بے اصولوں کے سر پر اصولوں کی پگڑی
یہ 26 جولائی 2013ء کا معجزہ تھا، پاکستان مسلم لیگ ن کا وفد ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائین زیرو پہنچا، وفد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار ممنون حسین، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید شامل تھے، اس وفد کا نائین زیرو پہنچنا اور ایم کیو ایم کے جید رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، سینیٹر بابرخان غوری، حیدر عباس رضوی اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی طرف سے وفد کا استقبال قوم کے لیے حیران کن واقعہ تھا کیونکہ قوم کو 12 مئی 2013ء کی شام الطاف حسین کے وہ الفاظ یاد ہیں جن کے ذریعے انھوں نے میاں نواز شریف کو پیغام دیا تھا " کراچی کا مینڈیٹ پسند نہیں تو اسے پاکستان سے الگ کیوں نہیں کر دیتے"
قوم کو 29 دسمبر 2010ء کی وہ شام بھی یاد تھی جب وسیم اختر اور حیدر عباس رضوی نے پارلیمنٹ کے سامنے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی کے بارے میں جن بے باک خیالات کا اظہار کیا تھا اور پوری قوم نے یہ اظہار ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے براہ راست سنا تھا، آپ ان دونوں واقعات کو فراموش بھی کر دیں تو بھی آپ 7 جولائی 2007ء کو لندن میں ہونے والی اے پی سی نہیں بھول سکتے، میں خود اس اے پی سی میں شریک تھا اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا تھا، میاں نواز شریف نے تمام شرکاء کو قائل کیا ہم میں کوئی پارٹی مستقبل میں ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی،
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تجویز کی مخالفت کی، جہانگیر بدر، مخدوم امین فہیم اور ڈاکٹر صفدر عباسی نے اس تجویز کو غیر سیاسی قرار دیا مگر میاں نواز شریف نے اس پر اصرار کیا، یہ تجویز منظور ہوئی اور اس پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت تمام شرکاء نے دل کھول کر تالیاں بجائیں، آپ یہ بھی فراموش کر دیں تو بھی آپ اس حقیقت کو کیسے بھلائیں گے جس کا اظہار 26 جولائی کی شام الطاف حسین نے سید ممنون حسین کے لیے ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے وفد سے کیا تھا، الطاف حسین نے وفد سے ٹیلی فونک خطاب کیا اور فرمایا " ہم کبھی کسی کے پاس چل کر نہیں گئے، جس کو ہماری ضرورت پڑتی ہے وہ خود چل کر ہمارے پاس آتا ہے، آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی ہمارے پاس چل کر آئی اور اب پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نائین زیرو آئی، شکر ہے ہمیں کسی کے پاس نہیں جانا پڑا" الطاف حسین کی یہ بات سو فیصد درست تھی اور آپ اس حقیقت سے اب کیسے منہ موڑیں گے؟ ۔
میں نے26 جولائی کی شام جوں ہی اسحاق ڈار، پرویز رشید اور ممنون حسین کو نائین زیرو پہنچتے دیکھا، میں نے اٹھ کر فوراً ایم کیو ایم اور صدر آصف علی زرداری کو سیلوٹ کیا، مجھے پہلی مرتبہ آصف علی زرداری اور الطاف حسین سو فیصد سچے دکھائی دیے، آصف علی زرداری بھی یہی کہتے تھے، ایم کیو ایم سیاسی حقیقت ہے اور ہم جب تک اس حقیقت کے لیے مفاہمت کے دروازے نہیں کھولیں گے، ہم اس وقت تک ملک میں جمہوریت اور کراچی میں امن قائم نہیں کر سکیں گے، مجھے چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور جنرل پرویز مشرف بھی سچے محسوس ہوئے، یہ بھی کہتے تھے کراچی ایم کیو ایم کا ہے اور ہم ایم کیو ایم کی اجازت کے بغیر کراچی میں قدم رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی وفاق میں حکومت چلا سکتے ہیں .
جنرل پرویز مشرف نے 12 مئی 2007ء کو اسلام آباد میں مکے لہرا کر ایم کیو ایم کو یہ ٹریبیوٹ پیش کیا تھا " عوامی طاقت کا مظاہرہ دیکھنا ہے تو کراچی میں دیکھیں " شوکت عزیز بھی ایم کیو ایم کی سیاسی حقیقت اور چوہدری شجاعت حسین بھی الطاف بھائی کے سیاسی تدبر سے واقف تھے چنانچہ یہ بھی نائین زیرو جاتے اور الطاف حسین کا ٹیلی فونک خطاب سنتے رہے، آصف علی زرداری، شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت حسین لندن میں بھی الطاف بھائی سے ملاقات کر چکے ہیں اور یہ ان کی حلیم سے بھی مستفید ہو چکے ہیں،
قوم کو رحمن ملک، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی سچے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایم کیو ایم کی مددلیتے تھے اور اس مدد کے عوض ایم کیو ایم کا ہر مطالبہ مان لیتے تھے اور اس مطالبے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی قربانی بھی شامل تھی اور قوم کو وہ الطاف حسین بھی سو فیصد سچے نظر آتے ہیں جنھیں 2008ء کی مفاہمت کے بعد یہ کہہ کر کراچی تک محدود کر دیا گیا تھا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کبھی ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہیں کرے گی لیکن پھر 2 اپریل 2008ء کو صدر آصف علی زرداری نائین زیرو جانے اور وہاں کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے "ایم کیو ایم سے مل کر پاکستان بچائیں گے" اور آج پاکستان مسلم لیگ ن بھی اپنی وہ پھینکی ہوئی گاجر کھانے پر مجبور ہو گئی جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا ہم سیاست چھوڑ دیں گے لیکن ایم کیو ایم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائیں گے مگر صرف ایک مجبوری نہ صرف انھیں نائین زیرو لے گئی بلکہ انھیں یہ طعنہ بھی سننے پر مجبور کر دیا "ہم کبھی کسی کے پاس چل کر نہیں گئے، جس کو ہماری ضرورت پڑتی ہے وہ خود چل کر ہمارے پاس آتا ہے" اور ان لوگوں کے پاس بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، آپ نے اگر یہ سب کچھ ہی کرنا تھا تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور صدر آصف علی زرداری میں کیا کمی، کیا خرابی تھی، وہ بھی ڈالر کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے،
ان کے دور میں ڈالر ساٹھ سے سو روپے ہو گیا اور آپ کی شاندار معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں بھی ڈالر اوپر چڑھ رہا ہے، وہ بھی قرض لے کر ملک چلا رہے تھے اور آپ بھی آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر تالیاں بجا رہے ہیں، وہ بھی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے اعلان کر رہے تھے، آپ بھی اعلانات سے کام چلا رہے ہیں، ان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے اور آپ نے بھی ایک ہی ماہ میں بارہ سو سی سی ہائی برڈ گاڑیوں، نندی پور پاور پلانٹ اور 480 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ میں کرپشن کے الزامات جھولی میں ڈال لیے، ان کے دور میں اقبال زیڈ احمد جیسے لوگوں کا نام گونجتا تھا اور آج ہر طرف میاں منشاء، میاں منشاء ہو رہی ہے، ان کے دور میں بھی ڈرون حملے ہوتے تھے، پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، بیڈ گورننس انتہا کو چھو رہی تھی، لاء اینڈ آرڈر ریاست کی مٹھی سے کھسک رہا تھا اور سرکاری سسٹم اپنی بنیادوں پر بیٹھ رہا تھا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے، آپ پچھلے دو ماہ کے بم دھماکوں، خود کش حملوں، اغواء برائے تاوان کی وارداتوں، چوریوں اور ڈکیتیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں آپ کو صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دے گا، بیانات اور اعلانات کی زبان تک ایک ہے، وہ بھی مفاہمت کی گود ہری ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور یہ بھی اب " ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں " کے اصول سے اولاد نرینہ کے طلب گار ہیں، وہ بھی خوشحالی اور امن کے چاند جیب میں رکھ کر پھر رہے تھے اور یہ بھی وعدوں کے ستارے گرہ میں باندھ کر اچھل کود کر رہے ہیں اور قوم کو یوں محسوس ہوتا ہے صرف نام بدلے ہیں مقدرنہیں،
کل تک اصل اقتدار ایوان صدر میں تھا اور وزراء اعظم، وفاقی کابینہ، گورنرز اور تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اس اقتدار کی کٹھ پتلیاں اور آج اصل اقتدار وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھا ہے اور صدر، وفاقی کابینہ، گورنرز اور دو وزراء اعلیٰ اس اقتدار کے " اے ڈی سی" بن چکے ہیں، آپ کو یاد ہو گا پچھلے سال جون جولائی میں لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جلوس نکال دیتے تھے، یہ مینارپاکستان پر خیمہ لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے تمام وزراء اور سیکریٹریوں کے ہاتھوں میں کھجور کے پنکھے دے دیتے تھے، یہ راجہ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کہتے تھے اور صدر آصف علی زرداری کو گوالمنڈی چوک میں الٹا لٹکانے کا اعلان کرتے تھے لیکن آج لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو میاں شہباز شریف بھی راجہ پرویز اشرف کی ایجاد کردہ تسلیاں قوم کے سامنے رکھ دیتے ہیں، کیا یہ وہ تبدیلی تھی جس کے بارے میں میاں نواز شریف نے فرمایا تھا " آپ نے غلط ووٹ دیے تو ملک بیس سال پیچھے چلا جائے گا" میاں صاحب ملک واقعی بیس سال پیچھے جا چکا ہے کیونکہ آپ نے 20 سال قبل ملک کو نائین زیرو پر چھوڑا تھا اور آج اسے دوبارہ اسی نائین زیرو پر کھڑا کر دیا ہے، آپ قوم کو وہیں لے آئے ہیں جہاں سے آپ نے اپنی اصولی سیاست شروع کی تھی، آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔
الطاف حسین نے 26 جولائی کی شام پاکستان مسلم لیگ ن کے وفد سے ماضی کی گستاخیوں پر معذرت بھی کی، الطاف حسین نے 29 دسمبر 2010ء کے اس واقعے کا حوالہ دیا جس میں حیدر عباس رضوی اور وسیم اختر نے میاں صاحبان کی شان میں گستاخی کی، الطاف حسین نے اس واقعے پر معذرت کی اور ماضی کی تلخیاں بھلانے کی درخواست کی، میں بھی اس کالم کے ذریعے الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے میڈیا کی غلطیوں پر معذرت کرنا چاہتا ہوں، ہم لوگ بلاوجہ اصولوں کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر پھر رہے تھے، ہمیں دراصل ان سیاستدانوں نے گمراہ کر رکھا تھا، ہم چوہدری شجاعت حسین سے لے کر میاں نواز شریف تک ہر اس لیڈر کی بات کو درست سمجھ بیٹھے تھے جو ایم کیو ایم کو کراچی کا اصل مسئلہ قرار دیتے تھے اور یہ اعلان کرتے تھے ہم مر جائیں گے لیکن ان سے ہاتھ نہیں ملائیں گے،
ہم لوگ ان کی باتوں میں آ گئے، مجھے آج ماضی کے اس رویے پر شرمندگی ہے چنانچہ میں اپنی اصلاح کر رہا ہوں، میں بھی آج سے ایم کیو ایم کو سیاسی قوت تسلیم کرتا ہوں اور الطاف بھائی اور ان کے کارکنوں سے معذرت کرتا ہوں، میں آیندہ احتیاط کروں گا اور مجھے اس احتیاط کے بدلے ایم کیو ایم کے ووٹ بھی درکار نہیں ہیں کیونکہ انسان نے اگر سمجھوتہ ہی کرنا ہے تو پھر اسے دلیری دکھانی چاہیے، اتنی دلیری جتنی آصف علی زرداری پانچ سال اور چوہدری شجاعت دس سال سے دکھا رہے ہیں، انسان کو میاں نواز شریف کی طرح بے اصولی کے سر پر اصولوں کی پگڑی نہیں باندھنی چاہیے، اسے اقدار کی سیاست، اقدار کی سیاست کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے۔