کوئی ایک جوزف بازل
یہ آج سے اڑھائی سو سال پہلے کی بات ہے، 1750ءسے 1810ءکے درمیان لندن کی آبادی 15 لاکھ تک پہنچ چکی تھی، آبادی کے لحاظ سے اس وقتیہ دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا، لندن میں سر ہی سر نظر آتے تھے، شہر منصوبہ بندی کے بغیر بڑا ہوا تھا چنانچہ سڑکیں، بازار اور رہائشی آبادیاں لوگوں کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں، سیوریج سسٹم نہیں تھا، ہر گھر کے سامنے سپٹک ٹینک ہوتا تھا، شہر میں دو لاکھ گٹر تھے اور یہ گٹر صبح شام ابلتے رہتے تھے۔
گندا پانی گلیوں میں بہتا تھا، بارش اس غلیظ پانی کو دریائے تھیمز میں ڈال دیتی تھی اور میٹرو پولیٹن بعدازاں دریا کا پانی پمپ کر کے گھروں کو سپلائی کر دیتی تھی اور یوں شہری اپنا ہی سیوریج پیتے تھے، شہر کے غرباءتہہ خانوں میں رہتے تھے، گھروں کے یہ حصے اکثر اوقات سیوریج کے پانی سے بھرے رہتے تھے یا پھر وہاں گندے پانی کی سیلن ہوتی تھی، یہ گندگی بیماری میں تبدیل ہوئی اور1831ءمیں لندن میں ہیضے کی خوف ناک وبا پھوٹ پڑی، 55 ہزار لوگ مر گئے، یہ وبا، گندگی اور بدبوہاؤس آف کامنز کے اندر تک پہنچ گئی، سیلن کے اثرات برطانوی پارلیمنٹ کے فرش، دیواروں اور ستونوں میں بھی دکھائی دینے لگے، ہاؤس آف کامنز کے پردے تک بدبودار پانی میں بھیگ گئے، ارکان پارلیمنٹ ناک پر رومال رکھ کر اسمبلی آتے تھے، یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ گورنمنٹ نے تدارک کا فیصلہ کیا، مختلف ماہرین نے مختلف تجاویز دیں لیکن یہ تمام عارضی علاج تھے، حکومت کوئی مستقل حل چاہتی تھی، یہ ذمہ داری بہرحال جوزف بازل گیٹ کو سونپ دی گئی، وہ اس وقت میٹرو پولیٹن کا چیف انجینئر تھا، ذہین، معاملہ فہم اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا ماہر تھا، جوزف نے پورے لندن کا سروے کرایا، تمام لوگوں کا ڈیٹا جمع کیا، ہر شخص سے پوچھا وہ کتنی بار واش روم جاتا ہے، استعمال اور تعداد کو بعد ازاں آپس میں ضرب دی، پھر اسے تین گنا کر دیا اور پھر اس ڈیٹا کو پائپوں سے ضرب دے کر لندن میں سیوریج کا سسٹم بچھانا شروع کر دیا۔
جوزف نے پورے شہر کو سیوریج سے جوڑا، شہر سے دس کلو میٹر دور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا، سیوریج لائین کو اس پلانٹ سے منسلک کیا، سیوریج صاف کیا اور پھر صاف پانی دریا تھیمز میں ڈال دیا، لندن کا سیوریج ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا، جوزف کا سسٹم کس قدر مکمل اور شان دار تھا حکومت کو اس کا اندازہ 1960ءکی دہائی میں ہوا، لندن میں 1960ءمیں پراپرٹی کا بوم آیا، اپارٹمنٹس ٹاورز اور ہائی رائز بلڈنگز بنیں، سیاحوں کی تعداد میں بھی دس گنا اضافہ ہو گیا۔
حکومت کا خیال تھا شہر کا سیوریج سسٹم یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا اور میٹرو پولیٹن توسیع پر مجبور ہو جائے گی لیکن میئریہ جان کر حیران رہ گیا جوزف بازل گیٹ کا سسٹم نہ صرف یہ دباؤ برداشت کر گیابلکہ شہر میں کسی جگہ سیوریج چوک ہوا اور نہ اس کے بہاؤ میں رکاوٹ آئی، جوزف بازل گیٹ کا یہ سسٹم بعد ازاں پورے برطانیہ اور پھر یورپ کے تمام بڑے شہروں میں لگا دیا گیاتاہم فرانس، جرمنی اور سپین نے اس سسٹم میں ایک اضافہ کر دیا۔
یہ ملک سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کر کے گھروں میں واپس بھجوادیتے ہیں اور یہ پانی کموڈز میں دوبارہ استعمال ہوتا ہے، آج یورپ کے نوے فیصد گھروں میں پانی کی دو لائنیں بچھائی جاتی ہیں، پہلی لائین صاف پانی سپلائی کرتی ہے، لوگ یہ پانی پیتے اور اس سے کھانا پکاتے ہیں جب کہ دوسری لائین میں ٹریٹمنٹ شدہ پانی ہوتا ہے، یہ پانی باتھ رومز، ٹوائلٹس، لانڈری، لانز اور گیراج میں استعمال ہوتا ہے، یورپ میں حکومتیں ہر گھر سے پانی کا بل بھی وصول کرتی ہیں، بل پانی میں کفایت شعاری کی عادت بھی ڈالتا ہے اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گندگی ہے، یہ کرپشن، ناانصافی اور عدم مساوات سے بھی بڑا ایشو ہے، ہم من حیث القوم گندے لوگ ہیں، معاشرہ کچن سے شروع ہوتا ہے اور واش روم میں ختم ہوتا ہے اور ہماری یہ دونوں جگہیں انتہائی گندی ہوتی ہیں، آپ کروڑ پتی لوگوں کے گھروں میں بھی چلے جائیں، آپ کسی شہر کی کسی گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر ملیں گے، ہماری مسجدوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی گندگی ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا، ملک کے سارے سرکاری واش رومز انتہائی گندے ہوتے ہیں، آپ سسٹم کی گندگی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے، اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی کچرا ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں، اسلام آباد کا آدھا سیوریج نالوں اور ڈیم میں جاتا ہے، لاہور کا گند راوی اور کراچی کا کچرا سیدھا سمندر میں گرتا ہے اور سمندر بعد ازاں یہ اٹھا کر شہر میں واپس پھینک دیتا ہے اور آپ ملک کے کسی سیاحتی مقام پر چلے جائیں، آپ کو وہاں گند کے ڈھیر ملیں گے۔
ہمیں ماننا ہوگا ہم 21 ویں صدی میں بھی لوگوں کو گند صاف کرنے کا طریقہ نہیں سکھا سکے، ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے صابن سے ہاتھ دھونا کتنا ضروری ہے، ہم انہیں یہ بھی نہیں سمجھا سکے آپ جو گند سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں وہ اڑ کر دوبارہ آپ کے گھر آجاتا ہے یا یہ آپ کی سانس کی نالیوں کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے، ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے گٹر کا پانی زمین میں موجود پانی اور پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے اور ہم اور ہمارے خاندان یہ پانی پیتے ہیں اور یوں ہم مہلک امراض کا نشانہ ہو جاتے ہیں۔
ہم لوگوں کو آج تک یہ بھی نہیں بتا سکے ہمارا ملک اگر ہائیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے، ٹی بی میں پانچویں، شوگر میں ساتویں اور گردے کے امراض میں آٹھویں نمبر پر ہے یا ہمارے ملک میں ہر سال تین لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو اس کی اصل وجہ گند ہے، ہم لوگ گندے ہاتھوں سے گندے برتنوں میں کھاتے ہیں اور گندا پانی پیتے ہیں چنانچہ ہم سب بیمار ہو چکے ہیں، ہم لوگوں کو صفائی کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے۔
ہم بتا بھی کیسے سکتے تھے!کیوں؟ کیوں کہ حکومت کو خود پتا نہیں ہے، آپ آج کراچی کی صورت حال دیکھ لیں، بارش نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے تمام سسٹم ننگے کر دیے ہیں، پورا شہر اس وقت پانی، کیچڑ، کچرے اور تعفن میں دفن ہے اور یہ تعفن اوریہ گند کیا بتا رہا ہے؟ یہ بتا رہا ہے ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی دشمن یا کسی بم کی ضرورت نہیں، ہمارے لیے کچرا اور بیماریاں ہی کافی ہیں۔ ہمارے پاس اب دوآپشن ہیں، ہم کچرے اور بیماریوں کے ہاتھوں ختم ہو جائیں یا پھر ہم جوزف بازل گیٹ کی طرح لمبی پلاننگ کریں لہٰذا حکومت(وفاقی اور صوبائی) کو فوراً چند بڑے قدم اٹھانا ہوں گے۔
گند ہماری فطرت، ہماری عادت میں شامل ہے، حکومت کو یہ عادت بدلنے کے لیے فوری طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اسے پرسنل ہائی جین سے لے کر ماحولیات تک صفائی کا سلیبس بنانا ہوگا اور یہ سلیبس پہلی سے دسویں جماعت تک سکولوں میں متعارف کرانا ہوگا، حکومت کو پورے پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس بھی بنوانے ہوں گے اور عوام کو ان کے استعمال کا طریقہ بھی سکھانا ہوگا، ہم آج بھی پینے کا صاف اور میٹھا پانی فلش میں بہاتے ہیں، ہمیں یہ ٹرینڈ بھی فوراً بدلنا ہوگا۔
حکومت فوری طور پر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نئی تعمیرات کے لیے نئے بائی لاز بھی بنائے اور فلش اور صاف پانی کی لائین بھی الگ الگ کرے اور یہ ہر گھر میں چھوٹے سے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو بھی لازمی قرار دے دے، یہ پلانٹ استعمال شدہ پانی صاف کر کے دوبارہ فلش کے ٹینکوں میں ڈالے اور پھر صاف کرے اور پھر مین سیوریج لائین میں ڈالے، ہم اگر فوری طور پر یہ بندوبست پورے ملک میں نہیں کر سکتے تو ہم کم از کم ملک کے دس بڑے شہروں میں تو یہ سسٹم متعارف کرا سکتے ہیں۔
حکومت اسی طرح کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا جدید سسٹم بھی بنائے، یہ ہر شہر میں صفائی کے ڈائریکٹوریٹ بنائے، لوگ بھرتی کرے، گھروں سے فیس لے اور پھر اگر کسی شہر کی کسی گلی میں کچرا نظر آئے تو یہ ذمہ داروں کو الٹا لٹکا دے، دنیا میں کچرے سے بجلی بنانے کے پلانٹس بھی آ چکے ہیں، حکومت ہر شہر میں یہ پلانٹس بھی لگوا سکتی ہے یوں بجلی کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور کچرا بھی ٹھکانے لگ جائے گا اور حکومت ہر کچے اورپکے مکان کے لیے باتھ روم کا سائز اور ڈیزائن بھی فائنل کر دے۔
پلمبرز کو اس ڈیزائن کی ٹریننگ دی جائے اور انہیں پابند بنایا جائے، جو پلمبر خلاف ورزی کرے گا اسے سات سال قید بامشقت دے دی جائے گی، ریستورانوں اور دکانوں میں بھی باتھ روم لازمی ہوں اور ان کا باقاعدہ سٹینڈرڈ ہو، موٹروے پولیس کی طرح سینیٹری پولیس بھی بنائی جائے، یہ پولیس گند پھیلانے والوں کو بھاری جرمانہ کرے، یہ گھروں اور پبلک باتھ رومز کا معائنہ بھی کرے اور اسی طرح ملک میں زمین کا کوئی چپہ بھی خالی نظر نہیں آنا چاہیے، زمین کے ایک ایک انچ پر پودا ہونا چاہیے، وہ خواہ پھول ہو، گھاس ہو یا پھر درخت ہو، پورا ملک سبز ہونا چاہیے۔
پاکستان کے ہر طالب علم، ہر ملازم اور ہر کمپنی کے لیے درخت لگانا لازمی قرار دے دیا جائے، لوگ ہر سال ٹیکس ریٹرن کی طرح گرین ریٹرن بھی فائل کریں اور حکومت اس کا آڈٹ بھی کرے اورآخری تجویز حکومت جوزف بازل گیٹ جیسا کوئی شخص تلاش کر کے کراچی کا سیوریج سسٹم اور کچرا ٹھکانے لگانے کا کام اس کے حوالے کر دے، ہم فیصلہ کر لیں ہم کراچی کو تین سال میں کلین اور گرین کر دیں گے اور ہم اگر 22 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ایک جوزف بازل گیٹ بھی تلاش نہیں کر سکتے، ہم اگر کچرا بھی نہیں اٹھاسکتے اور نالے بھی صاف نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں ملک کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کیوں کہ کچرا اور یہ ملک اب دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکیں گے۔