پرفارمنس
بادشاہ حلف اٹھانے کے بعد دانشور کے پاس گیا، گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور عرض کیا " مجھے یہ سلطنت مشکل حالات میں ملی ہے، ملک غربت، جہالت، ناانصافی اور چور بازاری کے کیچڑ میں دھنس چکا ہے، فوج مضبوط اور عوام کمزور ہیں، کابینہ کا فیصلہ بھی جرنیل کرتے ہیں، دشمن ہماری سرحدوں پر بیٹھے ہیں، یہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کر دیں گے، میں اگر دشمن سے نہیں نمٹتا تو یہ سلطنت کو تباہ کر دیں گے، میں ان سے نمٹ لیتا ہوں تو میری فوج مجھے کھا جائے گی اور میں اگر ان دونوں سے بچ گیا تو میں عوام کے غیظ و غضب سے کیسے بچوں گا، یہ بھوکے، ننگے، بے آسرا لوگ میری تکا بوٹی کر دیں گے اور میں اگر ان سے بھی محفوظ رہا تو میرے اقتدار کے بھوکے بھائی مجھے آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے" دانشور نئے بادشاہ کی بات سن کر ہنس پڑا۔
دنیا میں قدیم دور سے اتالیق، دانشور اور سیانے چلے آ رہے ہیں، یہ لوگ معاشرے کی دانش ہوتے ہیں اور ان کا وجود اور ان کی تعداد معاشرے کی اصل طاقت ہوتی ہے، یہ لوگ رومن ایمپائر کے سیزر کے زمانوں میں بھی تھے، یہ ایران کے شاہوں کے وقت بھی ہوتے تھے اور یہ چین، عرب، منگولیا اور ازبک ادوار میں بھی تھے اور یہ آج یورپ اور امریکا کے زمانوں میں بھی موجود ہیں، یہ لوگ قدیم زمانوں سے معتبر چلے آ رہے ہیں اور بادشاہ ہوں یا فقیر لوگ ان کے دربار میں آتے ہیں، ان سے مشورہ کرتے ہیں اور اپنی اپنی زندگی خوبصورت اور مطمئن بنا لیتے ہیں، دنیا کے تمام دانشور آدھے ولی ہوتے ہیں، ولایت کی تین نشانیاں ہوتی ہیں، بے حرصی، بے خوفی اور مٹھاس اور یہ تینوں خوبیاں دانشوروں میں بھی پائی جاتی ہیں، دنیا کا کوئی دانشور اس وقت تک دانشور نہیں ہو سکتا وہ جب تک خود کو لالچ اور خوف سے پاک نہ کر لے اور اس کی زبان، اس کے لفظوں میں چاشنی پیدا نہ ہو جائے لہٰذا دانشور ولایت کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ ایک قدم اٹھا کر ولی بن سکتے ہیں، آپ اس سلسلے میں یونان کے قدیم دانشوروں اور ہندوستان کے اولیاء کرام کی مثال بھی لے سکتے ہیں، ہندوستان کے تمام اولیاء کرام یہ خواہ حضرت داتا گنج بخشؒ ہوں، حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ ہوں، حضرت نظام الدین اولیاء ؒ ہوں یا پھر بابا فرید گنج شکرؒ ہوں یہ تمام اولیاء کرام اپنے زمانوں کے دانشور بھی تھے اور ہندوستان کے بادشاہ دانش سیکھنے کے لیے ان کے پاس حاضر ہوتے تھے، اسی طرح یونان کے بقراط، سقراط، افلاطون اور ارسطو دانشور بھی تھے اور ولی بھی اور مشرقی یورپ کے بادشاہ اور شہزادے مشورے کے لیے ان کے پاس بھی حاضر ہوتے تھے، آج بھی جدید دنیا دانشوروں سے بھری پڑی ہے اور برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ہوں، امریکی صدر اوبامہ ہوں، جرمن چانسلر اینجلا مرکل ہوں یا پھر جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے ہوں یہ دانشوروں کے پاس جاتے اور ان سے عقل کی باتیں سیکھتے ہیں، کل اسرائیل کے چیف ربی عفودیا یوسف کا انتقال ہوگیا۔
یہ اسرائیلی حکمرانوں کے مرشد کہلاتے تھے، گولڈا مائر سے لے کر بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل کے تمام حکمران ان کی محفل میں بیٹھتے تھے اور ان سے جہاں بانی اور تفکر کے گر سیکھتے تھے، ہمارے ملک میں جہاں ہر شعبے میں "ڈی جنریشن" ہوئی وہاں ہم دانش، دانش وری اور دانشوروں کے زوال کا شکار بھی ہیں، ہم جس طرف دیکھتے ہیں ہمیں تاحد نظر کوئی دانشوردکھائی نہیں دیتا اور اگر نظر آتا ہے تو یہ مریدوں اور شاگردوں سے کہیں کمزور، کہیں حریص اور کہیں زیادہ کڑوا ہوتا ہے، ہم حقیقتاً اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ایک ایسے دور سے جس میں موت کا منظر عرف مرنے کے بعد کیا ہو گا جیسی کتابیں ریکارڈ توڑ رہی ہیں اور پیر کامل بالی ووڈ کی فلموں سے زیادہ بزنس کر رہی ہے۔
میں نئے رومی بادشاہ کی طرف واپس آتا ہوں، دانشور نے بادشاہ کی بات سنی اور صرف ایک لفظ کا جواب دیا "پرفارمنس" بادشاہ نے تاج اتار کر تکریم پیش کی اور محل میں واپس چلا گیا، اس نے ملک کے مسائل کی فہرست بنوائی، اس میں سے عوامی مسائل الگ کیے، ان مسائل میں سے انتہائی غریب طبقوں کے مسئلوں کی الگ فہرست بنوائی، خزانے کا جائزہ لیا اور اگلے دن انتہائی غریب طبقے کے تمام مسائل حل کرنے کا اعلان کر دیا، اس نے سرکاری زمینیں غریبوں میں تقسیم کر دیں، غریبوں کو دس سال کے لیے ٹیکس فری کر دیا، جو غریب کوئی ہنر سیکھ جاتا اسے سرکاری رقم سے ورکشاپ یا دکان بنا کر دی جاتی، غریبوں کو پکے مکان بنا کر دیے گئے، امیروں کو ان غریبوں کا استاد بنا دیا گیا اور ان کا سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ رکھ دیا گیا، بادشاہ نے اس کے بعد درمیانے طبقے پر توجہ دی، اس نے ان کی مراعات ان کی "آئوٹ پٹ" سے وابستہ کر دیں، یہ جس قدر پرفارم کرتے تھے انھیں اس قدر سبسڈی ملتی، یہ اس کے بعد امیروں کی طرف آیا۔
اس نے امیروں کو دشمن کے بجائے دوست بنا لیا، اس نے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا، جو سرمایہ کار سو لوگوں کو ملازمت دیتا، اسے ٹیکس میں سہولت مل جاتی، جو جاگیردار پچھلے سال سے زیادہ فصل دیتا، اس کی سہولتوں میں اضافہ کر دیا جاتا اور جو دکاندار اپنی نئی برانچ کھولتا اس کا ٹیکس بھی کم ہو جاتا اور بادشاہ اس کے بعد سرکاری ملازموں اور وزراء کی طرف آیا، اس نے ان کی ترقی پرفارمنس سے منسلک کر دی، جو پرفارم کرتا وہ برقرار رہتا اور جو مطلوبہ نتائج نہ دیتا وہ خواہ بادشاہ کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہوتا وہ عہدے سے فارغ ہو جاتا، بادشاہ نے خود بھی سادگی اختیار کر لی، وہ محل سے چھائونی میں شفٹ ہوگیا، اس نے انتہائی غریب خاندانوں سے دو ہزار ذہین بچے جمع کیے، انھیں محل میں رکھا اور ان کی تعلیم و تربیت شروع کر دی۔
بادشاہ کے ان اقدامات نے عوام کا دل موہ لیا اور وہ عوام کے دلوں میں دھڑکنے لگا، یہ پاپولیرٹی بادشاہ کو مضبوط سے مضبوط بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ایک بار پڑوسی ملک نے اس ملک پر حملہ کر دیا، پورا ملک ہتھیار لے کر میدان جنگ میں کود پڑا، دشمن نے جب اپنے سامنے انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھا تو اس کے چھکے چھوٹ گئے، فوج نے بادشاہ کو معزول کرنے کی کوشش کی تو عوام نے تمام چھائونیوں کا گھیرائو کر لیا اور بادشاہ کو ایک بار محلاتی سازشوں کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو شہزادوں کے لیے عوام سے جان بچانا مشکل ہو گیا کیونکہ بچہ بچہ اپنے بادشاہ، اپنے حکمران کے ساتھ کھڑا تھا مگر یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے، بادشاہ عوام کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دے رہا تھا، اس نے عوام کے لیے خزانوں کے دروازے کھول دیے تھے پھر حکومت ریونیو کہاں سے حاصل کرتی تھی؟
بادشاہ نے اس کے لیے تین کام کیے، وہ آمدنی کے لیے قدرتی وسائل کی طرف چلا گیا، اس نے دیکھا ملک میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں، ملک میں سونے اور ہیروں کی کانیں بھی ہیں، ملک میں دریا اور سمندر بھی ہیں اور ملک میں سیکڑوں ہزاروں تفریحی مقامات بھی ہیں، بادشاہ نے یہ تمام وسائل پرائیویٹائز کر دیے، اس نے کانیں غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیں، یہ کمپنیاں زمین سے قدرتی وسائل نکالتیں، آدھا سرکاری خزانے میں جمع کرا دیتیں اور آدھا خود لے جاتیں، اس نے دریائوں اور سمندر سے گزرنے والے جہازوں پر ٹیکس لگا دیا اور اس نے تفریحی مقامات بھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیے، یہ کمپنیاں وہاں سے سرمایہ جمع کرتیں اور ایک خاص حصہ سرکار کو دے دیتیں، دو، اس نے ٹیکس کا نظام شفاف بنا دیا، اس نے اعلان کر دیا، آپ غریب ہیں تو آپ کے لیے ٹیکس معاف ہے لیکن آپ اگر اتنے امیر ہو چکے ہیں کہ آپ اثاثے بنا سکتے ہیں یا روپیہ پیسہ جمع کر سکتے ہیں تو آپ اس کا صرف دس فیصد سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں، ریاست آپ اور آپ کے اثاثوں کی حفاظت کرے گی، لوگ خوشی خوشی ٹیکس دینے لگے اور اس کا تیسرا کام انصاف تھا، اس کی عدالتیں آزاد، خود مختار اور ایماندار تھیں، یہ روزانہ کے مقدموں کا فیصلہ روزانہ کرتی تھیں یوں لوگوں کو انصاف مل رہا تھا اور اس کی وجہ سے معاشرہ خوشحال اور مطمئن تھا، ان اقدامات کی وجہ سے عوام بادشاہ کو دل کھول کر دعائیں دے رہے تھے، عوام جب مطمئن، خوش حال اور سکھی ہوتے ہیں تو یہ حکمرانوں کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں اور یہ دعائیں برکت بن کر معاشرے میں نظر آتی ہیں، عوام کی دعائوں نے حکومت کے ہر کام میں برکت پیدا کر دی لہٰذا یوں پورا ملک خوشحال اور خوش ہو گیا۔
نوٹ: یہ کہانی آج کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے لیے لکھی گئی ہے، یہ اگر چاہیں تو یہ کہانی حقیقت بن سکتی ہے کیونکہ کہانی اور حقیقت میں صرف عمل کا فرق ہوتا ہے، آپ آج عمل شروع کر دیں، آپ کی کہانی کتاب سے نکل کر حقیقت بن جائے گی اور آپ آج عمل چھوڑ دیں آپ کی تمام حقیقتیں کہانی بن کر کتابوں کے ٹھنڈے صفحوں کا رزق بن جائیں گی، اس عوامی مینڈیٹ کی طرح آپ جس کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کی مسند تک پہنچے مگر یہ مینڈیٹ صرف سو دن بعد کہانی بننا شروع ہوگیا، کیوں؟ کیونکہ آپ عمل نہیں کر رہے، آپ صرف لفظوں سے کھیل رہے ہیں۔