میں، شمال میں ہیں یا جنوب میں، یہ میری حفاظت میں ہیں، ہم اپنے مذہبی خدا کی عبادت میں زندگی وقف کرنے والوں (راہبوں ) اور اپنی مقدس زمینوں کو زرخیز کرنے والوں (چرچ کے زیر انتظام زمینوں ) سے کوئی ٹیکس یا آمدن کا دسواں حصہ (عشر) نہیں لیں گے، کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کے معاملات میں دخل دے یا ان کے خلاف کوئی اقدام کرے، ان کے زمین دار، تاجر اور امیر لوگوں سے لیا جانے والا ٹیکس 12 درہم (Drachma) سے (موجودہ 200 امریکی ڈالر) سے زائد نہیں ہو گا، ان کو کسی طرح کے سفر (نقل مکانی) یا جنگ میں حصہ لینے (فوج میں بھرتی) پر بھی مجبور نہیں کیا جائے گا، کوئی ان سے جھگڑا یا بحث نہ کرے، ان سے قرآن کے احکام کے سوا کوئی بات نہ کرو "اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو" (سورۃ العنکبوت آیت 46) پس یہ مسلمانوں کی جانب سے ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ ہیں، چاہے یہ عبادت گاہ میں ہیں یا کہیں اور، کسی عیسائی عورت کی مسلمان سے اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو سکتی، اس کو اس کے کلیساء جانے سے نہیں روکا جا سکتا، ان کے کلیسائوں کا احترام ہو گا، ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اور انھیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاس داری کرے"۔
عہد نامے کے نیچے نبی اکرم ؐ کے دست مبارک کا نقش ہے، یہ نقش رسول اللہ ﷺ کے دستخط کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے 1400 سال کی تاریخ میں اس عہد نامے کا احترام کیا، ہم نے ان برسوں میں کسی چرچ پر حملہ کیا، کوئی راہب قتل کیا اور نہ ہی کسی کلیساء کی زمین پر قبضہ کیا حتیٰ کہ صلیبی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے پر عمل ہوتا رہا، حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد کلیساء میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا، اموی خلفاء نے دمشق میں جامع امیہ بنانے کا فیصلہ کیا تو عیسائیوں سے چرچ کی زمین باقاعدہ خریدی بھی گئی اور انھیں پورے دمشق میں "جہاں چاہیں اور جتنے چاہیں " چرچ بنانے کی اجازت بھی دی۔
اسپین میں بھی آٹھ سو سال عیسائی اور چرچ محفوظ رہے، مسجد قرطبہ میں چرچ کی زمین کا تھوڑا سا حصہ آ گیا، خلیفہ نے تعمیر رکوا کر پادری سے اجازت لی اور معاوضہ ادا کیا، سعودی عرب، عراق، مصر، ترکی، فلسطین، ایران اور سینٹرل ایشیا میں آج بھی پونے دو ہزار سال پرانے چرچ موجود ہیں، یہ چرچ ان ادوار میں بھی سلامت رہے جب مسلمان مسلمان کی خانقاہیں گرا دیتے تھے، جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان قتل ہو جاتے تھے، امیر تیمور نے 58 اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر کلیساء محفوظ رہے۔
ہم نے یہ عہد نامہ دیکھا، دور سے اسے بوسہ دیا، درود شریف پڑھا اور سینٹ کیتھرائن سے باہر آ گئے، یہ ہماری زندگی کی شان دار ترین زیارت تھی۔