کم از کم عدلیہ کو
ہم اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی خوبیوں اور خامیوں کی بیلنس شیٹ بنائیں تو ان کی خوبیوں کا خانہ بڑا بھی ہو گا اور مکمل بھی، چوہدری صاحب سے پہلے سپریم کورٹ کے 19 چیف جسٹس گزرے ہیں لیکن جتنی عزت، شہرت اور مقبولیت افتخار محمد چوہدری کو نصیب ہوئی اتنی اللہ تعالیٰ نے کسی دوسرے جج اور چیف جسٹس کو نہیں دی، ہمارے آئین نے ہر چیف جسٹس کو بے تحاشا اختیارات دیے مگر ان اختیارات کو استعمال صرف افتخار محمد چوہدری نے کیا، چوہدری صاحب نے جہاں جنرل پرویز مشرف کے غرور کے قلعے میں سوراخ کیے، یہ جہاں شوکت عزیز کے عزائم کے راستے کی دیوار بنے، یہ جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی بنے، انھوں نے جہاں 2008ء کے الیکشن کی راہ ہموار کی، یہ جہاں عوام کو سڑکوں پر لے آئے، یہ جہاں آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور چوہدری پرویز الٰہی کی بے مہار خواہشوں کو لگام پہناتے رہے، یہ جہاں کراچی کے طاقت کے بت توڑتے رہے، یہ جہاں این آئی سی ایل، ایفی ڈرین، حج سکینڈل اور رینٹل پاور پلانٹس سکینڈل کے گلے کی ہڈی بن گئے اور یہ جہاں 2013ء میں پرامن سیاسی تبدیلی کے ضامن ثابت ہوئے، یہ وہاں عام مظلوم پاکستانیوں کی آواز بھی بن گئے، چوہدری صاحب کے دور میں عام لوگ ایک سادے کاغذ پر درخواست لکھ کر سپریم کورٹ بھجوا دیتے تھے اور چیف جسٹس فرعونوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس شخص کو انصاف دلاتے تھے۔
سپریم کورٹ میں ہیومن رائیٹس کمیشن بنا اور اس کمیشن نے ایک لاکھ ستاسی ہزار سات سو چون عام لوگوں کو انصاف دلایا، چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس کو انصاف کی تلوار بنا دیا اور یہ تلوار آٹھ سال تک پورے سسٹم کی گردن پر لٹکتی رہی، یہ پاکستان کے ان فرعونوں کو بھی قانون کے سامنے جھکانے میں کامیاب ہو گئے جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے تھے، افتخار محمد چوہدری کے دور میں چیف آف آرمی اسٹاف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور آئی جی، چیف سیکریٹریز اور وفاقی سیکریٹریز بھی، عدالتی احکامات کے ذریعے بے شمار بیوروکریٹس اپنی نوکریوں سے بھی فارغ ہوئے، افتخار محمد چوہدری کے حکم سے وزیر اعظم تک فارغ ہوا اور ان مِسنگ پرسنز کی آواز بھی عالمی فورمز تک پہنچی جنھیں ہمارا نظام ظلم کے بعد آہ تک لینے کی اجازت نہیں دیتا تھا، عدالت نے چوہدری صاحب کے دور میں آلو، ٹماٹر اور چینی سے لے کر بجلی اور گیس کی قیمتیں تک کنٹرول کیں اور عوام کو ان اقدامات سے ریلیف بھی ملا اور جانبدار سے جانبدار شخص بھی ان کے ان اقدامات کو مسترد نہیں کر سکتا، چوہدری صاحب کے عروج نے ثابت کیا، ہمارے سسٹم میں ایک خوفناک "گیپ" موجود ہے، ہمارا سسٹم عام شہریوں کو ریلیف نہیں دے رہا، عوام اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں، افتخار چوہدری اس عدم اطمینان، اس بے چینی اور اس "گیپ" کی پیداوار تھے، یہ سسٹم اگر "ورک" کر رہا ہوتا تو شاید افتخار محمد چوہدری کو اتنی پذیرائی نہ ملتی، یہ اتنے پاپولر نہ ہوتے، چوہدری صاحب کے جانے کے بعد بھی یہ گیپ، یہ عدم اطمینان موجود ہے اور یہ بے چینی اور یہ گیپ نہ صرف مستقبل میں چوہدری صاحب جیسے کردار پیدا کرتا رہے گا بلکہ ان جیسے لوگوں کی پیداوار میں اضافہ بھی ہو گا کیونکہ چوہدری صاحب اس معاشرے میں ایک کامیاب مثال بن چکے ہیں، یہ ان اداروں اور شخصیات کا خوف توڑ چکے ہیں جن کی اجازت کے بغیر ملک میں پتا نہیں ہلتا تھا اور جن کے اشارۂ ابرو سے وفاداریاں تبدیل ہوا کرتی تھیں، افتخار محمد چوہدری نے یہ بھی ثابت کر دیا ہمارے معاشرے میں اگر ایک شخص کھڑا ہو جائے تو یہ ظلم اور زیادتی کے مضبوط ترین نظام کو پسپا ہونے پر مجبور کر سکتا ہے اور یہ چوہدری صاحب کے کارناموں کی فہرست میں شاہ کارنامہ ہے۔
ہم جہاں افتخار محمد چوہدری کے کارناموں کا اعتراف کر رہے ہیں وہاں آج ان کی چند خامیوں یا چند غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے، چوہدری صاحب سے چند غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور ان جیسے بڑے انسان کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا، چوہدری صاحب کی سب سے بڑی خامی ان کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار ہیں، چوہدری صاحب نے شوکت عزیز کے دور میں انھیں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے پولیس فورس میں داخل کرایا، یہ تقرری خلاف قاعدہ تھی اور یہ ایشو بعد ازاں حکومت سے ان کی لڑائی کی وجہ بنا، ڈاکٹر ارسلان گزشتہ آٹھ برسوں میں کئی بار چیف جسٹس کی بدنامی کی وجہ بنے، ملک ریاض سے رقم وصول کرنے کا ایشو ہو، مونٹی کارلو اور لندن کے دورے اور مہنگی ترین شاپنگ ہو، موبائل فونز کے ٹاورز کے ٹھیکے ہوں یا تھری جی لائسنس کا ایشو ہو ڈاکٹر ارسلان پر بے شمار الزام لگے اور یہ الزامات چیف جسٹس اور عدلیہ کی بدنامی کا باعث بنے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف صاحب نے اگر سفید اجلی قمیض پہن رکھی تھی تو پھر انھیں اپنے دامن کو سیاہی سے بھی بچا کر رکھنا چاہیے تھا، یہ اپنے صاحبزادے کو بھی کنٹرول کرتے۔
چیف جسٹس حکومت سے غیر ضروری پروٹوکول اور سیکیورٹی بھی لیتے رہے، انھوں نے وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں سے صدر، وزیر اعظم اور غیر ملکی سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول لیا، یہ پروٹوکول غیر قانونی بھی تھا اور بلاجواز بھی، چیف جسٹس بلیو بک کے تحت یہ پروٹوکول اور سیکیورٹی نہیں لے سکتے تھے لیکن چیف جسٹس کے پاس ایک بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو، ایک مرسڈیز بھی تھی، انھیں رینجرز کا اسکواڈ بھی ملا ہوا تھا، پولیس کے دستے بھی اور ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی، ان کے ساتھ ایس پی، ایک ڈی ایس پی، ڈی ایس پی ٹریفک اور کمانڈوز بھی ہوتے تھے، یہ اسلام آباد ائیر پورٹ یا موٹروے کے لیے نکلتے تھے تو ان کے راستے میں دو سو سے پانچ سو تک پولیس اہلکار کھڑے ہوتے تھے جب کہ ایس پی لیول کا ایک پولیس آفیسر اس کاروان کی نگرانی کرتا تھا، یہ سیکیورٹی ان کی فیملی کو بھی حاصل تھی، فیملی جب گھر سے نکلتی تھی تو "اعظم ون" کے نام سے وائر لیس پر پیغام نشر ہوتا تھا اور پولیس خاندان کے افراد کو وزیر اعظم کی فیملی کے برابر پروٹوکول اور سیکیورٹی دینے پر مجبور ہوتی تھی، چیف صاحب اور ان کی فیملی کے لوگ اکانومی کلاس کے ٹکٹ پر بزنس کلاس میں بھی سفر کرتے تھے، ائیر پورٹ پر ان کی گاڑی جہاز کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی اور یہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اور یہ اقدام ائیر پورٹ سیکیورٹی اور مسافروں کے لیے خطرناک بھی تھا، یہ سول ایوی ایشن کے بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی، لاہور اور کراچی ائیر پورٹ پر جہاز ٹنلز کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اور تمام مسافر ٹنل کے ذریعے جہاز میں آتے ہیں اور لائونج سے باہر نکلتے ہیں، چیف جسٹس ٹنل کے ذریعے جہاز سے نہیں نکلتے تھے چنانچہ انھیں لاہور اور کراچی ائیر پورٹ پر ایمرجنسی سیڑھی کے ذریعے جہاز سے اتارا جاتا تھا اور یہ وہاں سے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو جاتے تھے جب کہ اگر وزراء اعلیٰ، گورنرز اور وزیر اعظم کمرشل فلائٹ پر سفر کر رہے ہوں تو یہ ٹنل اور لائونج کے ذریعے باہر آتے ہیں، ائیر پورٹس پر مسافروں کی سیٹیں تبدیل کر کے ان کی فیملی کو جہازوں میں سوار کیا جاتا تھا اور انھیں الگ گاڑی میں بٹھا کر لائونج تک لایا جاتا تھا، چیف جسٹس کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پر ایس پی کھڑے ہوتے تھے اور یہ ان کی منزل تک انھیں پروٹوکول دیتے تھے، یہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ جاتے تھے تو ان کے ساتھ سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ستر اسی اہلکار ہوتے تھے اور ان کے لیے راستے کے ٹریفک سگنلز بند کر دیے جاتے تھے، چیف جسٹس کے راستے میں دو، تین اور بعض اوقات پانچ سو تک پولیس اہلکار بھی کھڑے کیے جاتے تھے، ہو سکتا ہے چیف جسٹس کو سیکیورٹی کی ضرورت ہو لیکن پروٹوکول اور سیکیورٹی میں بہت فرق ہوتا ہے، چیف جسٹس کو سیکیورٹی کم پروٹوکول دیا جاتا تھا جو قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط تھا، چیف جسٹس میڈیا پر ڈسکس ہونا بھی پسند کرتے تھے، ان پر الزام تھا یہ ہر اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دیتے تھے جو میڈیا پر اہمیت اختیار کرتا تھا، یہ اس کیس کو دو، دو تین تین مہینے گھسیٹتے تھے اور آخر میں غیر واضح فیصلہ جاری کر دیتے تھے، آپ اصغر خان کیس، کراچی بدامنی کیس، میمو سکینڈل، حج کرپشن کیس اور مسنگ پرسنز کیس کی مثال لے سکتے ہیں، یہ مقدمے کئی ماہ تک زیر سماعت رہے لیکن فیصلہ آیا تو یہ ادھورا تھا یا پھر فیصلے کی ذمے داری کسی سرکاری محکمے پر ڈال دی گئی تھی، چیف صاحب پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا تھا، ان کے چیمبر کی کھڑکی میڈیا ہائوس میں کھلتی تھی، میڈیا کبھی مقبولیت کی گیند اس کھڑکی کے اندر پھینک دیتا تھا اور کبھی چیف صاحب کوئی گیند اٹھا کر میڈیا کی جھولی میں ڈال دیتے تھے اور یوں سپریم کورٹ اور میڈیا دونوں ایک دوسرے کے دوست بن کر آگے بڑھتے رہے۔
یہ وہ چند غلطیاں یا خامیاں تھیں جن کی وجہ سے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے امیج کو نقصان پہنچا، میری نئے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی سے درخواست ہے آپ کم از کم پروٹوکول کے آرڈرز ضرور واپس لے لیں کیونکہ جب کسی وی وی آئی پی کے لیے ٹریفک سگنل بند ہوتے ہیں، ٹریفک بلاک کی جاتی ہے یا پھر لوگوں کے سامنے سے ٹیں ٹیں کرتی ہوئی گاڑیاں گزرتی ہیں تو لوگ ان گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور بددعائیں بھی دیتے ہیں اور کم از کم ہماری سپریم عدلیہ اور اس کے چیف کو ان بددعائوں اور اس برے بھلے سے بچنا چاہیے، ان میں اور استحصالی حکمرانوں میں فرق ہونا چاہیے، کم از کم ہماری عدالتوں کو قانون اور اخلاقیات کا احترام ضرور کرنا چاہیے۔