الخوارزمی کیا سوچ رہا تھا
خیوا کے گرد طویل فصیل ہے، فصیل کی لمبائی دو ہزار دو میٹر، اونچائی دس میٹر اور چوڑائی آٹھ میٹر ہے، فصیل پر تین گھوڑے بیک وقت دوڑ سکتے ہیں، فصیل پر باہر کی جانب چھوٹے چھوٹے کوارٹرز بنے ہیں، یہ کوارٹرز کوارٹرز نہیں ہیں، یہ دراصل قبریں ہیں، ماضی میں امراء شہر میں رہتے تھے اور غرباء شہر کے باہر۔ بادشاہ شہر کے باہر آباد غریبوں میں سے اہم ترین لوگوں کو فصیل پر دفن ہونے کی اجازت دے دیتے تھے، ازبکستان اور پاکستان کی قبروں میں مماثلت ہے۔
ازبک بھی قبر پر تعویز بناتے ہیں اور ہم بھی لیکن ازبک قبروں کے تعویز ہم سے بلند اور خوبصورت ہوتے ہیں، یہ مردے کی تدفین کے بعد قبروں کے گرد چار سے آٹھ فٹ اونچی دیواریں کھینچتے ہیں، دیواروں پر تکونی چھت ڈالتے ہیں اور چھت اور دیواروں کو چاروں اطراف سے بند کر دیتے ہیں۔ یوں قبر دور سے کمرہ دکھائی دیتی ہے، ازبکوں نے یہ فن ترکوں سے سیکھا اور ترکوں نے شاید یہ طرز گور استنبول کے عیسائیوں سے حاصل کیا، خیوا کی فصیل پر قبریں تھیں، یہ کون لوگ تھے؟ تاریخ خاموش ہے۔
قلعے کے چار دروازے تھے، یہ آج بھی قائم ہیں، طالب دروازہ داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، یہ آج بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، گیٹ کے اندر دوسری فصیل ہے، اس کے نیچے گارڈز کے کوارٹرز ہیں، طالب گیٹ کے اندر خان آف خیوا کا سرکاری محل تھا، خان چنگیز خان کے حملے سے قبل خوارزم شاہ کہلاتے تھے لیکن یہ منگولوں کی آمد کے بعد خان بن گئے، خان کا محل قلعے کی مقدس ترین جگہ تھا، یہ بنیادی طور پر دربار تھا، خان اس عمارت میں عمائدین، وزراء، سفیروں اور خیوا کے عام لوگوں سے ملاقات کرتا تھا، دربار کے لیے تین دروازے تھے، بادشاہ بڑے دروازے سے اندر داخل ہوتا تھا، دوسرا دروازہ سفیروں، وزراء عمائدین کے لیے تھا جب کہ تیسرا دروازہ چھوٹا بھی تھا اور تنگ بھی، یہ عام لوگوں کے لیے تھا، برآمدے کے سامنے، شاہی صحن کے ایک کونے سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، سیڑھیاں اونچی بھی ہیں اور سیدھی بھی، یہ سیڑھیاں چھت پر لے جاتی تھیں، چھت پر جھروکا تھا، جھروکے سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا، میں ہانپتا، کانپتا جھروکے تک پہنچ گیا، سامنے پورا خیوا شہر بکھرا ہوا تھا، خیوا ماضی میں میناروں، درس گاہوں اور بازاروں کا شہر تھا، مینار آج بھی قائم ہیں۔
یہ مینار آپ کو جھروکے سے صاف نظر آتے ہیں، ماضی میں خیوا میں 80 مدارس تھے یہ مدارس اس وقت کی یونیورسٹیاں تھے، پوری دنیا سے طالب علم خیوا آتے تھے، طالب علم مدرسے ہی میں رہتے تھے اور یہیں پڑھتے تھے، ماضی میں پورا ازبکستان یونیورسٹی تھا، آپ بخارہ چلے جائیں، آپ سمر قند کو دیکھ لیجیے اور آپ خیوا کی تاریخ کھنگال لیجیے آپ کو ازبکستان میں سیکڑوں ہزاروں درس گاہیں ملیں گی اور ہر درس گاہ میں امام بخاری، امام ترمذی اور الخوارزمی اور البیرونی جیسے استاد بھی ملیں گے، خیوا البیرونی اور الخوازمی جیسے دانشوروں اور مورخین کا شہر تھا، شہر میں آج بھی 27 مدارس موجود ہیں، یہ شہر میٹھے کنوؤں کاروان سراؤں، بازاروں اور حماموں کا شہر بھی تھا، گیٹ کے سامنے میدان تھا۔
تاجر میدان میں اونٹ اور گھوڑے باندھ کر شہر میں آ جاتے تھے، حمام میں جاتے تھے، بازاروں کا چکر لگاتے تھے، قہوہ خانوں اور ریستورانوں میں بیٹھتے تھے، سامان تجارت بیچتے تھے اور آگے روانہ ہو جاتے تھے، بازاروں کے آثار آج بھی موجود ہیں، ماضی کے مکانات بھی ہیں اور ان میں ساڑھے تین ہزار لوگ بھی رہتے ہیں، یہ لوگ، یہ مکان، شام کا وقت اور قلعے کی گلیوں سے گزرتی تاریخ ہوا انسان کو ماضی میں لے جاتی ہے، وہ ماضی جس میں آپ الخوارزمی کو گلی کی نکڑ میں بیٹھ کر الجبرا کی بنیاد ڈالتے دیکھتے ہیں، آپ بو علی سینا کو نبض پر ہاتھ رکھ کر دل کی رگیں ٹٹولتے دیکھتے ہیں اور آپ البیرونی کو مور کے پر سے تاریخ الہند کے نئے باب تحریر کرتے دیکھتے ہیں۔
دنیا میں ہزاروں مساجد ہیں لیکن خیوا کی جامع مسجد جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ہو گی، ہم مسلمان مسجد قرطبہ کے فین ہیں لیکن تعمیراتی عقیدت کے لحاظ سے جامع مسجد خیوا قرطبہ کی مسجد سے کہیں بہتر اور شاندار ہے، یہ مسجد ہزار سال قبل بنی، بنانے والوں نے213 بلند اور مضبوط درخت کاٹنے، درختوں کی لکڑی خشک کی، دنیا بھر سے 213 ماہر نقاش جمع کیے، درخت ان نقش گروں کے حوالے کر دیے گئے، ہر نقاش کے پاس ایک درخت اور پانچ سال تھے، نقاش پانچ سال اپنے اپنے درخت تراشتے رہے، اس پر پھول بوٹے بناتے رہے، یہ تنے پانچ سال بعد 213 ستون بن گئے، ستونوں کو فرش میں گاڑھا گیا اور ان پر لکڑی کی چھت ڈال دی گئی، جامع مسجد تیار ہوگئی۔
آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو ستونوں کا طویل جنگل آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے، ہر ستون دوسرے ستون سے مختلف ہے اور ہر مختلف ستون ایک مکمل فن پارہ ہے، آپ امام گاہ میں کھڑے ہوں تو آپ کو مسجد کے تمام ستون دکھائی دیتے ہیں، آپ مسجد کے کسی ستون کے قریب چلے جائیں، آپ کو وہاں سے امام گاہ اور امام کی جائے نماز دونوں دکھائی دیں گی، امام گاہ میں بازگشت کا قدیم نظام بھی تھا، آپ امام کی جگہ کھڑے ہو کر سرگوشی بھی کریں تو آپ کی آواز پوری مسجد میں گونجے گی، مسجد کی چھت میں تین جگہوں پر تین چکور سوراخ ہیں، یہ سوراخ روشنی کے لیے بنائے گئے تھے، یہ روشنی پوری مسجد کو روشن رکھتی تھی، مسجد اب مسجد نہیں رہی، یہ میوزیم بن چکی ہے چنانچہ لوگ جوتوں سمیت عمارت میں داخل ہو جاتے ہیں۔
میری گائیڈ بھی اسکرٹ کے ساتھ جوتوں میں اندر چلی گئی، میں کیونکہ کمزور دل مسلمان ہوں چنانچہ میں نے اپنے جوتے دہلیز پر اتار دیے اور ننگے پاؤں اندر داخل ہو گیا، فرش خوفناک حد تک ٹھنڈا تھا، میں خیوا کی جامع مسجد کے اندر چلتے پھرتے بار بار سوچتا تھا، یہ مسجد تعمیراتی لحاظ سے قرطبہ سے کہیں بہتر ہے لیکن اسے وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو مسجد قرطبہ کو نصیب ہوئی، کیوں؟
شاید اس کی وجہ یورپ اور سقوط قرطبہ تھا، اندلس کا زخم آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں تازہ ہے اور مسجد قرطبہ اور غرناطہ کے محلات اس زخم کی آخری نشانیاں ہیں، قرطبہ یورپ میں عیسائیوں کے عین درمیان بھی موجود ہے اور ہم یورپ کی وجہ سے بھی اس کی قدر کرتے ہیں جب کہ خیوا کی جامع مسجد مسلمان ملک میں واقع ہے اور مسلمان اپنے ممالک میں موجود یادگاروں کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنی یہ غیروں کے آثار قدیمہ کو دیتے ہیں، یہ مسجد حقیقتاً تعمیراتی معجزہ ہے اور میں اپنے آرکیٹکٹ دوست اعجاز قادری کو مشورہ دوں گا وہ ایک بار خیوا ضرور جائیں اور خیوا کی جامع مسجد دیکھیں، یہ بھی حیران رہ جائیں گے۔
خان آف خیوا کا حرم سرا بھی قابل دید تھا، اس میں 163 کمرے ہیں، آپ مختلف برآمدوں، دلانوں اور ڈیوڑھیوں سے ہوتے ہوئے آخر میں بادشاہ کے حرم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ ایک چکور کمپلیکس ہے، آپ جوں ہی آخری ڈیوڑھی سے گزر کر کمپلیکس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ ایک وسیع صحن میں پہنچ جاتے ہیں، صحن کے چاروں اطراف کمرے ہیں، دائیں جانب کمروں کے پانچ سیٹ ہیں، آخری سیٹ بادشاہ کی خواب گاہ تھا، یہ سونے کے کمرے اور ڈرائنگ روم پر مشتمل تھا، بادشاہ کے چیمبر کے ساتھ قطار میں چار مزید چیمبرز ہیں، یہ بادشاہ کی چار ملکاؤں کے کمرے تھے، ملکاؤں کے چیمبرز کے بعد کچن تھا اور کچن کے ساتھ کمروں کی لمبی قطار ہے۔
یہ کنیزوں کے کمرے تھے، میں نے خاتون گائیڈ سے پوچھا "کیا بادشاہ کو واش روم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی" خاتون شرما گئی، اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور انگلی سے صحن کی طرف اشارہ کیا، وہاں فوارے کے آثار تھے، گائیڈ نے بتایا "بادشاہ فوارے پر نہاتا تھا جب کہ باقی ضروریات کے لیے غلام اور کنیزیں تھیں، وہ سونے اور چاندی کی بالٹیاں لے کر آتی تھیں اور لے کر واپس چلی جاتی تھیں، میری ہنسی نکل گئی، خاتون گائیڈ نے وجہ پوچھی، میں نے مسکرا کر عرض کیا، انگریزوں نے شاید اسی صورتحال کے لیے " ہولی شٹ" کی اصطلاح ایجاد کی۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو دنیا میں ایک اور پاکستان بھی ہے، یہ ازبکستان میں ہے اور یہ ہمارے پاکستان سے پہلے وجود میں آیا تھا، قراقل پاکستان ازبکستان کا رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، یہ صوبہ تقریباً آزادی حاصل کر چکا ہے، یہ نیم خود مختار علاقہ ہے، یہ لوگ ازبک کرنسی استعمال کرتے ہیں، یہ ازبکستان کے الیکشنوں میں بھی شریک ہوتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجوداپنی الگ پارلیمنٹ بھی رکھتے ہیں اور اپنا آئین بھی۔ قراقل پاکستان کی سرحدیں خوارزم صوبے کے ساتھ ملتی ہیں، خشک سمندر ارل سی اسی علاقے میں واقع ہے، قراقل معدنیات سے بھرپور مگر غیر ترقی یافتہ علاقہ ہے، ہمیں پڑھایا جاتا ہے، بانیان پاکستان نے پاکستان میں شامل صوبوں کے ابتدائی لفظ جوڑ کر لفظ پاکستان بنایا، یہ بات اگر درست ہے تو پھر ہم سے پہلے قراقل پاکستان کیوں تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں بانیان پاکستان نے پاکستان کا لفظ قراقل پاکستان سے لیا ہو؟
آپ اگر تحقیق کرنا چاہیں تو آپ قراقلی ٹوپی پر تحقیق کرلیں، یہ ٹوپی بھی قراقل پاکستان سے ہمارے خطے میں آئی تھی اور یہ قراقل کی وجہ سے قراقلی کہلاتی ہے۔ اور پھر خیوا کے قلعے کے سامنے شام اتر رہی تھی، میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا الخوارزمی کے مجسمے تک پہنچ گیا، الخوارزمی نیم ایستادہ حالت میں بیٹھا تھا اور اس کے چہرے پر فکر کی درجنوں لکیریں بکھری تھیں۔"الخوارزمی کیا سوچ رہا ہے؟ " میں نے اپنے آپ سے پوچھا، میرے اندر سے آواز آئی، یہ سوچ رہا ہے "مسلمان بھی کیا قوم ہیں، میں نے انھیں الجبرا جیسا علم دیا، پوری دنیا نے فائدہ اٹھایا، یہ چاند تک پہنچ گئی لیکن مسلمان آج بھی نقل لگائے بغیر الجبرا کے امتحان میں پاس نہیں ہوسکتے، یہ کیا قوم ہیں، یہ نکاح ہو، علم ہو یا جنگ ہر میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں "۔
(نوٹ: میرے پچھلے کالم کے چند حقائق پر احباب نے اعتراض کیا، یہ اعتراضات درست ہیں، یہ درست ہے سلطان صلاح الدین ایوبی جلال الدین مینگو باردی کی پیدائش سے پہلے انتقال کر گئے لیکن ایوبی ریاست ان کے انتقال کے بعد بھی موجود رہی، یہ لوگ ایوبی کہلاتے تھے، ایوبیوں نے سلجوقوں کے ساتھ مل کر مینگو باردی کے خلاف اتحاد بنایا اور جلال الدین کو شکست دی، سلطان صلاح الدین کے ایک صاحبزادے نے جلال الدین کے قتل کے بعد خوارزمی فوج کو اپنے لشکر میں شامل کر لیا، یہ خوارزمی فوجی یوروشلم گئے اور ایک ایوبی آقا کے حکم پر سلطان صلاح الدین کے فتح شدہ بیت المقدس کا قبضہ دوسرے ایوبی بھائی سے لے لیا، میں یہ تفصیل کالم میں نہیں لکھ سکا جس پر معذرت خواہ ہوں، میں رہنمائی کرنے والے احباب کا بھی مشکور ہوں۔)